Columnمحمد مبشر انوار

ضمیر یا ۔۔۔

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
وکلاء برادری کی دنیا بھر میں تکریم ایک مسلمہ حیثیت رکھتی ہے اور انہیں کسی بھی معاشرے کا زیرک و حساس طبقہ سمجھا جاتا ہے کہ جن کے کاندھوں پر آئین و قانون کی بالادستی کی ذمہ داری، ان کی پیشہ ورانہ تعلیم تفویض کرتی ہے۔ وکلاء تنظیمیں، اختلاف رائے رکھنے کے باوجود، آئین و قانون کی خاطر ہمیشہ متفق و متحد دکھائی دیتی ہیں اور کسی بھی صورت اپنے پیشہ سے بددیانتی کرتی دکھائی نہیں دیتی، بلکہ قوانین کے حوالے سے بنیادی جیورس پروڈنس کا تحفظ ان کی اولین ترجیح رہتی ہے، عدلیہ کی آزادی و انصاف کی موثر فراہمی پر ان کی نظر رہتی ہے، جن پر سمجھوتہ خال ہی وکلاء برادری کی جانب سے نظر آتا ہے۔ تاہم ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہو چکا ہے کہ جہاں ظلم و فسطائیت کہیں یا کامل ہوس اقتدار میں اندھے ’’ حکمرانوں‘‘ کی خواہش کہ یہاں اس خواہش کی تکمیل میں، بنیادی جیورس پروڈنس کو کسی خاطر میں نہیں لایا جا رہا اور دوام اقتدار کی خاطر ،مضحکہ خیز قوانین تک متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ ایسے قوانین کہ جن کے متعلق آج کی دنیا میں سوچنا بھی ممکن نہیں کہ کوئی مقننہ ایسے بے تکے اور مخصوص افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے، ان کی آسانی کے لئے قوانین بنائے گی۔ موجودہ حکومت میں برسراقتدار آتے ہی، بعداز رجیم چینج، سب سے پہلے جن قوانین کو تبدیل کیا گیا، ان کا مقصد سوائے ذاتی لوٹ مار کو تحفظ دینے اور اپنی گردنوں کو بچانے کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا، کہ اگر قوانین تبدیل نہ ہوتے تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ حکمران آج اقتدار پر نظر آتے، بلکہ ان کی مستقل جگہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتی۔ ان قوانین کو تبدیل کرنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے گئے، یہ کوئی راز نہیں رہا بلکہ ساری دنیا اس عمل سے بخوبی واقف ہے تاہم مدعی سست گواہ چست کے مصداق، بیرونی دنیا کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے ان معاملات میں دخل اندازی کرے، جو ہم خود اپنے عدم استحکام کے لئے منتخب کر رہے ہیں کہ بیرونی دنیا کا بھی تو یہی مقصد ہے کہ ہم مستقلا عدم استحکام کا شکار رہیں، البتہ دکھاوے کے لئے وہ ہمارے عدم استحکام پر اپنے تحفظات کا اظہار مگر مچھ کے آنسوئوں کی صورت ضرور کرتے ہیں۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ وکلاء برادری، جس کی سب سے اہم ذمہ داری ہی، عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے ہے ، وہ بھی ایسے قوانین پر لب کشائی نہیں کر رہی ،بالخصوص جو وکلاء تنظیموں کے منتخب عہدیدار رہے ہیں یا موجود ہیں، ایسی قانون سازی کے خلاف بروئے کار آتے دکھائی نہیں دئیے بلکہ کسی نہ کسی صورت ایسی قانون سازی کا تحفظ کرتے دکھائی دئیے یا اس کی مخالفت کرنے والے گروہ کی کاوشوں کو صفر بناتے دکھائی دئیے۔
سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے مشہور زمانہ فیصلے کہ جس میں انہوں نے چیف جسٹس کی تعیناتی میں سیاسی مداخلت کا راستہ روکا تھا،گو کہ وہ اپنے ہی فیصلے کے بعد بذریعہ سازش،اسی فیصلے کا پہلا شکار بنے لیکن مستقبل کے لئے انہوں نے ایک عدلیہ کی آزادی کا ایک راستہ متعین کردیا کہ کسی بھی چیف جسٹس کی تعیناتی میں سیاسی مداخلت نہ ہونے کے باعث،نامزدگی کا نہ صرف دباؤ ختم ہوتا بلکہ ہر جسٹس جو آئین کے مطابق سینئر موسٹ ہوتا، حکومت اس کے چیف جسٹس ہونے کا اعلان کرتی اور معاملہ نپٹ جاتا۔ 1996ء سے حالیہ تعیناتی تک یہ معاملہ بخوبی چلتا رہا اور حکومتیں، اس فیصلے کی موجودگی میں کسی طالع آزمائی سے باز رہی تاہم اس عرصہ میں بیشتر اوقات، چیف جسٹس صاحبان کی ہمدردی بہرطور ن لیگ کے ساتھ ہی رہی البتہ یہ معاملات اس وقت بدلنا شروع ہوئے جب پانامہ لیکس کا شور بپا ہوا۔ پانامہ کے ہنگام عدلیہ کا جو کردار رہا، اس سے کسی کو انکار نہیں کہ شریف خاندان اس وقت معتوب ٹھہر چکا تھا اور ایک طرف خواہشات، شریف خاندان کو اقتدار سے الگ دیکھنے کی تھی تو دوسری طرف شریف خاندان کے حالات بھی ایسے ہی تھے کہ وہ اپنی صفائی بلا شک و شبہ ثابت کرنے میں ناکام تھے، خیر شریف خاندان کے متعلق بالعموم یہی گمان کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح شفاف و آزادانہ تحقیقات میں اپنی صفائی ثابت نہیں کر سکتا، لہذا عدلیہ کی جانب سے تحقیقات و میزان سخت کر دیا گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ شریف خاندان کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ بعد ازاں معاملات سلجھنے کے بعد، ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح شریف خاندان، اسی عدلیہ سے پوتر ہوا اور کیسے عدالتی عملہ ایئر پورٹ پر بمعہ سازوسامان پہنچا تا کہ نواز شریف کو پاکستان میں قدم رکھنے کے لئے قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔ بہرکیف جب بھی پاکستانی حالات کی ابتری کے متعلق لکھنا مقصود ہوتا ہے تو شریف خاندان کے ذکر خیر کے بغیر یہ کہانی ادھوری بلکہ نامکمل رہتی ہے کہ اس خاندان سے پہلے اگر پاکستان کی بدقسمتی کی داستان رقم کرنا مقصود ہو تو آمروں ؍ طالع آزمائوں کے ذکر کے بغیر یہ ممکن نہیں اور اگر پاکستانی صنعت کا بھٹہ بٹھانے کا ذکر مقصود ہو ذوالفقار علی بھٹو کی قومیانے کی پالیسی کے بغیر ممکن نہیں۔ شریف خاندان پر التفات اس لئے زیادہ ہوتا ہے کہ اس خاندان کے سیاست میں آنے کے بعد، جس طرح قومی ادارے و محکمے تنزلی کا شکار ہوئے ہیں، اس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی، کہ ہر ادارے اور قابل ذکر جگہ پر ’’ اپنے ‘‘ بندوں کی بھرمار نے پاکستان کو اس خاندان کی ذاتی جاگیر میں بدل کر رکھ دیا ہے۔
