پاکستان پوسٹ کل اور آج

تحریر : صفدر علی حیدری
پاکستان پوسٹ ایک اہم ریاستی ادارہ ہے جو پاکستان میں عوامی خدمات کے لیے ڈاک کا نظام فراہم کرتا ہے ۔ یہ ملک میں سب سے بڑا ڈاک کا خدماتی نظام ہے۔ پاکستان پوسٹ ایک سرکاری ادارہ ہے جو پاکستان کے بنیادی اور سب سے بڑے پوسٹل آپریٹر کے طور پر کام کرتا ہے ۔ 5000گاڑیوں کے بیڑے کے ذریعے 49502ملازمین ملک بھر میں 13419سے زیادہ پوسٹ آفسز سے روایتی ’’ دروازے تک‘‘ سروس چلاتے ہیں، جو 50ملین سے زیادہ لوگوں کی خدمت کرتے ہیں ۔ پاکستان پوسٹ خود مختار ’’ پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ‘‘ کے تحت کام کرتا ہے تاکہ صارفین کو ڈیلیوری، لاجسٹک اور تکمیلی خدمات کی مکمل رینج فراہم کی جا سکے۔ اس کا شعار ’’ ہر شخص کی خدمت، ہر روز، ہر جگہ‘‘ (serving everyone, everyday, everywhere)ہے۔
پاکستان پوسٹ سے ہماری بچپن کی یادیں جڑی ہوئی ہیں ۔ ایک وقت تھا یہ ڈاک کی ترسیل کا واحد ادارہ تھا ۔ جب انٹر نیٹ موجود نہ تھا تو یہی ادارہ تھا جس کے ذریعے ہم لوگ اپنے پیغامات ، خطوط کہانیاں کتابیں اور ضروری اشیاء بھیجتے اور منگوایا کرتے تھے ۔ اس دور میں ڈاک ٹکٹ جمع کرنا بچوں کی پسندیدہ ہابی تھی ۔ ہم لوگ ڈاک ٹکٹ جمع کیا کرتے تھے ۔ ان کے البم بنایا کرتے تھے ۔ تب تو یہ تصور بھی نہیں تھا کہ جی میل کوئی چیز ہے جس سے ڈاکومنٹس بھیجے جا سکتے ہیں ۔ عید کا موقع آتا تو ہم خوب صورت عید کارڈ خرید کر سپرد ڈاک کرتے تھے اور عید سے کئی دن پہلے یہ نیک کام کر لیا کرتے تھے کہ ہمارے کارڈز عید سے پہلے پہلے ہمارے پیاروں تک پہنچ سکیں ۔
جدید دور نے جہاں اور بہت سی چیزیں ہم سے چھین لیں، ان میں ایک اہم ترین چیز عید کارڈ بھی ہیں۔ تب قلمی دوستی کا دور تھا۔ خطوط ہی وہ واحد ذریعہ تھے جن سے انسان نئے نئے دوست بنایا کرتا تھا۔ وہ دوست جو ہمارے ساتھ رسالوں ، ڈائجسٹوں یا اخبارات میں لکھا کرتے تھے، ان کے ساتھ رابطے کا واحد ذریعہ بھی تو خطوط ہی ہوا کرتے تھے اور اس سلسلہ میں ڈاک کا محکمہ ہماری بھرپور مدد کیا کرتا تھا۔ غرض محکمہ ڈاک کی ہماری زندگی میں بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ محلے میں دیوار پر لگا پوست بکس ہمیں گھر کے قریب خط پوسٹ کرنے کی سہولت فراہم کرتا تھا ۔ اگر ہم چاہتے تو خود بھی ڈاک خانے جا سکتے تھے ۔ پوسٹ آفس کے باہر لگا پوسٹ بکس ہمارے خطوط کو کچھ دیر کے لیے اپنے اندر چھپا لیا کرتا تھا ۔ پھر ’’ بوقت کشادگی ‘‘ ڈاک کا عملہ سارے خطوط اور کتابیں اپنے تھیلوں میں ڈال کر بس اڈے پر لے جاتا تھا۔ جہاں سے گاڑیوں کے ذریعے وہ چیزوں مطلوبہ مقامات پر پہنچا دی جاتی تھیں۔ تب پوسٹ کارڈ بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ اگر خط کے ساتھ لگا دئیے جاتے تو ہمیں پتہ چل جاتا تھا کہ خط مطلوبہ آدمی نے وصول کر لیا ہے۔ منی آرڈر کے ذریعے رقم بھی بھجوائی کا سکتی تھی۔ اب تو خیر موبائل بینکنگ اور سیلولر کمپنیوں کے ذریعے رقم ایک منٹ میں بھیجی جا سکتی ہے۔
ایک وقت تھا جب پوسٹ آفس کے باہر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ ناخواندہ لوگ ان سے خطوط لکھوایا کرتے تھے ۔ ایک لطیفہ بھی مشہور ہے۔ ایک آدمی بستی کے کاتب کے پاس خط لکھوانے گیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کے پائوں میں درد ہے۔ جب اس نے کہا کہ خط تو ہاتھ سے لکھا جاتا ہے، تو وہ بولا’’ دوسری بستی والے خط پڑھوانے کے لیے بھی تو مجھے ہی بلوائیں گے ‘‘۔
