Column

حکومت سنجیدہ ہے کیا ؟

تحریر : ملک شفقت اللہ

پاکستان کی معیشت ایک عرصے سے قرضوں کے سہارے چل رہی ہے۔ معیشت اس وقت شدید دبائو کا شکار ہے اور حکومت نے مالی سال 2024۔25ء کے بجٹ میں کئی ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطیر رقم مختص کی ہے۔ پنجاب میں بھی بنیادی ڈھانچے (Infrastructure)، تعلیم، صحت اور فلاحی منصوبوں کے لیے اربوں روپے مختص کئے گئے ہیں، لیکن اس رقم میں اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم کیا ہے؟۔ زراعت کے شعبے میں 2024۔25ء کے بجٹ میں 64ارب 61کروڑ روپے ترقیاتی اور 50.9ارب روپے غیر ترقیاتی مد میں رکھے گئے ہیں، جو کہ مجموعی طور پر 117ارب روپے بنتے ہیں۔ یہ رقم پچھلے سالوں کے مقابلے میں 250فیصد زیادہ ہے۔ لاہور شہر کی بہتری کے لیے ایک کھرب 37ارب روپے کا بجٹ منظور کیا گیا۔ اس منصوبے میں نکاسی آب، سڑکوں کی پختگی، سٹریٹ لائٹس، گلیوں کی مرمت، پارکس اور قبرستانوں کی بحالی شامل ہے۔ طلبہ کی تعلیمی معاونت کے لیے 100ارب روپے سے زائد فنڈز مختص کئے گئے۔ اس اقدام کے تحت 25ہزار طلبہ کے چار سالہ تعلیمی اخراجات حکومت ادا کریگی۔ مزید برآں، وزیر اعلیٰ کے دورہ چین کے دوران چینی کمپنیوں نے پنجاب میں 13ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے، جو کہ صوبے کی معاشی ترقی میں معاون ثابت ہوگی۔
یہ فنڈز صوبائی بجٹ، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے ذریعے حاصل کئے گئے ہیں، جو کہ ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے قرضوں کا نمایاں حصہ بیرونی ذرائع سے حاصل کیا گیا، جون 2024ء کے اختتام پر پنجاب کا کل قرضہ 1677ارب روپے تھا، جس میں سے 1675ارب روپے بیرونی قرض دہندگان سے اور 1.7ارب روپے ملکی ذرائع سے حاصل کئے گئے۔ مالی سال 2024۔25ء کے بجٹ میں حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 123ارب روپے کا بیرونی قرضہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ قرضے بنیادی طور پر کثیر الجہتی ایجنسیوں اور دو طرفہ ذرائع سے حاصل کئے گئے، جو زیادہ تر رعایتی شرائط پر ہیں۔ جون 2024ء تک بیرونی قرضوں کا 54فیصد حصہ انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن (IDA)اور انٹرنیشنل بینک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈیولپمنٹ (IBRD)، 21فیصد چین،21فیصد ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB)اور 4فیصد دیگر ذرائع سے حاصل کیا گیا تھا۔
حکومتی قرضے صرف کاغذی اعداد و شمار نہیں ہوتے، بلکہ ان کا براہِ راست اثر عام شہری کی زندگی پر پڑتا ہے۔ حکومت جب قرض لیتی ہے تو اسے سود سمیت واپس بھی کرنا ہوتا ہے اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں عوام پر بوجھ بڑھنے لگتا ہے۔ جب حکومت قرض کی واپسی کے لیے ٹیکس بڑھاتی ہے یا مزید قرض لیتی ہے، تو روپے کی قدر مزید کم ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ اگر قرضوں سے پیداواری صنعتیں، ITسیکٹر، اور برآمدات بڑھانے کے منصوبے شروع کئے جائیں تو ملک کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر قرضے صرف غیر پیداواری منصوبوں میں جھونک دئیے گئے تو مہنگائی مزید بڑھے گی اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو کاروبار متاثر ہوتے ہیں اور نجی شعبے میں روزگار کے مواقع کم ہونے لگتے ہیں۔ حکومت مزید ٹیکس عائد کرے اور بجلی و گیس مہنگی ہو تو نجی کمپنیاں اپنی پیداوار کم کر دیتی ہیں، جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت جب قرضوں کی واپسی کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کرتی ہے تو سب سے زیادہ اثر تنخواہ دار طبقے، مزدوروں اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ اگر قرضے نمائشی منصوبوں میں ضائع ہو گئے، تو عوام کو صرف مزید مہنگائی، ٹیکسوں کے بوجھ، اور بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ معیشت کی بہتری کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے، مگر اب تک کے عملی اقدامات قلیل مدتی نظر آ رہے ہیں۔ قرضوں پر بڑھتا ہوا انحصار خطرناک ہے، کیونکہ ان کی واپسی مشکل ہو رہی ہے۔
حکومتی پالیسیوں میں استحکام کی کمی ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری رک گئی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عام آدمی کو ابھی تک کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا، بلکہ مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ اب تک کی صورتحال کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کسی بڑی اور بنیادی معاشی اصلاحات کے بجائے وقتی حل اور سبسڈیز پر زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ اگر معیشت کو واقعی ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو حکومت کو چند بڑے اقدامات فوراً لینے ہوں گے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے تاکہ صرف تنخواہ دار طبقے پر بوجھ ڈالنے کے بجائے تمام کاروباری اور غیر رسمی شعبے بھی ٹیکس ادا کریں۔ برآمدات (Exports)کو فروغ دیا جائے تاکہ ملک میں زرمبادلہ آئے اور قرضوں پر انحصار کم ہو۔ صنعتوں کو سہولتیں دی جائیں تاکہ ملکی پیداوار بڑھے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ کرپشن اور غیر ضروری اخراجات پر سخت کنٹرول کیا جائے تاکہ قرضوں کا درست استعمال ممکن ہو۔
زرعی اور ITسیکٹر کو ترجیح دی جائے تاکہ پاکستان کی معیشت کو نئی راہیں دی جا سکیں۔ حکومت کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ اگر جلدی اور درست فیصلے نہ کئے گئے، تو معیشت مزید دلدل میں دھنس سکتی ہے اور عوام کے لیے مہنگائی اور بے روزگاری مزید ناقابل برداشت ہو جائے گی۔ قرضوں کے سہارے چلنے والی معیشت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ اس کے لیے عملی اقدامات، بہتر معاشی پالیسی، اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت واقعی سنجیدہ اصلاحات کرے گی یا یہ بھی صرف وقتی دعوے اور نمائشی منصوبے بنا کر وقت گزارنے کی پالیسی اپنائے گی؟۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے حکومت کو الفاظ سے زیادہ عمل دکھانا ہوگا۔ کیونکہ اگر آج صحیح فیصلے نہ کئے گئے، تو آنے والا کل مزید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔

ملک شفقت اللہ

جواب دیں

Back to top button