Column

ارضِ پاکستان

بابر امین ابر

ارضِ پاکستان، قدرت کا ودیعت کردہ ایک بہت بڑا انعام ہے۔ اور ایک بے پایاں مسکن کی سی حیثیت کا حامل ہے۔ ارضِ پاکستان اپنے باسیوں کی فلاح و بہبود کے لیے تمام تر سامانِ ضرویات اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔
زمین کے اس ٹکڑے نے اپنے باسیوں کے ساتھ ہی اپنا ارتقائی سفر شروع کر دیا تھا۔ اس کے باسی اپنی ارتقائی منازل طے کرتے بامِ عروج پاتے گئے۔ لیکن اس عروج نے ارضِ پاکستان کا حلیہ بگاڑنا شروع کر دیا۔ اس نے اپنے باسیوں کو ہر آسائش اور سہولت فراہم کی۔ اس کے برعکس، ارضِ پاکستان کے باسیوں نے عجز و نیاز مندی اختیار کرنے کی بجائے اس کی دھجیاں بکھیرنا شروع کر دیں۔
درخت اور پودے جو کسی بھی ملک کی زمین کا حسن اور خوبصورتی کہلاتے ہیں۔ ارضِ پاکستان کے باسیوں نے ان درختوں اور پودوں کا قتلِ عام کرتے ہوئے، اس کا حسن داغدار کر ڈالا۔ ذرا سے مفاد اور نفع پرستی نے، اس ارض کے باسیوں کو اس
کے ملکوتی حسن کو بے دریغ سب تہہِ تیغ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس امر میں بڑے دھڑلے سے کارکردگی دکھانے پر کوئی بھی ہچکچاتا نہیں ہے۔
یہ درخت اور پودے نا صرف اس ارض بلکہ اس کے باشندوں کے بھی دوست ہیں۔ لیکن خود کو آسودہ حال بنانے اور ترقی یافتہ کہلانے کے چکر میں ان باشندوں نے اپنے دوستوں کا وجود خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی بقائ، سلامتی اور ماحولیاتی تباہ کاریوں سے بچائو کے لیے اس کے کم از کم پچیس فی صد حصہ پر جنگلات کا وجود از حد ضروری متصور ہوتا ہے۔
لیکن ارضِ پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں جنگلات کے ذخیرے وجود میں لانا انتہائی کٹھن کام تصور کیا جاتا ہے۔ البتہ، اس سے آسان کام یہ ہے کہ زرخیز زمین اور قابلِ کاشت رقبہ کو آرام
سے مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ کیوں کہ کوئی پوچھنے والا تو ہے نہیں۔ مال و دولت کے حصول کے لیے انتہائی گھنائونا کھیل کھلم کھلا کھیلا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں، اس ارض میں ایک روح فرسا واقعہ وقوع پذیر ہوا۔ ایک وسیع رقبے پر موجود تقریباً ساڑھے پانچ سے چھ لاکھ آم کے درختوں کو صفحہ ہستی مٹا ڈالا گیا۔ ان درختوں سے حاصل ہونے والا آم کا پھل انتہائی لذت انگیز اور معیار کے لحاظ سے بہترین تھا۔ اور پاکستان کو کثیر زرمبادلہ فراہم کرتا تھا۔
پاکستان کے اکثر اضلاع میں زرخیز زرعی رقبہ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ایسی رہائشی سکیمیں فروغ پا رہی ہیں، جو زرعی زمینوں کے وجود پر قائم کی جا رہی ہیں۔ ان زرعی زمینوں سے اچھی خاصی غذائی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ دنیا بنجر اور سیم و تھور زدہ علاقوں کو قابلِ کاشت بنانے میں جُتی ہوئی ہے، جبکہ یہاں زرخیز علاقوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے۔
مختلف ذرائع کے مطابق، ارضِ پاکستان کا تقریباً 15.7ملین ہیکٹر رقبہ زیرِ کاشت ہے۔ جس میں ہر گزرتا سال تیزی سے کمی کا رہا ہے۔ جبکہ 08.2ملین ہیکٹر کے لگ بھگ رقبہ غیر آباد ہے۔ اس میں لاکھوں ایکڑ ایسا رقبہ بھی ہے، جو قابلِ کاشت ہے۔