ڈاک خانہ میرے ماضی کا ایک اہم حصہ ہے۔ میرے نانا مجھے اکثر وہاں بھیجا کرتے تھے۔ میں ان کی دکان کے لیے خط کے لفافے اور ان کی پینشن کے لیے رسیدی ٹکٹ ( سروس ٹکٹ ) لینے جایا کرتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب پوسٹل کوڈ کا اجراء ہوا۔ لوگوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ پوسٹل کوڈ ضرور درج کیا کریں مگر یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ آج بھی اگرچہ لفافے پر پوسٹل کوڈ کے پانچ ہندسی خانے چھپے ہوتے ہیں لیکن انھیں کوئی نہیں لکھتا۔ مجھے اپنے شہر اوچ شریف اور آبائی شہر علی پور کے کوڈ یاد ہیں۔ جب تک ہم خط لکھتے رہے ، پوسٹل کوڈ لکھتے رہے۔پوسٹ آفس سے میری ایک اور یاد بھی جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان پوسٹ میں بیمہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ مجھے بھی بیمہ کروانے کا اتفاق ہوا تھا۔ مجھے ماہانہ ایک ہزار پچاس روپے دینا پڑتے تھے۔ میں نے دو اڑھائی سال ماہانہ پریمیم ادا کیا مگر یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکا کہ میری جیب نے یہ سلسلہ مزید جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ یوں ہزاروں روپے ضائع ہو گئے۔
پاکستان پوسٹ آج بھی قائم و دائم ہے۔ اب بھی لوگ خطوط اور کتب وغیرہ بھیجتے ہیں مگر افسوس پاکستان پوسٹ کا سنہری دور اب گزر چکا۔ پرائیویٹ کمپنیوں کے آ جانے سے پوسٹ پوسٹ کی افادیت پر بڑا اثر پڑا ہے۔ دراز، علی بابا اور دوسری کمپنیاں اسے استعمال نہیں کرتیں۔ دیگر پرائی ویٹ کمپنیاں اور لوگ بھی اسے کم کم استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان پوسٹ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کی سروس فرسودہ ہو گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت کی اس طرف کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ اس کی ترقی کے لیے نئے مواقع دریافت کرے۔ حکومت کی یہ ترجیح ہے ہی نہیں۔ اگر ہوتی تو وہ ضرور اس سلسلہ میں کچھ کرتے۔ ہماری حکومتوں کو ادارے برباد کرنے کا ’’ ول‘‘ خوب آتا ہے۔ کتنے ہی ایسے ادارے ہیں جو ہمارے سامنے برباد ہوئے۔ پی آئی اے ، پاکستان سٹیل اور ریلوے وغیرہ اس کی واضح مثال ہیں ۔
یہ کالم اس لیے لکھا کہ اپنے ذاتی واقعات آپ سے شئیر کر سکوں۔ جن سے آپ کو واضح طور پر محسوس ہو گا کہ پاکستان پوسٹ کی سروس پرائیویٹ اداروں سے بہت بہتر ہے اور یہ سروس کم قیمت بھی ہے۔ ایک بار لاہور میرا جانا ہوا تو میرے پاس سامان زیادہ تھا۔ ایک دوست سے کئی کتابیں تحفے میں ملیں، تو میں نے پاکستان پوسٹ کے ذریعے پوسٹ کر دیں۔ رات کو میں نے علی پور کی بس پکڑی اور صبح پہنچ بھی گیا۔ میں ابھی اوچ شریف نہیں پہنچا تھا کہ پوسٹ آفس سے کال آ گئی۔ کتب پہنچ چکی تھیں۔ ابھی چند دن پہلے کا ذکر ہے۔ جمعرات کو میرے دوست شارق عزیز میاں نے میری کتاب ’’ مٹھی میں کائنات ‘‘ مجھے پوسٹ کی جو مجھے آج مل گئی۔ انہوں نے یہ کتاب وادی شون سے بھیجی۔ منگل کو میرے ایک دوست نے لاہور سے ایک پرائیویٹ ادارے سے مجھے پارسل بھیجا جو آج کی ڈیٹ تک مجھے نہیں مل پایا۔
ہمارے یہاں شاید اس بات کا رواج نہیں کہ ہم اپنے قومی اداروں کی ترقی کے لیے کام کریں۔ ان کی سروس استعمال کریں ۔ دوسری طرف حکومتیں بھی اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتیں، سو ہمارے قومی ادارے تباہ پر کر رہ گئے ہیں۔ میں اس کالم کی مدد سے آپ سے گزارش کروں گا کہ آپ لوگ پاکستان پوسٹ کا ساتھ دیں۔ اسے تباہ ہونے سے بچا لیں۔ آپ اس پر اعتماد کریں، آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچے گی، ان شاء اللہ







