CM RizwanColumn

مروت کی نفرت اور پی ٹی آئی روایت

تحریر : سی ایم رضوان
کہتے ہیں کہ چوروں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہماری ملکی سیاست میں سرگرم سیاستدانوں کے بھی کچھ اصول ہیں۔ اسی لئے جب ایک جانب سے ’’ کچھ دو اور کچھ لو ‘‘ جیسے عالمگیر اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ایک متاثرہ سیاستدان دوسرے سیاست دان یا پارٹی سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور پھر بڑے بڑے بڑے انکشافات ہوتے ہیں۔ دوطرفہ الزامات دھرے جاتے ہیں جوابات آتے ہیں۔ گالیوں اور تہمتوں کے تبادلے ہوئے ہیں۔ اخبارات کی بڑی بڑی سرخیاں بنتی ہیں اور سوشل میڈیا پر ہا ہا کار مچ جاتی ہے۔ مذکورہ عالمگیر اصول کے تحت گزشتہ دنوں سے شیر افضل مروت بھی اپنی ہی پارٹی پی ٹی آئی کے خلاف ڈٹ گئے ہیں اور بعض پارٹی حلقوں کے مطالبے کے جواب میں قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا میں سپاہی ہوں میرا اتنا حق تو بنتا ہے کہ میں ناراض ہو جاں، پاکستان تحریک انصاف سے نکالے جانے والے رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کا پارٹی کے فیصلوں کے خلاف کہنا ہے کہ میں کھسر پھسر پر قومی اسمبلی کی سیٹ کیوں چھوڑوں؟ میں پارٹی پر قبضہ نہیں ہونے دوں گا۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ جیسے مجھے نکالا اس طرح نکالے جانے کے بعد پی ٹی آئی میں کسی کا مستقبل محفوظ نہیں، چار روز سے نعرے لگا رہا ہوں بتائیں مجھے کیوں نکالا۔ واضح رہے کہ یہ بات وہ ن لیگ سے اپنا بیانیہ ملانے کی کوشش کے طور پر کر رہے ہیں لگتا ہے کہ وہ اپنی مستقبل کی پارٹی کے طور پر ن لیگ چن بیٹھے ہیں۔ بہرحال اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سابق رہنما شیر افضل مروت نے کہا کہ میں بانی پی ٹی ائی سے ناراض ہوں وہ مجھ سے ناراض نہیں، نکالا مجھے اور ناراض بھی بانی پی ٹی آئی ہیں؟ شیر افضل مروت نے کہا کہ آج قومی اسمبلی میں میں نے پہلے قیدی نمبر 804کے حق میں نعرے لگائے، میرا منہ اپنے لوگوں کی طرف تھا پھر میں نے نعرہ لگایا مجھے کیوں نکالا، جنہوں نے مجھے پارٹی سے نکلوایا ڈر اور خوف کا عالم یہ ہے کہ وہ میڈیا پر بتاتے بھی نہیں۔ یہ لوگ اپنے پی ٹی ائی کے میڈیا گروپ سے بھی ڈرتے ہیں، لوگ پوچھتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو کب نکالو گے، میں نے کہا کہ جنہوں نے نکلوانا تھا انہوں نے مجھے پارٹی سے نکلوا دیا۔
بہرحال شیر افضل مروت اپنی آزاد طبیعت اور یوتھیا روایت کے مطابق پی ٹی آئی کے متعدد حلقوں اور ان دنوں قبضہ گروپ سمجھے جانے والے گروہوں کے خلاف بیانات میں آگے بڑھتے گئے تو جواب میں متذکرہ لیڈران بھی بیانات دیتے رہے۔ اسی طرح شیر افضل مروت نے ایک ٹی وی چینل کے شو میں دعویٰ کیا تھا کہ شہباز گل جب عمران خان کے چیف آف اسٹاف تھے تو عمران خان کے دو فون جہاز میں گم ہو گئے،، خان نے تحقیقاتی ٹیم بنائی، پتا چلا کہ شہباز گل نے عمران خان کے دونوں فون جنرل فیض کو پہنچائے، اس کے بعد عمران خان نے شہباز گل کو فارغ کیا اور آج تک اپنے پاس رسائی نہیں دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کئی بار پوچھ چکے ہیں شہباز گل کو پارٹی سیاسی اور کور کمیٹی سے اب تک کیوں نہیں نکالا، سلمان اکرم راجا اور حامد رضا گواہ ہیں پوچھ لیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہباز گل پاکستان سے الیکشن کمیشن کی ایک ہستی کی گارنٹی پر باہر نکلا، ٹیکسٹ میرے موبائل میں موجود ہیں۔
