شہرت پسندی

امتیاز عاصی
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرتا ہے۔ ( صحیح بخاری:6095)۔
اسی طرح سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کئے لوگوں میں پھیلانا بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
ترمذی شریف میں آیا ہے جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کی بدبو سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے آج کے معاشرے میں جھوٹ اس قدر سرایت کر چکا ہے لوگ جھوٹ بولنے کو برا نہیں سمجھتے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ جب کوئی خبر لے کر آئے توا س کی تحقیق کر لیا کرو‘‘۔
اس ناچیز کو صحافت سے وابستہ ہوئے چار عشروں سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ میں یہ بات دعویٰ سے کہتا ہوں اخبارات میں خبروں کی اشاعت سے قبل اس کی صداقت کو پرکھے بغیر شائع نہیں کیا جاتا لیکن سوشل میڈیا کی یلغار نے جھوٹ اور سچ میں تمیز ختم کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر جس کا جو جی چاہے کسی کی پگڑی اچھالتا پھرے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے لوگوں کو خیال نہیں آتا ہمارے مذہب میں کیا جھوٹ بولنے کی اجازت ہے؟ آج صحافی برادری پیکا ایکٹ میں ترامیم کے خلاف سراپا احتجاج کیوں ہے ؟ حکومت کو
پیکا ایکٹ میں ترامیم سے قبل عامل صحافیوں سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ سوشل میڈیا سے وابستہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اخبارات کے دفاتر کے کبھی منہ نہیں دیکھے تھے اور نہ انہیں صحافتی اقدار کا علم ہے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو شتر بے مہار تو نہیں رکھا جا سکتا ایسے لوگوں کو قانون کی گرفت میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔ فیس بک یا ایکس اور انسٹا گرام پر طرح طرح کی جھوٹی خبروں سے عوام الناس کا میڈیا پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کسی خبر کی تردید آجاتی تھی تو خبر فائل کرنے والے رپورٹر کی شامت آجاتی تھی بعض موقعوں پر رپورٹر کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے۔ ایک بڑے اردو معاصر میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں آج بھی بہت سی خبروں کو سنیئر صحافیوں پر مشتمل بورڈ کے پاس بھیجنا پڑتا ہے جن کی تصدیق کے بعد خبروں کو شائع کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا سے وابستہ بعض حضرات نے سمجھ لیاہے انہیں جھوٹ بولنے کا لائسنس مل گیا ہے۔بعض لوگوں نے جھوٹی خبروں کو سستی شہرت کا حصول بنا لیا ہے حالانکہ کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ دار جھوٹ پھیلانے کا سوچ نہیں سکتا۔ ہمیں افسوس سے لکھنا پڑ
رہا ہے بعض حضرات جھوٹ میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ بھلا ان لوگوں سے کوئی پوچھے عمران خان کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلا کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک شخص پہلے قید و بند میں ہے دوسری طرف سوشل میڈیا سے وابستہ لوگ جھوٹی خبریں چلا کر کوئی عمران خان سے ہمدردی نہیں کر رہے ہیں ۔ ایکس پر ایک صاحب کی پوسٹ نظر سے گزری تو میں سوچوں میں گم ہو گیا دو روز قبل سابق وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرگان نے ان سے ملاقات کی جس کے بعد فیس بک پر وہ بتا رہی تھیں خان ہشاش بشاش ہے اور باقاعدہ ورزش کرتے ہیں۔ ہفتہ کے روز جیل حکام نے عدالتی حکم پر عمران خان کی بیٹوں سے بات بھی کرا دی۔ بانی پی ٹی آئی سے وقتا فوقتا ان کے وکلا ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں اگر عمران خان کا پانی بند کیا ہوتا یا اخبارات نہ ملتے اور روٹی خراب مل رہی ہوتی وہ کسی ملاقاتی کو ضرور بتا دیتے۔ عمران خان کے وکیل فیصل چودھری کے حوالے سے خبر چل رہی تھی عمران خان کو بیٹوں سے فون پر بات کرا دی گئی ہے۔ ایکس پر وہ صاحب فرماتے ہیں کنٹین سے سامان منگوانے کی ان سے سہولت واپس لے لی گئی ہے۔ اللہ کے بندوں کیوں جھوٹی خبریں پھیلاتے ہو تمہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر خبر چل رہی تھی بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر تمام قیدیوں کو پاک بھارت میچ دیکھنے کی سہولت دی گئی تھی گویا عمران خان نے بھی دونوں ملکوں کے مابین ہونے والے کرکٹ میچ کو دیکھا ہوگا۔ عام طور یہ خبر چل رہی ہوتی ہے عمران خان کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے سوال ہے وہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں کوئی عام قیدی تو نہیں ہیں جنہیں دیگر قیدیوں کے ساتھ بیرک میں رکھا جاتا۔ کوئی جیل مینوئل کا مطالعہ کرے یا جیلوں کے نظام کو دیکھے تو انہیں ان تمام باتوں کا اچھی طرح علم ہوجائے جیلوں میں آنے والے مختلف جرائم کے ملزمان کو کیسے رکھا جاتا ہے۔ جیلوں میں کوئی سیاست دان یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ لوگ آجائیں تو انہیں رکھنے کے لئے خصوصی انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ بعض لوگوں کو حفاظتی نقطہ نظر سے سکیورٹی وارڈز اور بعض کو خصوصی سیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ کسی قیدی کو صوبائی حکومت کی طرف سے بہتر کلاس ( بی کلاس) کی سہولت مل جائے تو یہ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس پر منحصر ہوتا ہے وہ قیدی کو کہاں رکھیں۔ بات تو قیدیوں کو سہولتوں کے دیئے جانے کی لہذا کسی سیل میں یا سیکورٹی وارڈ میں رکھ کر ایسے قیدیوں کو بہتر کلاس کی سہولت دی جا سکتی ہے۔ سابق وزیراعظم کو بہتر کلاس کی سہولت دینے کے لئے انہیں دو پہروں کی درمیانی دیوار توڑ کر آٹھ سیلوں پر مشتمل ایک پہرہ خصوصی طور پر بنا کر دیا گیا ہے جہاں وہ آسانی سے چہل قدمی کر سکتے ہیں البتہ انہیں عام قیدیوں اور حوالاتیوں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوتی۔ عمران خان سے صرف وہی ملاقات کر سکتے ہیں جن کے نام عمران خان کی طرف سے جیل انتظامیہ کو فراہم کئے جاتے ہیں۔ ایکس پر جھوٹی خبر پھیلانے والے بھائی کی معلومات کے لئے عرض کرے دیتا ہوں جیلوں میں کسی کو بھوکا پیسا نہیں رکھا جا سکتا۔ کوئی قیدی کھانا کھانے سے انکار کرے تو اسے جرم سمجھا جاتا ہے۔ سینٹرل جیل جہاں سابق وزیراعظم کو رکھا گیا ہے ان کے قریب پانی کا بور ہے جہاں سے انہیں ہمہ وقت تازہ پانی میسر ہے۔ مجھے نہیں معلوم وہ بور کا پانی پیتے ہیں یا پھر منرل واٹر منگواتے ہی ۔ بہرکیف حکومت کو جھوٹی خبریں پھیلا کر سستی شہرت حاصل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔





