Column

رمضان المبارک سے پہلے مہنگائی کا طوفان

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
وطن عزیز کے عوام گزشتہ کئی برسوں سے گرانی کے عذاب کو بھگت رہے ہیں،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مہنگائی میں مزید شدّت آتی چلی جا رہی ہے۔ویسے تو ہر ماہ ہی گرانی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔یوں عوام کے لیے زیست کو دُشوار بنا دیا گیا ہے۔اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ابھی رمضان کی آمد ،آمد ہے کہ ہر شے کی قیمتوں کو پر لگنے شروع ہوگئے ہیںاور رمضان المبارک کی آمد سے متصل قبل ملک کے اندرمہنگائی میں طوفانی اضافے نے پوری قوم کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ جبکہ ملک بھرمیں مہنگائی نے عوام سے قوت خرید چھین لی ہے،حکومت کی جانب سے مہنگائی کم کرنے اور قیمتوں میں اضافہ کو نوٹس لینے کی خبر بھی اب اپنی اہمیت کھو رہی ہے بلکہ عوامی سطح پر ایسے کسی بیان کے بعد خوف محسوس کیا جاتا ہے۔کیونکہ حکومت میں ایسے عناصر موجود ہیں جو وزیر اعظم کے بیان کے فوراً بعد مہنگائی کا تازیانہ رسید کرکے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حکومت خصوصاً وزیر اعظم کی جانب سے ایسے عناصر کا نوٹس نہ لیا جانا بھی سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں، مشروبات، جلد خراب ہو نیوالی غذائی اشیا، ریسٹورنٹ اور ہوٹلز کے بلوں، گھروں کی تزئین و آرائش والی اشیا ،ادویات، کپڑوں، جوتوں، یوٹیلیٹی بلوں اور روزمرہ استعمال کی اشیا، چکن، پیاز، انڈے، چاول، دالوں، آٹے، خوردنی تیل، تازہ پھلوں، دودھ، مچھلی، گوشت اور سبزیات کی مد میں ہوا ہے، جو 12سے 96فیصد تک ہے۔ پٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کے نرخوں میں بتدریج ہو نیوالا اضافہ تو عام آدمی بشمول غریب مزدور اور تنخواہ دارطبقات کیلئے عملا نا قابل برداشت ہو چکا ہے۔ عوام یہ سوچنے اور سوال اٹھانے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ملک کا نظام ہمارے حکمران چلا رہاہے جو ہماری آزادی اور خودمختاری کے بھی قطعی منافی ہے۔ ہارا یہ المیہ ہے کہ ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات نے اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر عوام کے مسائل اور مفادات کا کبھی سوچا ہی نہیں جن کے ہاتھوں قیام پاکستان کے مقاصد بھی گہنائے جاتے رہے ہیں۔ بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کا قیام پاکستان کا مقصد تو یہی تھا کہ بر صغیر کے مسلمانوں کو اپنے الگ خطہ ارضی میں جہاں مذہبی آزادی حاصل ہوگی وہیں انہیں ہندو اور انگریز کی غلامی اور انکے مسلط کردہ ساہوکارانہ نظام سے بھی نجات مل جائیگی مگر قائد اعظم کے انتقال کے بعد اقتدار کی باگ ڈور جس کے بھی ہاتھ میں آئی اس نے قیام پاکستان کے مقاصدکو یکسر فراموش کر دیا۔ ہمارا خطہ ارضی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر کسی حکمران نے ان وسائل کو ملک وملت کی بہتری اور فلاح کیلئے بروئے کارلانے اور فروغ دینے کی جانب کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ اگر تیل گیس اور قیمتی دھاتوں کی شکل میں زیرزمین موجود قیمتی ذخائر کو جامع منصوبہ بندی کے تحت بروئے کار لانے کی قومی پالیسی وضع کی گئی ہوتی تو ہم ان قیمتی قدرتی وسائل سے مالا مال ہوتے اور ہمیں انکے حصول کیلئے کسی کا دست نگر نہ ہونا پڑتا۔ ہم نہ صرف ان ذخائر سے اپنی ضروریات پوری کرتے بلکہ انہیں برآمد کر کے اپنے زرمبادلہ میں بھی اضافہ کرتے رہتے۔ نتیجتاً ہمیں آئی ایم ایف کی ناروا شرائط پر بنی قرض کے حصول کیلئے کشکول اٹھا کر اسکے در پرکبھی نہ جان پڑ تامگر حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجہ میں مہنگائی کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ عملاً اس ماہ مقدس کے دوران ناجائز منافع خور طبقات کے ہی وارے نیارے ہوتے ہیں۔ مہنگائی کے سونامیوں سے عوام پر ٹوٹنے والی افتاد تو در حقیقت حکمرانوں کیلئے لمحہ فکر یہ ہونی چاہیے۔ اگر حکومت نے مہنگائی کو نہ روکاتو ستائے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل کر سیاسی عدم استحکام کا سبب بن سکتے ہیں۔حکومت کو رمضان سے پہلے اس مہنگائی کا نوٹس لینا چاہیے اور ابھی سے کوئی سد باب کرنا چاہیے۔عوام ان مزید مہنگائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔جبکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دُنیا بھر کے مہذب ممالک میں اُن کے خصوصی دنوں اور تہواروں کے موقع پر اشیاے ضرور یہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہے جب کہ وطن عزیز میں اُلٹی گنگا بہتی ہے اور ہر شے کے دام بڑھ جاتے ہیں،عوام پر مہنگائی کے نشتر اس بے رحمی سے برسائے جاتے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر سال ماہ رمضان المبارک سے قبل اشیائے خورونوش کی قیمتوںمیںاضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو مہنگائی پشتو کی اس کہاوت کے برابر ہے کہ’’ لاس د بری کار دے‘‘ یعنی اپنے ہاتھ کا کام ہے جس نے ریٹ جتنا زیادہ بڑھا دیا بس بڑھ گیا کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے، آخر یہ مجسٹریسی نظام کس مرض کی دوا ہے کہ مہنگائی تو روز بروز ترقی کر رہی ہے لیکن مجسٹریسی نظام تاحال کارگر ثابت نہیں ہوسکا جبکہ گزشتہ کئی سال سے یوٹیلیٹی اسٹورز کے ملازمین سبسڈی والی اشیا صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے مافیا کے ساتھ ساز باز کرکے کروڑوں روپے کمالیتے ہیںیہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ غیر مسلم ممالک میں اس کے برعکس صورت حال نظر آتی ہے۔ غیر مسلموں کے تمام تہواروں پر وہ لوگ کئی اشیاء کی قیمتیں اتنی کم کر دیتے ہیں کہ لوگ کئی ماہ کی خریداری ان تہواروں کے موقع پر کر لیتے ہیں۔ یورپ میں تہواروں کی آمد سے پہلے ہی اشیا کی قیمتوں میں کمی شروع ہو جاتی ہے جو 25سے 50فیصد تک ہوتی ہے، یعنی سو روپے کی چیز 50روپے میں بہ آسانی دستیاب ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرسمس اور ایسٹر کے مواقع پر محض مسیحی ہی خریداری کے لیے نہیں نکلتے بلکہ مسیحی ملکوں میں رہنے والے مسلمان اور دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لیتے ہیں۔ ان ملکوں میں عمومی طور پر امیر اور غریب کے طرزِ زندگی میں خاصا فرق دکھائی دیتا ہے لیکن جب کوئی تہوار آتا ہے تو قیمتوں میں اچھی خاصی کمی معاشرے کے ہر طبقے کے لیے ریلیف کا باعث بنتی ہے، یوں تہوار کی خوشیاں پورا معاشرہ یکساں طور پر محسوس کرتا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ ہندو بھی اپنے تہواروں کے موقع پر اشیاء سستی کر دیتے ہیں۔ یہ شاید صرف پاکستان ہے جہاں رمضان کے مہینے کو کمانے کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے اور جب عید کی خریداری کا عمل شروع ہوتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ باقاعدہ لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی حکومت کے نمائندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کے خاتمے کے لئے مرکزی کردار اداکروایا جائے۔ ضروری ہے کہ حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے، کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔ ملک بھر میں مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے ناصرف راست اقدامات کیے جائیں بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی کے عذاب سے بچانے کو موثر بندوبست بھی کیا جائے۔ تمام بازاروں کا ذمے داران دورہ کریں اور وہاں سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیاء ضروریہ کی فروخت ممکن بنائیں، گراں فروشوں کے خلاف کڑی کارروائیاں کی جائیں۔

جواب دیں

Back to top button