Column

27فروری: افلاک میں ہوں شعلہ رخشاں دمِ پروا

تحریر : فہمیدہ یوسفی

فضائی جنگ، یا ایریل کامبیٹ، ایک ایسا تصور ہے جو جنگی تاریخ میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم بیسویں صدی کے دوران اس کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ جنگوں میں زمین، سمندر اور فضاء کے محاذوں پر لڑائی کے نئے طریقے متعارف ہونے کے ساتھ فضائی جنگ نے جنگی حکمت عملی اور جنگی نتائج میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران دنیا نے پہلی مرتبہ فضائی جنگ کا تجربہ کیا، جہاں طیاروں کا استعمال جاسوسی، بمباری اور دشمن کے طیاروں کا پیچھا کرنے کے لیے کیا گیا۔ لیکن اُس وقت فضائی جنگ کی نوعیت وہ نہیں تھی جو آج ہمیں نظر آتی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران فضائی جنگ کی نوعیت میں اہم تبدیلیاں آئیں، خاص طور پر طیاروں کے استعمال میں جب ان کا مقصد دشمن کے طیاروں کو مار گرانا، بمباری کرنا اور جنگ کی رفتار کو تیز کرنا تھا۔ جنگ کے دوران، ہوا کے میدان میں ایک نئی قسم کی لڑائی کا آغاز ہوا جہاں طاقتور جنگی طیارے اپنے دشمنوں کے طیاروں کو تباہ کرنے کے لیے میدان جنگ میں اترتے، اور اس دوران فضائی قوت نے جنگ میں اہمیت حاصل کی۔دوسری جنگ عظیم کے دوران جدید جنگی طیاروں کی تکنیکی ترقی اور جدید آلات نے فضائی جنگ کو ایک نیا رخ دیا۔ طیاروں میں رفتار، ہتھیاروں کی طاقت اور سسٹمز کی بہتری نے ایریل کامبیٹ کو مزید پیچیدہ اور مفصل بنا دیا۔ اس دور میں جہازوں کا استعمال نہ صرف دفاعی بلکہ حملہ آور کارروائیوں میں بھی کیا جانے لگا۔ مختلف اقسام کے جنگی طیارے، جیسے بمبار، فائٹر طیارے اور ٹرانسپورٹ طیارے، ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیے گئے اور جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
20ویں صدی کے آخر میں، خاص طور پر سرد جنگ کے دوران فضائی جنگ نے ایک اور نئی شکل اختیار کی۔ جدید ٹیکنالوجی جیسے راڈار، اسٹرائیک بمباری، میزائل سسٹمز اور تیز رفتار طیاروں نے فضائی جنگ کو مزید چیلینجنگ اور موثر بنایا۔ اس تیزرفتار ترقی نے نہ صرف جنگی حکمت عملی میں تبدیلیاں کیں بلکہ دنیا بھر کے فوجی اداروں کے لیے ایک نیا میدان بھی متعارف کرایا۔پاکستانی فضائیہ بھی ایریل کامبیٹ میں اپنی مثال آپ ہے اور اس کی تاریخ بھی شجاعت، مہارت اور جدیدیت سے بھری ہوئی ہے، جو 1947ء سے لے کر آج تک عالمی فضائی جنگی میدان میں اپنا نمایاں اور منفرد مقام رکھتی ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 13اپریل 1948ء کو یہ فرمایا تھا: ’’ طاقتور ہوائی فوج کے بغیر ملک کسی جارح کے رحم و کرم پر ہوتا ہے‘‘۔ قائد اعظمؒ کا یہ ویژن آج پاک فضائیہ نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے اور یہ نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر اپنی اہمیت کا لوہا منوا چکا ہے۔
گلوبل فائر پاور ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق، پاک فضائیہ کا شمار دنیا کی بہترین فضائی افواج میں ہوتا ہے، اور اس وقت اس کا دنیا کی بہترین فضائی افواج میں ساتواں نمبر ہے جو نہ صرف قائد اعظم کے ویعن کی کامیاب تکمیل ہے، بلکہ ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کا غماز بھی ہے، جس کی فضائیہ دنیا کی طاقتور ترین فضائی افواج میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ ترقی اور قوت، اس عزم کی علامت ہے کہ پاکستان اپنے دفاع میں کبھی کمزوری نہیں دکھائے گا، اور نہ ہی کسی جارحیت کو اپنے خلاف برداشت کرے گا۔
