Column

رمضان ریلیف پیکیج اور مہنگائی !

تحریر : شاہد ندیم احمد
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کی لہر تیز ہو جاتی ہے، حالانکہ کاروباری طبقے کا ذہنی رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہے، لیکن ناجائز منافع خوری ‘ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کو وہ بے ایمانی تصور ہی نہیں کرتے ہیں، بلکہ اسے کاروباری ضرورت کہہ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو عوام حکومت کی جانب دیکھنے لگتے ہیں اور ان سے گڈ گورنس اور ریلیف کی توقع کرنے لگتے ہیں ،اس بار وفاقی حکومت نے رمضان ریلیف پیکیج کے تحت 39 لاکھ مستحق خاندانوں کو پانچ ہزار روپے فی کس نقد رقم دینے کا اعلان کیا ہے ،اگرچہ یہ رقم اشیائے خورونوش کی مہنگائی کے پیشِ نظر اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے، تاہم اُن افراد کیلئے کہ جن کی قوتِ خرید بالکل ختم ہو چکی ہے، کسی قدر ریلیف کا باعث ضرور بنے گی۔
اگر دیکھا جائے تو حکومت ہر بار ہی رمضان المبارک میں سستے رمضان بازار لگاتی ہے ، محدود پیمانے پرنقد رقم اور کھانے پینے کا سامان بھی تقسیم کرتی ہے ،لیکن اس طرح سے حکو مت مجموعی طور پر عوام کو سستی اشیائے صرف کی فراہمی یقینی بنانے کی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی ہے ، کیو نکہ ہر سال ہی رمضان المبارک میں منافع خوری میں اضافہ ایک معمول بن چکا ہے، ابھی رمضان المبارک کا آغاز ہونے میں ایک ہفتے سے زائد دن باقی ہیں، لیکن اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اس نا جائز منافع خوروں کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لانی چاہیے، تاکہ عوام کو ماہِ مبارک کی تیاریوں میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے،اس حوالے سے سب سے زیادہ ضلعی انتظامیہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول کرے ، لیکن اس کے بر عکس ضلعی انتظامیہ تماشائی بنی ہوئی ہے اور عوام کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہی ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہر صوبے کے وزیر اعلیٰ اپنے تائیں رمضان پیکیج کی گھروں میں ترسیل کی مانیٹرنگ کے ساتھ رمضان سستے بازار کے دورے بھی کرتے رہتے ہیں، صوبائی انتظامیہ کو متحرک رکھنے کے لیے وزیر اعلیٰ کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، اس صورت میں ہی بیوروکریسی متحرک ہوتی ہے، جب کہ اسے پتہ ہو کہ صوبے کا سربراہ بھی متحرک ہے ، اس رمضان مبارک میں بھی ہر بار کی طرح بڑے شہروں میںگراں فروشوں کے خلاف مہم چلائی جائے گی ،یہ مہم بظاہر بہت اچھی نظر آتی ہے، لیکن اس کے نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوں گے،کیو نکہ یہ مہم پر چون فروشوں کے خلاف ہی چلائی جائے گی ،جبکہ پرچون فروش مہنگائی کے بنیادی اور مرکزی کردار نہیں ہیں، بلکہ منڈیوں میں بیٹھے ارب آڑھتی ہیں، ان کا منافع بے حساب ہے، لیکن جی ایس ٹی سمیت انکم ٹیکس اپنی کمائی سے کہیں کم ظاہر کرتے ہیں۔
اس جا نب حکومت تو جہ دیتی ہے نہ ہی ان پر انتظا میہ ہاتھ ڈا لنے کی کوشش کر تی ہے ، یہ تاجر تنظیمیں نہ صرف سیاست کرنے میں سب سے آگے ہوتی ہیں، بلکہ اہل سیاست کو سپورٹ کر نے میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں تو ان کے خلاف کیسے کارروائی ہو سکتی ہے ، یہ عام لوگ نہیں ،ارب پتی لوگ ہیں ‘کئی ارب پتی تاجر قتل و غارت اور دشمنیوں میں ملوث ہیں، یہ لوگ اپنے سیکیورٹی گارڈز ، مخبروں اور شوٹرز پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں ،لیکن اس سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے ان کا کوئی کردار نہیں ہے ، اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سخت پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے ،مگر اس کے برعکس چھوٹی مچھلیوں کو پکڑکر کارروائی ڈالی جاتی ہے ،خانہ پری کی جاتی ہے، اس طرح سے مہنگائی کو کبھی کنٹرول کیا جاسکے گا نہ ہی عوام کو ریلیف دیا جاسکے گا۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ دُنیا کے ہر ملک میں تا جر برادری اپنے تہوار کے دنوں میں خصوصی سیل لگاتے ہیں، تاکہ ہر آدمی اپنی بساط کے مطابق چیزیں سستے داموں خرید سکے، جبکہ پاکستانی تا جر اپنے تہواروں پر ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، اس لئے ہی شاید ہم ساری دنیا میں کرپشن اور بددیانتی کی وجہ سے مشہور ہیں، اقوام عالم میں لوگ ہم پر ہنستے ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے جو نیو کلیئر پاور ہوتے ہوئے بھی الیکٹرک پاور سے محروم ہے ،یہ کس طرح کا ملک ہے کہ جس کے پاس لاکھوں، کروڑوں ایکڑ زرعی اراضی ہے، پانی بھی ہے، موسم بھی ہیں، محنتی کسان ہیںاور سارے وسائل بھی ہیں،لیکن اپنے بچوں کو پھر بھی ملاوٹ شدہ دودھ پلاتے ہیں، اشیائے خور و نوش کی کمی پوری کرنے کے لئے ہر طرح کی ملاوٹ بھی کرتے ہیں، حالانکہ حدیث پاک ہے کہ ’’ جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔
اس کے باوجود وہی کچھ کر رہے ہیں کہ جس سے منع کیا جارہا ہے تو پھر سزا تو ملے گی، جو کہ آزمائے کرپٹ حکمرانوں کے مسلط ہو نے کی شکل میں دی جارہی ہے، ذرا سوچئے اور توبہ کیجئے، کیونکہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

جواب دیں

Back to top button