Column

جدید میڈیکل سائنس سے جذام سے نجات

تحریر : امتیاز یٰسین فتح پور
جاندار اور بیماریوں کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قران مجید میں وعدہ ہے کہ میں ہی بیماروں کو شفا دیتا ہوں اور کوئی مرض بغیر علاج کے پیدا نہیں کیا گیا۔ دیکھا گیا ہے کہ انسان کے دیگر شعبہ میں ترقی کے ساتھ ساتھ طب کے میدان میں بھی جدید میڈیکل سائنس سے بیماریوں کی تشخیص کے میسّر ذرائع کے باوجود کئی ایک بیماریوں کا کامل تریاق ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ بہت ساری نئی بیماریاں جنم بھی لے رہی ہیں، جیسا کہ کرونا، اومی میکرون کا وائرس پھیل رہا ہے۔ گزشتہ ماہ کا آخری ہفتہ عوام الناس میں مائیکو بیکٹریم نامی جرثومے سے پھیلنے والے کوڑھ جیسے مرض کی اگاہی اور تحفظ کے طور پر دنیا بھر میں منایا گیا۔ یہ دن منانے کا آغاز1954ء میں ہوا تھا۔ 4000قبل مسیح چین، مصر اور ہندوستان کی قدیم تہذیبوں میں اس کے آثار ملنے سے یہ مرض قدیمی متعدی تصور کیا جاتا ہے، جس سے مریض کے جسم اور جلد پر سفید اور سرخی مائل دھبے نمودار ہوتے ہیں، قوتِ احساس میں کمی، جلد کا موٹا یا جھرجھرا ہونا، انگلیوں پنجوں کا ٹیڑھا ہونا یا گلنا شروع ہو جانا۔ مریض کی آنکھوں، ہڈیوں کے ساتھ ساتھ ہاتھ اور پائوں زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ جسم کو بد نما اور خراب، نفرت آگین شکل سے دوچار کر دینا، قبل ازیں جذام کے مرض کو ایک لا علاج جان لیوا مرض سمجھا جاتا تھا سماج میں اسے چھوتی بیماری تصور کرتے ہوئے مریض سے لاتعلقیت، ناروا رویّہ اور قریبی تعلقات سے اعراض، غیر انسانی سلوک عام سے بات تھی، ہندوستان میں تو اب بھی ایسے مریضوں کو علیحدہ بنائی گئیں کوڑھی کالونیوں(leper colonies)میں رکھا جاتا ہے، لیکن مقبول اعتقاد کے برعکس جدید طب کے مطابق مریض قابل علاج اور دیگر شہریوں یا تیمار داروں کو اس بیماری سے بچانے کے لئے ان سے علیحدہ اچھوتے دور بھاگنے جیسے روا سلوک کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ مرض کا وقت پر مناسب علاج نہ کروانے سے مرض بگڑ اور موت یا معذوری ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک پاکستان میں جذام کے مریضوں کی سالانہ تعداد تین سو سے چار سو کے قریب رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قیام پاکستان سے لیکر اب تک تقریباً اٹھاون ہزار شہری اس بیماری کا شکار ہوئے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس بیماری کی وجہ بننے والے جرثومے کو تباہ کرنے اور تحفظ کے لئے جدید میڈیکل سائنس کو اپناتے ہوئے جذام ملٹی ڈریگ تھراپی، ہوی ایٹی بائیوٹیکٹس سمیت تدارک اور علاج کیا جا رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ذریعے مفت علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ وطن عزیز میں اگرچہ جذام کے مریضوں کی تعداد میں بدستور کمی دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن اس مرض سے لاعلمی، لا شعوری میں اسے چھپانا، ظاہر نہ کرنا اور اس مرض کے علاج کے لئے اتائیوں اور عاملوں کا رخ کرنے سے یہ بیماری کنٹرول کرنے میں مسائل کا سامنا ہے جذام کے مرض کی روک تھام شہریوں کو اس کے خوف سے نکالنے پر کام کرنے والے ادارے ماری ایڈ لیڈ لیپروسی سینٹر عوام کو اس مرض کی علامات، آگہی بارے سیمینار کا انعقاد اور اقدامات ریگولر اور ترجیحی بنیادوں پر کریں ۔

جواب دیں

Back to top button