اس تناظر میں حالیہ قانون سازی کا بغور جائزہ لیں تو بالخصوص 26ویں آئینی ترمیم، چیف جسٹس کی تعیناتی کے حوالے سے حکومتی مداخلت کا دوبارہ راستہ کھولنا، سپریم جوڈیشل کونسل کی ہئیت تبدیل کرنا تاکہ کسی بھی صورت حکومتی خواہشات کے برعکس فیصلہ نہ ہو پائے، عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو غیر موثر کرنے کے لئے خصوصی قانون سازی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اختیارات کا تفویض کیا جانا، کرپشن کے حوالے سے سخت قوانین کی بجائے ان میں مزید نرمی کرنا اور آرمی ایکٹ میں بوجوہ خصوصی ترمیم، ایسے معاملات پر وکلاء تنظیموں کے عہدیداران کی خاموشی، اس پیشہ سے تعلق رکھنے والوں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ ماضی میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ وکلاء تنظیمیں ایسی قانون سازی پر زبردست احتجاج کرتی دکھائی دیتی تھی گو کہ ان کی سیاسی وابستگیاں بھی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے رہی، بیرسٹر اعتزاز احسن اس حوالے سے بہترین مثال ہیں کہ جنہوں نے اپنی سیاسی وابستگی کو پس پشت ڈالتے ہوئے، جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی تحریک چلائی، گو کہ پس پردہ عوامل اور اخراجات کے حوالے سے کئی ایک حقائق موجود ہیں، تاہم اعتزاز احسن نے اپنی سیاسی وابستگی کے برعکس یہ تحریک چلائی اور اپنی سیاسی قیادت کی ناراضگی مول لی۔ بعد ازاں جسٹس افتخار محمد چودھری کے اقدامات سے اعتزاز احسن انتہائی سے زیادہ دل برداشتہ دکھائی دئیے لیکن اپنے شعبہ کی عزت و وقار کے لئے بہرطور وہ صف اول میں دکھائی دئیے، اس دھوکہ کے بعد اور پیرانہ سالی کے باعث آج اعتزاز احسن صرف ٹی وی شوز پر بات کرتے دکھائی دیتے ہیں اور عملا جدوجہد بروئے کار لانے سے قاصر ہیں، جبکہ اعتزاز احسن جیسے قد کاٹھ اور ساکھ کا کوئی وکیل آج وکلاء تنظیموں میں نظر نہیں آتا جو اپنی سیاسی وابستگی کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے، عدلیہ کی آزادی و انصاف کی فراہمی کے لئے یکسو نظر آئے، کسی قسم کا سمجھوتہ کرتا ہوا دکھائی نہ دے۔ اس وقت تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ جیسے وکلاء تنظیموں کے عہدیداروں نے خود کو اپنی سیاسی قیادت کے سامنے کچھ بھی نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہو اور جیسے ان کی سیاسی قیادت کی خواہشات ہوں، وہ کسی بھی طور کر گزرنے کی ٹھانے، اپنے شعبہ کے لئے کلنک کا ٹیکہ بننے کو بھی تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود، عدلیہ میں ایک شخص کا راستہ روکنے کے لئے 26ویں آئینی ترمیم کی گئی تو ایک شخص کی مدت ملازمت میں قانونی توسیع کے لئے قانون ہی بدل دیا گیا، عدالت عالیہ میں ججز کی تعیناتی اور دوسری عدالت عالیہ میں ججز کی منتقلی اور سینیارٹی کے اصول کو پس پشت ڈالتے ہوئے، سیاسی وابستگی کے جج کو چیف جسٹس بنانے کے عمل پر، سپریم جوڈیشل کونسل میں پاکستان بار کونسل کے رکن اختر حسین نے مستعفی ہو گئے ہیں، بہت دیر کی مہربان آتے آتے، جبکہ ان کی جگہ سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون کو رکن نامزد کر دیا گیا ہے۔ اختر حسین کے اس استعفیٰ کو ضمیر کی آواز کہیں یا یہ سمجھا جائے کہ ان سے یہی کام لینا مقصود تھا، جو وہ کر چکے؟ بہرکیف، خوش گمان رہتے ہوئے یہی گمان کرتا ہوں کہ اپنے شعبہ کی مزید تذلیل برداشت کرنے کی بجائے اختر حسین ’’ ضمیر کی آواز‘‘ پر ہی مستعفی ہوئے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button