بھیک کا بڑھتا طوفان

تحریر : جستجو
کہتے ہیں کہ ایک گائوں میں ایک دانا حکیم رہتا تھا۔ ایک دن ایک غریب شخص اس کے پاس آیا اور مدد کی درخواست کی۔ حکیم نے اپنی جیب سے سونے کا سکہ نکالنے کے بجائے اسے ایک بیج دیا اور کہا، ’’ اسے زمین میں بو دو، پانی دو، اور اس سے فصل حاصل کرو۔ یہ تمہارے تمام مسائل حل کرے گا‘‘۔ پہلے تو غریب شخص نے شک کیا، کیونکہ فوری امداد کی امید تھی، لیکن پھر حکیم کی بات مان لی۔ کچھ مہینوں بعد، وہ شخص اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے قابل ہو گیا، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی روزگار دینے لگا۔
پاکستان میں گداگری ایک باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے، جہاں ہر گلی، ہر چوراہے اور ہر بازار میں ’’ ملازمت پر مامور‘‘ بھکاری اپنی ’’ ڈیوٹی‘‘ انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ ملک کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں، آپ کو سڑکوں پر بیٹھے، گاڑیوں کی کھڑکیاں کھٹکھٹاتے، بازاروں میں معصوم شکلیں بنائے ہاتھ پھیلاتے اور مساجد کے دروازوں پر انتہائی ’’ روحانی انداز‘‘ میں مدد کی درخواست کرتے بھکاری مل جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر آنے جانے والے کو جذباتی بلیک میل کرتے ہیں، اور سادہ لوح عوام بھی بڑی خوش دلی سے اپنا فرض سمجھ کر ان کی جیبیں بھرتی رہتی ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ سب واقعی ضرورت مند ہیں یا کسی منظم مافیا کا حصہ؟۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھیک مانگنا ایک مجبوری کم اور ایک کامیاب ’’ کاروباری ماڈل‘‘ زیادہ بن چکا ہے۔ بچوں، خواتین، معذوروں اور بوڑھوں کی ایک خاص ’’ ورائٹی‘‘ سڑکوں پر موجود رہتی ہے، تاکہ عوام کی ہمدردیوں کو زیادہ سے زیادہ ’’ کیش‘‘ کرایا جا سکے۔ زیادہ تر گداگر کسی نہ کسی کے تحت کام کرتے ہیں، جو روزانہ کے حساب سے ان سے ’’ حصہ‘‘ وصول کرتے ہیں۔ ایسے بھیانک انکشافات سامنے آ چکے ہیں کہ معصوم بچوں کو اغوا کر کے، خواتین کو زبردستی اس دھندے میں دھکیل کر اور لوگوں کو جان بوجھ کر معذور بنا کر سڑکوں پر بھیجا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ پیشہ ور گداگر ماہانہ ہزاروں روپے کما رہے ہیں، جو کہ ایک عام محنت کش کی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن پھر بھی، ہمیں تو یہی سکھایا گیا ہی کہ بھیک دینا نیکی کا کام ہے۔
محنت کی روش ہم کو پسند آئی کہاں تھی؟
آساں جو یہ رستہ تھا، ضرورت بھی وہاں تھی
یہاں تک کہ جو لوگ اصل میں معذور یا بے سہارا نہیں ہیں، وہ بھی اس ’’ فائدہ مند پیشے‘‘ کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ آخر کار، بھیک مانگنا کم محنت والا، ٹیکس فری اور نفع بخش کام ہے، جس میں نہ تو نوکری کا دبائو ہوتا ہے، نہ باس کی ڈانٹ اور نہ ہی کسی قسم کا حساب کتاب پاکستانی عوام کا بھی اپنا ہی ایک منفرد انداز ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر، بغیر تصدیق کیے، بھیک دینے کو اپنا مذہبی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جیسے ہی کوءی چوراہے پر گاڑی روکے، فوراً چند گداگر اپنی تربیت یافتہ معصوم آنکھوں کے ساتھ لپکتے ہیں، اور عوام کی سادگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر عوام یہ شعور پیدا کر لیں کہ اندھا دھند بھیک دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اسے مزید بڑھاوا دینے کا ذریعہ ہے، تو شاید اس ’’ کاروبار‘‘ کی بنیاد ہی ہل جائے۔ لیکن بدقسمتی سے، ہم نے بھیک کو اتنا عام کر دیا ہے کہ اب یہ زندگی کا ایک لازمی حصہ لگنے لگی ہے۔