پاکستانی فضائیہ کی تاریخ روشن لمحات سے بھری پڑی ہمارے شاہینوں نے ہمیشہ ہی اپنی مہارت اور جانبازی کی بدولت فضائوں میں اپنی حکمرانی قائم رکھی ہے اور مکار دشمن کی فضائی طاقت کو ہمیشہ خاک میں ہی ملا یا ہے۔ہم بچپن سے ہی ایم ایم عالم کی شجاعت کے کارنامے سنتے آئے ہیں جس کی وجہ سے وہ دنیا کے واحد ہوا باز بنے جس نے ایک ہی مشن میں سب سے زیادہ جہاز جن کی تعداد نو ہے گرائے تھے ۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران سرگودھا کے محاذ پر صرف ایک منٹ میں پانچ بھارتی ہنٹر جنگی طیارے مار گرائے، جن میں سے چار طیارے تو صرف 30سیکنڈ کے اندر ہی تباہ ہو گئے تھے۔ یہ ایک ایسا عالمی ریکارڈ ہے جسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا ہے۔ سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی شہید، جو اپنے ساتھی ہوا بازوں کے ساتھ یکم ستمبر 1965ء کی شام چھمب سیکٹر میں بیس ہزار فٹ کی بلندی پر دشمن کے طیاروں سے نبرد آزما تھے۔
نے بھارتی فضائیہ کے چار حملہ آور طیاروں میں سے تین کو کامیابی سے مار گرایا۔ 6ستمبر 1965ء کی شام جب انہیں بھارتی فضائی اڈے ہلواڑا پر حملہ کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ لاہور کی فضائی سرحد کو محفوظ بنایا جا سکے، تو اس مشن میں انہوں نے اپنی فارمیشن کو بھرپور دفاع فراہم کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی بے مثال بہادری اور جرات کی بدولت انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ہلالِ جرات اور ستارۂ جرات جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ 1967ء میں، پاک فضائیہ نے عرب اسرائیل جنگ میں بھی اپنی بہادری اور مہارت دکھائی، اور 6روز میں 10اسرائیلی طیارے تباہ کیے۔ ان کارناموں نے پاک فضائیہ کو عالمی سطح پر ایک مضبوط نمایاں مقام دلوایا۔1971ء میں بھی انتہائی نامساعد حالات کے باوجود پاک فضائیہ نے 45بھارتی طیاروں کو نقصان پہنچایا۔
اور پھر آن پہنچا 27فروری 2019ء کا وہ یاد گار دن جسے نا صرف پاکستان فضائیہ کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بلکہ جدید دور میں ایریل کامبیٹ کے انتہائی خطرناک اور پیچیدہ معرکے کے طور پر یاد رکھا جائیگا جہاں پاکستانی فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کو ان کے گھر میں اپنی مرضی کے ٹارگٹ اور وقت طے کرکے گھس کر مارا بلکہ ان کو اور دنیا بھر کو بتا دیا کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔ پاکستانی فضائیہ کی اس کامیابی کے پیچھے صرف ہمارے شاہینوں کی مہارت اور حوصلہ نہیں تھا بلکہ یہ بھارتی فضائیہ کی ناکامی اور اس کی بدعنوانی کے سامنے پاکستانی دفاعی طاقت کی اخلاقی فتح بھی تھی۔
بھارتی فضائیہ ہمیشہ ہی مختلف اسکینڈلز کی زد میں رہی ہے کرپشن، اختلافات اور حادثات کی خبریں نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں گونجتی رہتی ہیں۔ بھارتی فضائیہ کی سب سے بڑی کمزوری اس کے طیاروں کی مینوفیکچرنگ میں ناقص مواد کا استعمال ہے، جس کے باعث اس کے طیارے مسلسل حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بھارتی فضائیہ کی کمزور حکمت عملی اور فیصلوں پر بھی اس پر سخت تنقید کی جاتی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت نے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اپنے طیاروں اور جنگی سازوسامان کی مناسب دیکھ بھال میں غفلت برتی ہے۔ ایک مثال اس کی رافیل طیاروں کی خریداری ہے، جسے بھارتی فضائیہ کے لیے ایک انقلاب قرار دیا گیا تھا۔ مگر یہ خریداری نہ صرف تاخیر کا شکار ہوئی بلکہ اس میں بدعنوانی کی کہانیاں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ بھارتی فضائیہ کے طیارے اکثر تکنیکی مسائل اور ناکامیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، جو ان کی جنگی استعداد کی صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں۔ حال ہی میں، ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کو پر بھارتی ایئر چیف مارشل سنگھ خوب گرجے برسے کیونکہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ ایم کے 1اے طیاروں کی فراہمی مقررہ وقت پر نہیں کر سکا حتی کہ ایک بھی طیارہ مقررہ تاریخ تک تیار نہیں ہو سکا، اور یہ تاخیرمودی حکومت کی جانب سے کی گئی ۔
