بابا جی مریدوں سے افسردہ کیوں؟

تجمل حسین ہاشمی
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے درجے بلند کرے گا جو ایمان لائے اور جنہیں علم عطا ہوا۔‘‘ (سورۃ المجادلہ: 11) دنیا جہاں میں لوگ اپنے مرشدوں کو یاد کرتے ہیں، ان کیلئے سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن احکام الٰہی سے بہت دور ہیں۔ یہ صرف علم کی دوری ہے۔ مزاروں پر بیٹھے بابوں سے دنیا بھر کے مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن موت کے بعد کی ابدی زندگی کی کوئی فکر نہیں۔ بابا سے ملاقات ہوئی، وہ کسی فکر میں گہم تھے، میں سمجھا کہ ملکی معاشی حالات نے بابا کو پریشان کر دیا ہے۔ مالی مشکلات درپیش ہوں گی۔ اندازہ تھوڑا غلط نکلا ، یہاں معاملہ کوئی اور نکلا۔ میں حیران ہوا کہ بابا اپنے اس مرید کی یاد میں فکرمند تھا جو اس کو چھوڑا کر چلا گیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ اس کو لے کر کافی پریشان ہیں، کوئی خاص وجہ؟ آپ کے پاس ایسے ہزاروں مرید آتے ہیں۔ آپ کو کیا پرواہ پڑی ہے۔ کہنے لگے پریشان نہیں ہوں لیکن اس کے جانے کے بعد میرا دل بھی اداس ہے اور مزار پر رونق نہیں رہی، کئی دل کے قریب رہنے والے اب دربار کا رخ نہیں کرتے۔ پرندے بھی منہ موڑ رہے ہیں، پہلے سارا دن درختوں پر آوازیں دیتے تھے۔ ان کو بھی اس مرید خانے سے پیارا تھا۔ آج کل ان کا چہچہانا تھوڑا کم ہے۔ نئے آنے والے مہمان تو صرف اپنے کام کے چکر میں آتے ہیں، کام ہوتے ہی وہ واپس چلے جاتے ہیں۔ میں اس فکر میں ہوں
کہ کہیں کوئی ایسی غلطی تو نہیں ہوگئی جو اپنے قریبی دور ہورہے ہیں۔ یہی فکر ہے۔ آج کل تو وہی چار دس مرید ہیں جن کی میں مجبوری اور وہ میری مجبوری ہیں۔ جانے والا میرا مرید ساتھ ایک حقیقت تھی۔ کڑوا بول اور کڑوا سچ وقتی نقصان کرتا ہے۔ اس پر اگر تھوڑا صبر اور تحمل رکھا جائے تو کامیابی بھی دیرپا ملتی ہے۔ وہ دربار سے کیا گیا اپنے پیچھے قصے کہانیاں چھوڑ گیا۔ انسان دنیا سے جتنا مرضی کنارہ کر لے لیکن اپنے بیوی بچوں اور قریبی رشتہ داروں سے کیسے دور رہ سکتا ہے۔ رشتوں کا تقدس، ان کی خیال داری بھی شریعت ہے۔ رستہ (منزل) اور رزق اللہ سے مانگنا چاہئے، جب انسان رزق کیلئے بندوں کی طرف دیکھنا شروع کرتا ہے تو رزق تو ملتا رہے گا۔ وہ خالق ہے، روٹی کا وعدہ ہے۔ لیکن اس کے ہاتھ خالی ہی رہیں گے۔ میں نے خالی ہاتھ کا مطلب پوچھنا چاہا لیکن بات دوسری طرف نکل گئی۔ بابا کہنے لگے کہ مریدوں کو بھی سمجھ نہیں آتی۔ اللہ رازق ہے، اس کے فرمان پر عمل نہیں کرتے اور ہمارے پائوں پکڑتے ہیں۔ ہمیں بھی گناہ گار کرتے ہیں۔ چلیں ہم بھی دعا کرتے ہیں وہ خود بھی تو اللہ سے مانگے۔ ہم انسان اندر سے بڑے کڑوے ہیں۔ خود کو میٹھا رکھو، کامیابی آپ کی ہوگی۔ میٹھے انسان سے جیتنے کی کوشش کرو گے تو تنہا رہ جائو گے، ہر سو لوگ میٹھے بولوں کے مداح ہیں لیکن کڑوے بول کی کڑواہٹ کا مزہ اسی کو معلوم ہوگا جس کا ساتھ لمبا ہو۔ میٹھے انسان کی چال آہستہ ضرور ہوتی ہے لیکن ہوتی سبق آموز ہے، جو بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ بابا کہنے لگے، بدلے لینے کی جسارت تمہارے اپنے ہی سکون کی قاتل ہے۔ اگر بدلہ لینا افضل ہوتا تو حضورؐ معافی مانگنے والے کو قیامت کے دن اپنے سے عزت دینے کا وعدہ نہ فرماتے۔ ایک دن بابا دھوپ میں بیٹھے تھے اور میں ان کے ساتھ ہی تھا، میں خاموش نظروں سے بابا کو دیکھ رہا تھا۔ بابا میری طرف دیکھ کر کہنے لگے، بچے زندگی کا سفر اس وقت مزید مشکل بن جاتا ہے جب انسان کو زیادہ بولنے کی عادت پڑ جائے، اس کی زندگی کٹی پتنگ کی طرح ہوا میں لہرانا شروع ہوجاتی ہے۔ لوگ ڈور کو تھام کر مزے لیتے ہیں۔ چال بازوں کے ہاتھوں جلدی شکار بن جاتا ہے۔ چال باز دور سے نہیں آتے بلکہ تمہارے اپنے ہی پہلو میں ہوتے ہیں،