نہ رنجِ مشقت ہو، نہ طعنوں کا اندیشہ
بس اشک بہانے ہوں، فسانہ کوئی کہنا ہو
اس مسئلے کے پیچھے غربت اور بے روزگاری جیسے سنجیدہ عوامل تو موجود ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومتی نااہلی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاپرواہی اور فلاحی نظام کی غیر موجودگی نے بھی اسے مزید سنگین بنا دیا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اور جب بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں، تو کچھ لوگ یا تو جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں یا پھر گداگری کو ایک مستقل ذریعہ معاش بنا لیتے ہیں۔ لیکن کچھ ’’ ہوشیار‘‘ لوگ تو سیدھا دوسرا راستہ چن لیتے ہیں کیونکہ مزدوری میں محنت کرنی پڑتی ہے اور گداگری میں صرف ہمدردی کے دو بول بولنے ہوتے ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ چین میں اگر کوئی بار بار گداگری کرتے پکڑا جائے تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے، سعودی عرب میں پولیس غیر قانونی گداگروں کے خلاف فوری کارروائی کرتی ہے، جبکہ امریکہ اور یورپ میں بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں اور سوشل ویلفیئر پروگرام موجود ہیں۔ لیکن پاکستان میں؟ یہاں تو اس دھندے کو مزید فروغ دینے کے پورے مواقع موجود ہیں۔
پاکستان میں گداگری کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے، ہم نے اسے ایک ’’ قابل قبول‘‘ حقیقت بنا لیا ہے۔ کبھی کبھار پولیس کچھ گداگروں کو اٹھا کر لے بھی جائے، تو چند دن بعد وہ پھر سے اپنی ’’ ڈیوٹی‘‘ پر واپس آ جاتے ہیں۔ 1958 ء میں ایک قانون بنا تھا، جس کے تحت گداگری کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، لیکن کسی نے اس قانون کو سنجیدگی سے نافذ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
اگر واقعی اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، تو ہمیں چند بنیادی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سب سے پہلے، تعلیم اور ہنر سیکھنے کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ لوگ گداگری کو ایک آخری آپشن کے طور پر بھی نہ دیکھیں۔ بے روزگاری کم کرنے کے لیے موثر پالیسیاں بنائی جائیں، اور منظم گداگری کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ عوام میں شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ سڑکوں پر بھیک دینے کے بجائے مستحق افراد کی مدد فلاحی اداروں کے ذریعے کریں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت ایک جدید فلاحی نظام متعارف کرائے، جس کے تحت اصل مستحقین تک براہ راست مالی مدد پہنچ سکے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ڈیٹا بیس بنایا جا سکتا ہے، تاکہ لوگوں کی حقیقی ضروریات کا پتہ چلے اور ان کی مدد کسی ایسے ذریعے سے کی جائے جس کا فائدہ واقعی انہیں ہو، نہ کہ کسی ’’ گداگر مافیا‘‘ کو۔
گداگری پاکستان میں محض غربت کی علامت نہیں، بلکہ ایک مکمل ’’ کاروباری سلطنت‘‘ ہے، جس میں کچھ لوگوں کا مفاد جڑا ہوا ہے۔ جب تک عوام اور حکومت مل کر اس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کریں گے، تب تک یہ دھندہ چلتا رہے گا۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی ہمدردیاں صحیح جگہ پر استعمال کریں گے یا کسی اور کی چالاکی کا شکار بنیں گے۔ اگر عوام نے اندھا دھند بھیک دینا جاری رکھا اور حکومت نے آنکھیں بند رکھیں، تو شاید اگلے چند سالوں میں ہم ایک ایسا پاکستان دیکھیں جہاں ہر دوسرا شخص محنت کے بجائے گداگری کو ہی سب سے آسان ’’ نوکری‘‘ سمجھنے لگے۔
آصف علی درانی