ایئر چیف مارشل سنگھ نے اس صورتحال پر کہا کہ ان کے لیے ان ناکامیوں کا سامنا کرنا اب ایک ناقابلِ برداشت حقیقت بن چکا ہے، کیونکہ یہ مسلسل ناکامیاں نہ صرف ان کی فضائیہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان بن رہی ہیں بلکہ بھارت کے دفاعی منصوبوں پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا رہی ہیں۔
جبکہ دوسری جانب پاکستان کی فضائیہ اپنے محدود وسائل میں ناصرف جدید طیاروں سے لیس ہے بلکہ اس کی حکمت عملی اور تربیت بھی بے مثال ہے۔ پاکستان نے اپنے دفاع کے لیے جو تیاری کی ہے وہ صرف ٹیکنالوجی میں نہیں بلکہ اعلیٰ حکمت عملی اور مربوط فوجی منصوبہ بندی میں بھی بہت آگے ہے۔ آپریشن سویفٹ ریٹارٹ اس کی بہترین مثال ہے۔پاکستان کی فضائیہ کے پاس جدید ترین جے ایف 17تھنڈر، جیٹین سی ، ایف سولہ ایف سیون میراج تھری اور میراج فائیو جیسے طیارے موجود ہیں، جن کی مدد سے پاکستان نہ صرف اپنے دفاع کو مضبوط کر رہا ہے بلکہ اس کی فضائیہ کسی بھی قسم کی جارحیت کا موثر جواب دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔
27فروری کو جب بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کی کوشش کی، پاکستانی فضائیہ کے شاہینوں نے دشمن کی جارحیت کا جو بھرپور جواب دیا، اس نے نہ صرف بھارت کو حیران کن شکست دی بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی فضائیہ کی طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔
پاکستانی اور بھارتی فضائیہ کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستانی فضائیہ کا مقصد نہ صرف دفاع کرنا ہے بلکہ اپنی موثر حکمت عملی کے تحت دشمن کو شکست دینا ہے۔ دوسری طرف، بھارتی فضائیہ ہمیشہ اپنے غرور اور طاقت کے بیانیے کے تحت عالمی سطح پر ایک طاقتور فضائیہ ہونے کا دعویٰ کرتی رہی ہے، لیکن جب ان کے طیارے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کو منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔
پاکستانی فضائیہ نے اپنی جنگی حکمت عملی کو بہترین طریقے سے تیار کیا ہے، جس میں جدید ریڈار اور ڈرون ٹیکنالوجی، الیکٹرانک جنگی سسٹمز اور فضائیہ کے طیاروں کی موثر استعمال کی اہمیت شامل ہے۔ پاکستان نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، چاہے وہ زمین پر ہو، سمندر میں ہو یا فضاء میں۔
پاکستانی فضائیہ نے اپنے طیاروں میں جدید ترین الیکٹرانک وارفیئر سسٹم کو شامل کیا ہے، جو دشمن کے ریڈار اور میزائل سسٹمز کو غیر موثر بنانے کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اس سسٹم کی مدد سے پاکستان اپنے طیاروں کو دشمن کی نگرانی سے بچاتے ہوئے دشمن کے طیاروں کی تدابیر کو ناکام بنا سکتا ہے۔پاکستان کی فضائیہ کے پاس جدید ترین ریڈار سسٹمز ہیں، جو نہ صرف طیاروں کی درست شناخت کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ انہیں دشمن کے طیاروں کا سراغ لگانے اور تباہ کرنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان سسٹمز کا استعمال آپریشن سویفٹ ریٹارٹ میں بہت موثر ثابت ہوا، جب پاکستانی طیاروں نے بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو کامیابی سے ٹریک کیا اور انہیں مار گرایا۔14 فروری 2019ء کو بھارت کے پلوامہ میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد، بھارت نے پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پوری دنیا میں ایک زہر بھرا پروپیگنڈہ شروع کیا۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس موقع پر سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات دیے اور انتخابی مہم کا حصہ بنایا۔ پلوامہ حملے کو بھارت نے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا تاکہ پاکستان کے خلاف کوئی کاروائی کی جا سکے، اور ان کی حکومت کی پوزیشن مضبوط ہو سکے۔پاکستان نے بھارت کی ان بے بنیاد الزامات کو مسترد کیا اور واضح طور پر کہا کہ اس حملے کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھارت نے اپنے وزیر اعظم کی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف فضائی حملے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔26فروری 2019ء کی رات کو بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کی کوشش کی۔ بھارتی فضائیہ کے طیارے پاکستان کے مختلف علاقوں میں حملہ کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن پاکستانی فضائیہ کے شاہینوں نے انہیں فوری طور پر روکا۔ بھارتی طیاروں نے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، لیکن پاکستانی فضائیہ کے طیارے پہلے ہی تیار تھے۔
پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے اپنی انتہائی مہارت سے بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو پیچھے دھکیل دیا اور ان کے حملے کو ناکام بنا دیا۔ اور دوسرے ہی روز ، پاکستان نے بھارت کی فضائی حدود میں گھس کر انہیں بھرپور جواب دیا۔ا بھارتی فضائیہ کے چھکے چھڑا دیے اور ان کے حملوں کو مثر طور پر پسپا کیا۔آپریشن سویفٹ ریٹارٹ کی سب سے دلچسپ اور یادگار بات بھارتی پائلٹ ابھینندن کی گرفتاری تھی۔ بھارتی فضائیہ کے طیارے جب پاکستان کی فضائی حدود میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے، تو پاکستانی فضائیہ نے ان کے ایک طیارے کو تباہ کر دیا۔ اس تباہ شدہ طیارے کے پائلٹ ابھینندن نے اپنے طیارے سے ایجیکٹ کیا اور پاکستانی حدود میں آ کر گرا۔ پاکستانی فوج نے فوراً اسے گرفتار کیا اور اسے جنگی قیدی کے طور پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔
یہ دونوں طیارے پاک فضائیہ کے دو عظیم شاہینوں، ونگ کمانڈر نعمان علی خان اور سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی نے گرائے تھے جنہوں نے دشمن کے عزائم کو زمین بوس کرتے ہوئے اپنے حوصلے اور مہارت کی ایک لازوال مثال قائم کی۔ ونگ کمانڈر نعمان علی خان نے بھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھینندن کے مگ 21کو اتنی مہارت سے نشانہ بنایا کہ وہ سیدھا زمین پر گرا ۔ جبکہ سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی نے بھارت کے ایک اور جنگی جہاز، ایس یو30کو تباہ کر دیا۔ ان دونوں شاہینوں کی مہارت اور صلاحیتوں نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔
پاکستانی حکومت نے ابھینندن کی ساتھ ایک انتہائی مہذب انداز میں سلوک کیا اور اسے ’’ فنٹاسٹک ٹی‘‘ پیش کی۔ یہ واقعہ نہ صرف بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بنا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی مہمان نوازی اور امن کے پیغام کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنا ۔ اس واقعے کے بعد بھارت کے میڈیا نے جو پراپیگنڈا کیا، اس کے باوجود ابھینندن نے اپنی گرفتاری کے وقت پاکستان کی مہمان نوازی کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔
پاکستان کی فضائیہ نے 27فروری 2019ء کو جو کامیابی حاصل کی، اس نے دنیا بھر میں پاکستان کے دفاعی عزم اور صلاحیتوں کو تسلیم کروا دیا۔ عالمی برادری نے پاکستان کی اس کامیابی کو سراہا اور یہ تسلیم کیا کہ پاکستان ایک مضبوط قوم ہے جسے جنگ کے میدان میں شکست دینا ناممکن ہے۔ آپریشن سویفٹ ریٹارٹ نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کی فضائیہ نہ صرف دفاعی لحاظ سے بھارتی فضائیہ سے کہیں طاقتور ہے جسے عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا۔
آپریشن سویفٹ ریٹارٹ 27فروری 2019ء کا دن پاکستانی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ اس دن پاکستان نے اپنے دفاعی عزم، حکمت عملی اور طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا، جس نے بھارت کی فضائیہ کی ناکامی اور بے عملی کو بے نقاب کر دیا۔ بھارت کی فضائیہ کے غرور اور دعووں کا پردہ فاش ہوا اور پاکستان نے ایک مضبوط قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ یہ دن ہمیشہ پاکستانیوں کے دلوں میں فخر کی علامت رہے گا اور تاریخ کے پنوں میں سنہری حروف میں جھلملاتا رہیگا۔
فہمیدہ یوسفی

جواب دیں

Back to top button