Column

بندر کو پورے پنجاب کا سلام

تحریر : سیدہ عنبرین
صوبہ پنجاب میں تجاوزات ہٹانے، گرانے کی مہم جاری ہے، تمام بڑے شہروں سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں آ رہی ہیں جن کے مطابق اس مہم میں شامل ٹیمیں چند روز قبل آ کر نشان دہی کرتی ہیں کہ مکان، دکان، مدرسے یا کسی بھی عمارت کا نقشہ حصہ سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کر کے تعمیر کیا گیا۔ مالکان کو ایک تاریخ دے دی جاتی ہے کہ وہ اپنی ملکیت کی لمبائی چوڑائی رقبے سے متعلق دستاویزات کی حد میں رہیں اور اپنی تجاوزات خود گرا دیں، کچھ لوگ اس عین قانونی اقدام کی تعمیل کرتے ہیں، کچھ نہیں کرتے، جو لوگ اپنا کام نہیں کرتے، تجاوزات ختم کرنے پر مامور عملہ مقررہ تاریخ پر آ کر اپنا کام شروع کر دیتا ہے، کچھ تاجر حضرات اور ان کی تنظیمیں مزاہم ہوئیں، لوگ دھرنا دے کر بیٹھ گے لیکن صدق دل سے اپنے کام پر مامور ٹیمیں اپنا کام کرتی رہتی ہیں، تمام کوششوں کے باوجود تجاوزات مافیا کو قانون نے غیر قانونی، غیر اخلاقی مدد فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ کسی کو تجاوزات برقرار رکھنے کیلئے سٹے آرڈر نہیں دیا گیا ، لہٰذا اب یہ مافیا سوشل میڈیا پر متحرک ہوا ہے اور تمام الزام وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ کو دیتی ہوئے ان کے خلاف بدتمیزی، اخلاق سوز گفتگو کا ایک طوفان برپا کر دیا گیا ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اس مہم میں ایک خاص منصوبے کے مطابق ضعیف عورتوں اور مردوں کے انٹرویو پیش کئے جا رہے ہیں، جس میں وہ مریم نواز شریف صاحبہ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہوئے غیر پارلیمانی زبان میں پنجابی لغت میں نت نئے لفظوں کا اضافہ کرتے نظر آتے ہیں، ان کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ان سے ان کی چھت لی ہے، کہیں بتایا جا رہا ہے کہ یتیم اور بیمار بچے و بزرگ سخت سرد موسم میں کھلے آسمان تلے دن رات گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں، کہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان کا روزگار چھین لیا گیا ہے، یہ سب باتیں بے بنیاد ہیں، ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
مسلم لیگ ( ن) حکومت کی گزشتہ قریباً 40برس سے یہ شہرت ہے کہ وہ عوام دوست، غریب دوست اور تاجر دوست حکومت ہے، اس نے ہر زمانے میں انہیں جب بھی حکومت ملی ان طبقات کی فلاح و بہبود اور سہولتوں کیلئے کام کیا، ان کاموں کی ایک طویل فہرست ہے، جو جناب نواز شریف کے وزیراعلیٰ پنجاب کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کے کاموں کی صورت ہمارے سامنے نظر آئی، پھر جب جناب شہباز شریف متعدد مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے بھی اپنی بساط کے مطابق ان طبقات کی فلاح کیلئے کام جاری رکھے۔ لاہور کی سیاست ہمیشہ کشمیری اور آرائیں گروپوں میں تقسیم رہی، کبھی ایک غیر تحریر شدہ معاہدے کے مطابق وزیراعلیٰ کشمیری برادری سے ہوتا اور میئر لاہور آرائیں برادری سے لیا جاتا تھا جبکہ پنجاب حکومت میں ان دونوں برادریوں سے تعلق رکھنے والے ممبران صوبائی اسمبلی اہم عہدوں پر نظر آتے تھے، لیکن اس تقسیم کے باوجود تاجر برادری کی سیاست اور مارکیٹوں میں عہدوں کی سیاست پر کشمیری ہی براجمان نظر آئے۔ عرصہ دراز تک حاجی مقصود بٹ صاحب انجمن تاجران کے بلاشرکت غیرے صدر رہے، وہ متعدد مرتبہ بلامقابلہ ہی منتخب ہوتے تھے، انہیں ماڈل ٹائون اور رائے ونڈ کے قریب سمجھا جاتا تھا، ان کا دور ختم ہوا تو میر صاحب کے حصے میں یہ عہدہ آیا اور آج وہ تاجر برادری کے اہم راہنما کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ حکومت کے کسی دور میں تاجر برادری اور بالخصوص لاہور کی تاجر برادری نے کبھی ہڑتال نہیں کی، کبھی اس کی نوبت ہی نہیں آئی، انتظامی معاملات میں ایل ڈی اے یا ٹریفک پولیس کے ساتھ کوئی مسئلہ کھڑا ہوا تو بھی چند گھنٹوں میں حل کر لیا گیا۔ کشمیری سیاستدان اور آرائیں میئر لاہور ہمیشہ فوراً متحرک ہو جاتے تھے، پھر ایک موقع ایسا بھی آیا جب وزیراعلیٰ پنجاب بھی کشمیری تھے جبکہ میئر لاہور خواجہ ریاض محمود بھی کشمیری تھے، اس دور میں تاجر برادری میں کشمیری سیاست کو خوب عروج حاصل ہوا، لیکن 1985ء کے بعد سے کبھی بھی پنجاب کی سطح پر تجاوزات ختم کرنے کیلئے کبھی کوئی آپریشن نہیں ہوا۔ یہ کام جناب چودھری پرویز الٰہی کے زمانے میں بھی نہیں ہوا۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد عوامی فلاح کے درجن بھر سے زیادہ منصوبے شروع کئے ہیں، جن میں مختلف سہولت کارڈ اور پیکیج شامل، لیکن انہوں نے ہر منصوبے کا بذات خود افتتاح کیا اور حکومت پنجاب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی موثر تشہیر بھی کی گئی، جو آگہی کیلئے ضروری سمجھی گئی، لیکن انہوں نے کسی بلڈوزر پر بیٹھ کر اپنے حلقے میں کوئی دکان گرا کر یا مکان گرا کر تجاوزات ختم کرنے کی مہم کا آغاز نہیں کیا، نہ ہی انہوں نے یا ان کی ترجمان نے کسی پریس کانفرنس میں اس مہم کے شروع کرنے کی بات کی، لہٰذا مریم نواز شریف کے خلاف جو پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس کا کوئی جواز نہیں، کیونکہ لیگی حکومت تاجروں کو اپنا ووٹر، اپنا سپورٹر سمجھتی ہے، سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر کون یہ سب کچھ کر رہا ہے، اس سوال کے جواب میں پہلے ایک واقعہ آپ کی نذر ہے جو سری لنکا میں پیش آیا۔ بھارت کے بعد سری لنکا وہ ملک ہے جہاں بندر بہت ہیں اور بعض شہروں میں تو ہر جگہ دندناتے پھرتے ہیں، کچھ بندر ایک قومی سطح کے گرڈ اسٹیشن میں کسی کھلے روشندان سے بریک ٹائم میں اندر گھس گئے۔ ایک کے بعد دوسرا، پھر تیسرا، پھر درجنوں بندروں نے وہاں چیزوں کو الٹ پلٹ کر کے کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرنا شروع کیں، جو انہیں نہ مل سکیں۔ اسی اکھاڑ پچھاڑ اور ہربونگ میں ایک بندر نے وہ مین سوئچ آف کر دیا جس سے پورے ملک کی بجلی بند ہو گئی۔ سری لنکا کے وزیر توانائی کمارا جیا کوڈے نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بات میڈیا سے شیئر کی۔ اس سے قبل 2022ء میں شدید معاشی بحران کے دوران تیل کی قلت پیدا ہونے کے سبب سری لنکا کو طویل بریک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا۔
بندر اس قسم کے الٹے کاموں کیلئے مشہور ہیں، انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیئے ہیں، جن کا کوئی تصور نہیں کر سکتا، لیکن بندروں کی انسانوں کیلئے خدمات کی بھی ایک طویل فہرست ہے، نئی ایجادات اور بالخصوص نئی ادویات اور ویکسین جب ٹیسٹ کے مراحل سے گزرتی ہے تو اس کے ٹیسٹ مختلف جانوروں پر کئے جاتے ہیں اور بندروں پر کئے جانے والے ٹیسٹ کی رپورٹوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، سمجھا جاتا ہے کہ بندروں اور انسانی امیون سسٹم میں مماثلت ہے۔
ملک بھر کے اہم عہدوں پر اشرف المخلوقات تشریف فرما ہیں، جو اپنی قابلیت و بساط کے مطابق خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن ہر دفتر میں ایک آدھ بندر بھی موجود ہوتا ہے جو اچھے بھلے چلتے ہوئے کام کا سوئچ آف کر دیتا ہے، لیکن کسی بندر نے تجاوزات خاتمے کے حوالے سے ایسا سوئچ آن کیا ہے، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، بندر کو پورے پنجاب کا سلام، دیگر صوبوں میں بیٹھے ہوئے بندروں کی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button