بھیک کا بڑھتا طوفان
تحریر :آصف علی درانی
کہتے ہیں کہ ایک گائوں میں ایک دانا حکیم رہتا تھا۔ ایک دن ایک غریب شخص اس کے پاس آیا اور مدد کی درخواست کی۔ حکیم نے اپنی جیب سے سونے کا سکہ نکالنے کے بجائے اسے ایک بیج دیا اور کہا، ’’ اسے زمین میں بو دو، پانی دو، اور اس سے فصل حاصل کرو۔ یہ تمہارے تمام مسائل حل کرے گا‘‘۔ پہلے تو غریب شخص نے شک کیا، کیونکہ فوری امداد کی امید تھی، لیکن پھر حکیم کی بات مان لی۔ کچھ مہینوں بعد، وہ شخص اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے قابل ہو گیا، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی روزگار دینے لگا۔
پاکستان میں گداگری ایک باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے، جہاں ہر گلی، ہر چوراہے اور ہر بازار میں ’’ ملازمت پر مامور‘‘ بھکاری اپنی ’’ ڈیوٹی‘‘ انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ ملک کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں، آپ کو سڑکوں پر بیٹھے، گاڑیوں کی کھڑکیاں کھٹکھٹاتے، بازاروں میں معصوم شکلیں بنائے ہاتھ پھیلاتے اور مساجد کے دروازوں پر انتہائی ’’ روحانی انداز‘‘ میں مدد کی درخواست کرتے بھکاری مل جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر آنے جانے والے کو جذباتی بلیک میل کرتے ہیں، اور سادہ لوح عوام بھی بڑی خوش دلی سے اپنا فرض سمجھ کر ان کی جیبیں بھرتی رہتی ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ سب واقعی ضرورت مند ہیں یا کسی منظم مافیا کا حصہ؟۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھیک مانگنا ایک مجبوری کم اور ایک کامیاب ’’ کاروباری ماڈل‘‘ زیادہ بن چکا ہے۔ بچوں، خواتین، معذوروں اور بوڑھوں کی ایک خاص ’’ ورائٹی‘‘ سڑکوں پر موجود رہتی ہے، تاکہ عوام کی ہمدردیوں کو زیادہ سے زیادہ ’’ کیش‘‘ کرایا جا سکے۔ زیادہ تر گداگر کسی نہ کسی کے تحت کام کرتے ہیں، جو روزانہ کے حساب سے ان سے ’’ حصہ‘‘ وصول کرتے ہیں۔ ایسے بھیانک انکشافات سامنے آ چکے ہیں کہ معصوم بچوں کو اغوا کر کے، خواتین کو زبردستی اس دھندے میں دھکیل کر اور لوگوں کو جان بوجھ کر معذور بنا کر سڑکوں پر بھیجا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ پیشہ ور گداگر ماہانہ ہزاروں روپے کما رہے ہیں، جو کہ ایک عام محنت کش کی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن پھر بھی، ہمیں تو یہی سکھایا گیا ہی کہ بھیک دینا نیکی کا کام ہے۔
محنت کی روش ہم کو پسند آئی کہاں تھی؟
آساں جو یہ رستہ تھا، ضرورت بھی وہاں تھی
یہاں تک کہ جو لوگ اصل میں معذور یا بے سہارا نہیں ہیں، وہ بھی اس ’’ فائدہ مند پیشے‘‘ کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ آخر کار، بھیک مانگنا کم محنت والا، ٹیکس فری اور نفع بخش کام ہے، جس میں نہ تو نوکری کا دبائو ہوتا ہے، نہ باس کی ڈانٹ اور نہ ہی کسی قسم کا حساب کتاب پاکستانی عوام کا بھی اپنا ہی ایک منفرد انداز ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر، بغیر تصدیق کیے، بھیک دینے کو اپنا مذہبی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جیسے ہی کوءی چوراہے پر گاڑی روکے، فوراً چند گداگر اپنی تربیت یافتہ معصوم آنکھوں کے ساتھ لپکتے ہیں، اور عوام کی سادگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر عوام یہ شعور پیدا کر لیں کہ اندھا دھند بھیک دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اسے مزید بڑھاوا دینے کا ذریعہ ہے، تو شاید اس ’’ کاروبار‘‘ کی بنیاد ہی ہل جائے۔ لیکن بدقسمتی سے، ہم نے بھیک کو اتنا عام کر دیا ہے کہ اب یہ زندگی کا ایک لازمی حصہ لگنے لگی ہے۔