ضروری نہیں مارنے والا گولی استعمال کرے، آج کل لوگ ٹوپی، تسبیح اور میٹھی زبان سے کاٹ رہے ہیں۔ انسان کا استعمال دنیا میں اشیا کے استعمال سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ مولانا، پیر اور سیاسی بھی لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ بابا جی نے اپنے قریب بیٹھے مرید پر شفقت کا ہاتھ پھیرا اور میں ماضی کے غموں میں ڈوب چکا تھا، ماضی کے غم ایسے یاد آنے لگے جیسے بارش برس رہی ہو، ایسے محسوس ہونے لگا جیسے زندگی کی کتاب سامنے رکھ دی ہو۔ کس طرح ظالم دوستوں نے اپنے مفادات کیلئے رگڑا دیا۔ رشتہ داروں نے بھی کوئی وار خالی نہ چھوڑا۔ لوگ ظلم کو کاروبار بنا بیٹھے ہیں اور خود کو عزت دار سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہی لوگوں کے سکون کے قاتل ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ ہمارے ہاں نظام اندھا نہیں بلکہ لوگ اندھے ہیں۔ لوگوں کو چوروں کی سمجھ نہیں رہی۔ جھوٹ اور سچ کا فرق نہیں رہا۔ فیصلہ ساز سب سے بڑے ڈاکو ہیں۔ حقیقت میں بابوں کی محفل سے پیسے نہیں لیکن رہنمائی پکی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ بابوں کے پائو پکڑ بیٹھے ہیں لیکن احکام خدا یاد نہیں رکھتے۔ سامنے سے آتے ہوئے شخص کو دیکھ کر بابا جی کو کرنٹ سا لگا اور کہنے لگے چغل خور کا مقصد کوئی خاص اہم نہیں ہوتا۔ ایسے بندوں کو معاف کیا کرو۔ ایمانی کمزوری میں انسان ایسے ہی عمل کرتا ہے۔ جب بھی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے تو غصہ مت کھائو بلکہ ان کیلئے اللہ سے رحم کی
دعا کرو، کیونکہ یہ احساس محرومی کا شکار ہیں، ان کو معلوم نہیں کہ خود پر بھروسہ کرنا 70فیصد کامیابی ہے۔ اللہ نے انسان کو افضل بنایا ہے۔ یہ ایسی حرکتوں سے وہ کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں جن کو کہنا مناسب نہیں، کیوں کہ یہ کلمہ گو ہیں۔ نگران فرشتے انسان کے ساتھ ہیں لیکن پھر بھی وہ بے شرمی میں پڑا ہے۔ میں نے بابا سے پوچھا یہ سیاست دان کیا چاہتے ہیں، یہ الیکشن کے بعد اتنی ناسمجھی کے فیصلے کرتے ہیں، کیوں ان کی عقل بند ہو جاتی ہے۔ ہمارے دکھوں کا مداوا کیوں نہیں کرتے، عمران خان کب باہر آئے گا۔ جب عمران خان کا نام آیا تو وہ مسکرا دیئے۔ کہنے لگے عمران خان کو صرف ایک چیز ہی باہر نکال سکتی ہے۔ میں نے کہا بابا جی کون سی چیز، کہنے لگے جب تک خان اپنے الفاظ اور عمل کا ملاپ نہیں کرے گا۔ مشکلات کا چکر رہے گا۔ بیٹا سیاست دان کبھی خاموش نہیں رہتا لیکن خاموشی عبادت ہے۔ کسی وقت کی خاموشی تکلیفوں سے نجات ہے۔ وطن لاکھوں قربانیوں سے آزاد ہوا ہے۔ آج اپنے ہی دیس میں ایک دوسرے پر فتوے دے رہے ہیں، ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں، طاقت اور کمزور کی پہچان میں بہت تفریق ہے۔ بابا مسکرا کر کہنے لگے۔ بچے اختیار میں لذت بہت ہے، قیامت کے دن تکلیف اس سے زیادہ ہوگی۔ دنیاوی آسائشیں موت کی حقیقت کی سمجھ ختم کر دیتی ہیں۔ ایک دن خالی ہاتھ جانا ہے۔ حقیقت یہی ہے۔