اس پر شہباز گل نے شیر افضل مروت کو سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک مسخرہ اور دوسری حاجن۔ الزام تو کوئی ڈھنگ کا بنا لینا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اچھا ایسے کرو اب کیونکہ جرنل فیض تو تمہارے مالکوں کے پاس ہے۔ وہ دونوں فون لے لو۔ ایک خود رکھ لو ایک اپنی بہن کو دے دینا اور ہاں ان کے چارجر جنرل فیض کے گھر سے ضرور لینا۔ ورنہ کارکنوں سے مانگتے پھرو گے۔
اسی معاملے میں تحریک انصاف آزاد کشمیر کے عہدیدار عمر شہزاد جو کہ بقول ان کے اس وقت جلسے میں موجود تھے نے کہا کہ بالکل سفید جھوٹ۔ عمران خان کے وہ دو فون اس وقت گُم ہوئے جب رجیم چینج کے بعد سیالکوٹ جلسہ تھا۔ ان کے مطابق حکومت نے جلسہ سے چند گھنٹے پہلے جلسہ گاہ گرائونڈ کو سیل کر دیا تھا جلسہ ڈار برادرز کی فیکٹری سے ملحقہ جگہ میں ہوا۔ میں اور بانی پی ٹی آئی کی ٹیم، مدثر مچھیانہ، احمد خان نیازی ساتھ موجود تھے۔ وہ پرائیویٹ جہاز سیالکوٹ ایئر پورٹ پر کھڑا تھا جب بانی پی ٹی آئی جلسہ کیلئے گئے تھے تو پیچھے فون چوری ہو گئے۔ ان کے مطابق اس دن شہباز گل ساتھ نہیں تھا۔ جب ہم واپس جلسہ کر کے سیالکوٹ ایئر پورٹ پہنچے تو سلمان احمد نے بتایا کہ فون چوری ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ جن دنوں عمران خان کے موبائل فون چوری ہوئے تھے، شیر افضل مروت اس وقت تحریک انصاف کا حصہ نہیں تھے اور نہ ہی کوئی کارکن انہیں جانتا تھا، شیر افضل مروت کا نام نو مئی کے بعد سامنے آیا تھا جب وہ شہریار آفریدی کی وکالت کر رہے تھے۔ اس وقت شیر افضل مروت نے عمران خان سے تعلقات بڑھا لئے اور تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔
حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ شیر افضل مروت نے بانی پی ٹی آئی سے تعلقات روایتی طریقوں سے نہیں بڑھائے تھے بلکہ ان دنوں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خود جلسے جلوس کئے تھے جب دیگر تمام یوتھیا لیڈران چھپے ہوئے تھے۔
گالیاں، جھوٹی الزام تراشیاں اور فتنہ و شر پھیلانا تو پی ٹی آئی کی ازلی روایت ہے جبکہ اس جماعت کے بانی جب سے کرپشن کے مقدمات میں قید ہوئے ہیں تب سے مظلومیت کا واویلا کرنا اور جیل میں بانی پی ٹی آئی کو درپیش فرضی تکالیف کی شکایات کرنا اس جماعت کی اور اس کی چیدہ چیدہ قیادت کی روایت بن گئی ہے۔ بات کوئی بھی ہو رہی ہو۔ موضوع کوئی بھی زیر بحث ہو یہ خان کی پاکدامنی اور مظلومیت کا رونا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی روایت کا اعادہ گزشتہ روز پی ٹی آئی وفد کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کے دوران ہوا اور شکایات کے انبار لگا دیئے گئے کہ جیل میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی قیادت کو پریشان کیا جاتا ہے۔ ہمارا مینڈیٹ چوری ہو گیا ہے اور ہم کو انصاف نہیں مل رہا وغیرہ وغیرہ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سے تحریک انصاف کے وفد نے اس ملاقات میں بھی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کی جماعت کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے حالانکہ ملاقات کا ایجنڈا کچھ اور تھا۔ جیسا کہ سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق تحریک انصاف کے پانچ رکنی وفد کے ساتھ ہونے والی یہ ملاقات دو گھنٹے جاری رہی۔ اعلامیے کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے ملاقات میں جیل میں موجود پی ٹی آئی لیڈر عمران خان، دیگر رہنماں اور پارٹی کے کارکنوں کو درپیش مختلف مسائل کی نشاندہی کی۔ انہوں نے چیف جسٹس سے شکوہ کیا کہ پی ٹی آئی قیادت کے مقدمات کو جان بوجھ کر ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر مقرر کیا جاتا ہے تاکہ عدالت میں پیش ہونا ناممکن ہو جائے۔ یاد رہے کہ ایک روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے ملاقات ہوئی تھی جس میں وزیر اعظم نے چیف جسٹس کو لاپتہ افراد کے حوالے سے موثر اقدامات میں تیزی لانے کی یقین دہانی کروائی تھی اور ملک کی مختلف عدالتوں میں طویل مدت سے زیر التوا ٹیکس تنازعات کے حوالے سے بھی آگاہ کیا تھا۔ جمعے کے روز سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق ملاقات میں پی ٹی آئی رہنماں کا کہنا تھا کہ پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کے مقدمات کی دفاع کرنے والے وکلا کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جیل حکام عدالتوں کے احکامات پر عمل نہیں کر رہے جبکہ دہشت گردی کے مقدمات پی ٹی آئی وکلا کے خلاف درج کیے جا رہے ہیں اور ان کے اجتماع اور حق اظہار کو دبایا جا رہا ہے۔ اعلامیے کے مطابق عمر ایوب خان نے مزید کہا کہ ملک کا اقتصادی استحکام قانون کی حکمرانی پر منحصر ہے اور معاشی بحالی صرف اسی صورت ممکن ہے جب عدلیہ اپنا کردار ادا کرے اور انتظامیہ کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ تاہم اصل ایجنڈے سے متعلق پی ٹی آئی وفد نے صرف اتفاق کیا کہ ملک میں عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہے اور عوام کو ریلیف اس وقت مل سکے گا جب عدلیہ اپنے پاس زیر التوا مقدمات کو فعال طریقے سے نمٹائے گی۔
اعلامیے کی مطابق چیف جسٹس نے اپنے اصلاحی ایجنڈے پر وسیع تر مشاورت حاصل کرنے کی کوششوں کے طور پر قیادت کو مدعو کیا تھا ملاقات میں چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وفد کو نیشنل جسٹس پالیسی میکنگ کمیٹی ( این جے پی ایم سی) کی متوقع میٹنگ کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے درخواست کی کہ انہیں پاکستان لا اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب سے پیش کردہ پالیسی تجاویز پر ردعمل دینے کے لئے وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس نے وفد کو بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور ان سے اصلاحات کے ایجنڈے پر حکومت کی رائے فراہم کرنی کی درخواست کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم نے اس عمل کو مثبت انداز میں لیا اور پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کے عمل میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
تاہم پی ٹی آئی کے ان رہنمائوں نے اس میٹنگ کے نتائج بھی حسب روایت اپنے مخصوص حق میں کرنے کے لئے خوب پراپیگنڈا کیا۔

جواب دیں

Back to top button