نہ رنجِ مشقت ہو، نہ طعنوں کا اندیشہ
بس اشک بہانے ہوں، فسانہ کوئی کہنا ہو
اس مسئلے کے پیچھے غربت اور بے روزگاری جیسے سنجیدہ عوامل تو موجود ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومتی نااہلی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاپرواہی اور فلاحی نظام کی غیر موجودگی نے بھی اسے مزید سنگین بنا دیا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اور جب بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں، تو کچھ لوگ یا تو جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں یا پھر گداگری کو ایک مستقل ذریعہ معاش بنا لیتے ہیں۔ لیکن کچھ ’’ ہوشیار‘‘ لوگ تو سیدھا دوسرا راستہ چن لیتے ہیں کیونکہ مزدوری میں محنت کرنی پڑتی ہے اور گداگری میں صرف ہمدردی کے دو بول بولنے ہوتے ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ چین میں اگر کوئی بار بار گداگری کرتے پکڑا جائے تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے، سعودی عرب میں پولیس غیر قانونی گداگروں کے خلاف فوری کارروائی کرتی ہے، جبکہ امریکہ اور یورپ میں بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں اور سوشل ویلفیئر پروگرام موجود ہیں۔ لیکن پاکستان میں؟ یہاں تو اس دھندے کو مزید فروغ دینے کے پورے مواقع موجود ہیں۔
پاکستان میں گداگری کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے، ہم نے اسے ایک ’’ قابل قبول‘‘ حقیقت بنا لیا ہے۔ کبھی کبھار پولیس کچھ گداگروں کو اٹھا کر لے بھی جائے، تو چند دن بعد وہ پھر سے اپنی ’’ ڈیوٹی‘‘ پر واپس آ جاتے ہیں۔ 1958 ء میں ایک قانون بنا تھا، جس کے تحت گداگری کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، لیکن کسی نے اس قانون کو سنجیدگی سے نافذ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
اگر واقعی اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، تو ہمیں چند بنیادی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سب سے پہلے، تعلیم اور ہنر سیکھنے کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ لوگ گداگری کو ایک آخری آپشن کے طور پر بھی نہ دیکھیں۔ بے روزگاری کم کرنے کے لیے موثر پالیسیاں بنائی جائیں، اور منظم گداگری کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ عوام میں شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ سڑکوں پر بھیک دینے کے بجائے مستحق افراد کی مدد فلاحی اداروں کے ذریعے کریں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت ایک جدید فلاحی نظام متعارف کرائے، جس کے تحت اصل مستحقین تک براہ راست مالی مدد پہنچ سکے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ڈیٹا بیس بنایا جا سکتا ہے، تاکہ لوگوں کی حقیقی ضروریات کا پتہ چلے اور ان کی مدد کسی ایسے ذریعے سے کی جائے جس کا فائدہ واقعی انہیں ہو، نہ کہ کسی ’’ گداگر مافیا‘‘ کو۔
گداگری پاکستان میں محض غربت کی علامت نہیں، بلکہ ایک مکمل ’’ کاروباری سلطنت‘‘ ہے، جس میں کچھ لوگوں کا مفاد جڑا ہوا ہے۔ جب تک عوام اور حکومت مل کر اس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کریں گے، تب تک یہ دھندہ چلتا رہے گا۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی ہمدردیاں صحیح جگہ پر استعمال کریں گے یا کسی اور کی چالاکی کا شکار بنیں گے۔ اگر عوام نے اندھا دھند بھیک دینا جاری رکھا اور حکومت نے آنکھیں بند رکھیں، تو شاید اگلے چند سالوں میں ہم ایک ایسا پاکستان دیکھیں جہاں ہر دوسرا شخص محنت کے بجائے گداگری کو ہی سب سے آسان ’’ نوکری‘‘ سمجھنے لگے۔
آصف علی درانی







