’ 8000دن ۔ ڈاکٹر فوزیہ اور عافیہ صدیقی کے‘‘

تحریر : محمد ایوب
ایک 8000دن قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے جس کرب، اذیت اور قید تنہائی میں گزرے ہیں اس کی کیفیت کو محسوس کرنا کسی کے بس میں ہے نہیں، مگر ایک 8000دن اور بھی گزرے ہیں جس کی طرف کسی کا دھیان جاتا ہی نہیں ہے کیونکہ ظلم و بربریت کے ان 8000دنوں کے خاتمے کے لیے جو ہستی جدوجہد کر رہی ہے وہ اپنے دکھ اور اذیتوں کی داستان کسی کو سناتی ہی نہیں ہیں۔ وہ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ہیں۔ جو اپنی بے پناہ طبی مصروفیات کے باوجود ملک و قوم کے وقار کی بحالی اور حکمرانوں کی سوئی ہوئی غیرت جگانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ وہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے عدالتوں میں حاضریاں بھی لگاتی ہیں اور پریس کلبوں، سڑکوں، گلی، محلوں اور شہر شہر، گائوں گائوں میں جاکر جلسوں،مظاہروں اور ریلیوں میں شرکت بھی کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے اور اپنی اسیر بے گناہ بہن کے بچوں کی پرورش، اعلیٰ تعلیم اور تربیت کی ذمہ داریاں بھی نبھا نے کے لیے دن کا سکون اور رات کے چین کی قربانیاں دے رہی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں کچھ دن ایسے بھی گزرے ہیں جن کے بارے میں محض سوچ کر ہی روح تڑپ اٹھتی ہے، شرمندگی کے احساس سے زندگی بوجھ لگنے لگتی ہے۔ ایسا ہی ایک دن 30مارچ ، 2003ء کی صبح کو طلوع ہوا تھا۔ جسے چند ناعاقبت اندیش افراد نے ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن بنا دیا ہے ۔اس دن قوم کی ایک ذہین ترین بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو ان کے تین کمسن بچوں سمیت اغواء کرکے امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ وہ بیٹی فروشی کا پہلا دن جو طویل ہوتے ہوتے 8000دنوں تک جاپہنچا ہے۔
کل 23 فروری، 2025ء کو اس شرمناک ’ دُختر فروشی‘ کے8000 دن مکمل ہو جائیںگے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’’ عافیہ باضمیر لوگوں کا مسئلہ ہے‘‘۔ اور یقینا ہر باضمیر شخص احساس ندامت کے ساتھ اس دن کو ’ یوم ندامت ‘ کے طور پر اپنے اپنے انداز میں منائے گا۔ کیونکہ اس دن اگر قوم کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے قید ناحق میں 8000دن مکمل ہو جائیں گے تو قوم کی دوسری بیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی بے مثال جدوجہد اور ان گنت قربانیوں کے بھی8000دن مکمل ہو جائیں گے
یہ 8000دنوں کی عجب داستان ہے جس میں اپنوں نے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو اپنے تین کمسن بچوں سمیت کراچی سے اغواء کر کے امریکی حکام کے حوالے کیا تھا۔ بعد ازاں انہیں افغانستان منتقل کیا گیا، پھر انہیں 5سال تک جبری طور پر لاپتہ رکھا گیا تھا ۔ اس تمام عرصہ میں خفیہ عقوبت خانوں میں ان پر انسانیت سوز تشدد کیا گیا۔ جب دنیا کو پتہ چلا کہ بگرام کے خفیہ عقوبت خانے میں ایک خاتون قیدی نمبر 650بھی موجود ہے تو پہلے تو اس کی موجودگی سے انکار کیا گیا۔ جب ان کے لیے اپنے جھوٹ کو چھپانا ناممکن ہو گیا تو انہوں نے عافیہ کے قتل کا منصوبہ بنالیا ، جس کی ناکامی پر اسے غیرقانونی طور پر افغانستان سے امریکہ منتقل کر دیا گیا۔ جہاں انہیں امریکی فوجیوں پر حملے کے جھوٹے الزام میں نیویارک کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا اور پھر مکمل طور پر یکطرفہ عدالتی کاروائی کے ذریعے 86سال کی ظالمانہ سزا سنا کر ایف ایم سی کارسویل جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ جہاں ڈاکٹر عافیہ نہ جیل حکام کی خباثت سے محفوظ ہے اور نہ ہی ساتھی قیدیوں کے حملوں سے محفوظ ہے۔ ان پر بار بار جنسی و جسمانی تشدد کیا جاتا ہے، جس کی تفصیلی رپورٹ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا چکے ہیں اور23مئی ، 2018ء کو عمران خان کے دور وزارت عظمیٰ میں امریکہ میں متعین پاکستانی سفارتکار عائشہ فاروقی وزارت امور خارجہ میں جمع کرا چکی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی حالت زار کا اندازہ ان کے وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ کے اس بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ’’9؍11کے متاثرین میں عافیہ کی حالت سب سے ابتر ہے‘‘۔ جبکہ ان ہی 8000دنوں کی ایک اور داستان قوم کی بیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی بھی ہے کہ جو اپنی بے پناہ طبی مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی صورت میں ملک و قوم کے وقار کی بحالی کیلئے اندرون و بیرون ملک بے مثال جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کی جدوجہد سے تو ایک سبق سارے عالم کے لیے یہ بھی ہے کہ ’ رشتے کیسے نبھائے جاتے ہیں‘ ۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اس جدوجہد میں ان گنت قربانیاں دی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ، اپنی اسیر بے گناہ بہن عافیہ کے بچوں کی بھی پرورش کر رہی ہیں اور انہیں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ و مثالی تربیت دینے کا فریضہ بھی سر انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے ( سانحہ 30 مارچ ۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کا 3کمسن بچوں سمیت اغوائ) کے بعد اپنی ضعیف اور بیمار مگر باہمت ماں کی بھی بے مثال خدمت اور دیکھ بھال کا فریضہ ادا کیا ہے۔
سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی سبکدوشی سے قبل Clemency Petitionکے ذریعے ڈاکٹر عافیہ کی سزا کے خاتمے کا سنہری موقع حکومت پاکستان ضائع کر چکی ہے۔ جس کے بعد مظلوم بہن عافیہ کی رہائی کے لیے اگلے مرحلے Plan Bکا آغاز کیا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے سپورٹرز نے ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کرائی ہے کہ عافیہ کی رہائی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ ان شاء اللہ