اس برعکس، امریکہ جدید ترین ٹیکنالوجیز جیسے ہائیڈروپونکس، ایروپونکس اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں کاشت کر رہا ہے۔ اور اپنی زرعی پیداوار بڑھا رہا ہے۔ کسان زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو استعمال کرنے کے لیے واٹر مینجمنٹ سسٹم استعمال کرتے ہیں، تاکہ بنجر زمین پر فصلوں کی کاشتکاری کو ممکن بنایا جا سکے۔ امریکہ میں زمینی مٹی کے کٹائو کو روکنے کے لیے مختلف پروگرامز متعارف کرواءے گئے ہیں۔ جیسے کانزرویشن پروگرام۔ جو زمین کو بہتر بنانے اور مٹی کی حفاظت کا کام کرتا ہے۔
اسی طرح چین بھی گرین وال پروگرام شروع کر چکا ہے۔ جس کا مقصد صحرا کو روکنا اور بنجر زمین کو آباد کرنا ہے۔ اس سلسلے میں چین صحرا میں ایسے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ درخت لگا رہا ہے، جنہیں پانی کی کم ضرورت ہوتی ہے۔ چینی حکومت زمینی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اپنے کسانوں کو سبسڈی دینے کے ساتھ ساتھ دیگر اقدامات بھی اٹھا رہا ہے۔
روس بھی سبز انقلاب جیسا عظیم الشان منصوبہ شروع کر چکا ہے۔ روس، سائبیریا اور دیگر کم زرخیز علاقوں کو جدید طریقوں اور مشینری کی مدد سے آباد کرنے کی کوشش میں غلطاں ہے۔
ان حقائق کے پیش نظر، ارضِ پاکستان میں ایسے انقلابی اقدامات اٹھانے کی بجائے پہلے سے
زرخیز اور کاشتکاری کے لیے موزوں رقبے کو نہایت بے دردی سے ہڑپنے کی شدید کوششیں عروج پر ہیں۔ درختوں کا بے دریغ کٹائو کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سنگین آبی مسئلہ بھی درپیش ہے۔ زرعی زمینوں کے ساتھ ساتھ بنجر زمینوں کو آباد اور سیراب کرنے کے لیے پانی کی حکمتِ عملی کے تحت تقسیم بے حد ضروری ہے۔ مثلاً ڈرپ ایریگیشن اور سپرنکلز سسٹم کی تنصیب وسیع پیمانے پر ضروری ہے۔ بنجر زمینوں کی مٹی میں بہتری لانے کے لیے کمپوٹ، کھادوں اور جیو ٹیکنیکل طریقوں کی ضرورت ہے۔ ایسی ہائبرڈ فصلوں کی کاشت کی جائے، جو سخت موسم اور کم پانی استعمال کر کے پیداوار فراہم کریں۔
بنجر زمینوں کی بحالی اور زرخیزی کے لیے بڑے پیمانے پر پلانٹیشن پروگرامنگ کی ضرورت ہے۔ ان پر ایسے درخت لگائے جائیں، جو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ہوں۔ اور بنجر زمینوں پر آسانی سے نشوونما پا سکیں۔ زمین کی حالت میں سدھار لا سکیں۔
پاکستان میں موجودہ حالات میں، اکثر کسان اپنی مدد آپ کے تحت، زمین کی کارکردگی میں بہتری لانے اور اچھی پیداوار کے حصول کے لیے، سیٹلائٹ یا ڈرون کی مدد سے لینڈ لیولنگ کی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ تاکہ اچھی پیداوار حاصل کر کے ملک کے زرمبادلہ میں اصافہ کر سکیں۔
حکومتِ پاکستان بھی بدلتے رحجانات اور جدت سے بھرپور تقاضوں کے پیشِ نظر، خصوصی سرمایہ کاری کونسل ( ایس آئی ایف سی) اور گرین پاکستان اینیشی ایٹو کے اشتراک سے ابتدائی مرحلے میں 40لاکھ ایکڑ ایس آئی ایف سی کو دے چکی ہے۔ تاکہ اس رقبے کو قابلِ کاشت بنایا جا سکے۔
حکومتِ پاکستان کو زرخیز اور قابلِ کاشت رقبے کو مالی آسودگیوں کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے۔ اگر اس بے لگام عفریت پر قابو پانے کی ثمر آور سعی نہ کی گئی تو وہ دن دور نہیں جب خوراک کے حصول کے لیے ارضِ پاکستان خانہ جنگیوں کا شکار نظر آئے گی۔ اور خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ ایک انتہائی کٹھن وقت ہو گا۔ اس سے پہلے کہ گلستان کی شاخوں پر الو بسیرا کر کے گلستاں اجڑنے کا پیغام دیں، متعلقہ حکام ہوش کے ناخن لے لیں۔
اللّٰہ ارضِ پاکستان کی حفاظت فرمائے!
اسے دن دگنی، رات چو گنی ترقی عطا فرمائے!
حاسدین اور دشمنوں سے محفوظ و مامون فرمائے!
آمین ثم آمین!

جواب دیں

Back to top button