Column

ماں بولی کا دن اور ماں بولی کا دکھ

تحری : صفدر علی حیدری
21 فروری کو ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ یہ دن اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے 1999ء میں منظور کیا گیا اور 2000ء سے ہر سال عالمی سطح پر منایا جا رہا ہے۔ اس کا پس منظر 1952ء میں بنگلہ دیش ( اس وقت مشرقی پاکستان) میں زبان کے حقوق کے لیے دی گئی قربانیوں سے جڑا ہے ۔ جب کئی لوگوں نے بنگالی زبان کے حق میں جانیں دیں ۔ اس واقعے کی یاد میں یہ دن مادری زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے ۔
دن منانے کی بدعت کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو ، ہمیں کم از کم سال میں ایک بار کسی خاص موضوع پر کچھ سوچنے یا بولنے کا موقع ضرور مل جاتا ہے ۔ آخر مادری زبان کیا ہے ؟ اور اس کی کیا اہمیت ہے ؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی طور یہ ایک اصول بن گیا ہے کہ بچے کی تعلیم اس زبان میں ہی ہونی چاہیے جو اس کے ماں باپ گھر پر بولتے ہیں ۔ ہم سرائیکی کی ہی ایک مثال لیتے ہیں ۔ ایک بچہ گھر میں ’’ ککڑ ‘‘ سیکھتا ہے لیکن جب وہ سکول جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ مرغی ہے ۔ انگریزی میں اسے چکن کہتے ہیں ۔ اب کسی ایک چیز کے لیے اتنے زیادہ الفاظ کا موجود ہونا بچے میں کنفیوژن پیدا کرتا ہے ۔ جب گھر میں کوئی اور زبان بولی جائے اسکول میں کوئی دوسری اور آفس میں کوئی اور تو انسان کا کنفیوعن اور بڑھ جاتا ہے ۔ اگر ایک خاص عمر اور تعلیمی درجے تک بچے کو اس کی مادری زبان میں ہی پڑھایا جائے تو کم از کم خواندگی کا مسئلہ تو حل ہو سکتا ہے ۔
مادری زبان کو مادری زبان اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ماں کی زبان ہے ، اس زبان میں ماں بچے کو لوریاں دیتی ہے ، جو شروع کے چار پانچ وہ ماں کے ساتھ وہ زبان بولتے اور سنتے ہوئے گزارتا ہے اس لیے اس کی بہترین اور فرسٹ لینگویج وہی بنتی ہے اور شاید یہ ہی بنیاد ہے اسے مادری زبان کہنے کی ۔ اس سے ہی ’’ مدر لینڈ‘‘ یا دھرتی بھی بنا ہے۔ جس طرح گلوبل وارمنگ نے کائنات کا درجہ حرارت بڑھا دیا ہے اسی طرح عالمی گائوں بنے سے زبانوں کے تیزی سے معدوم ہونے کا خطرہ روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ زبانوں کے معدوم ہونے میں بڑا ہاتھ ہمارے والدین کا بھی ہے ۔ وہ گھر میں اپنی ماں بولی کی بجائے اردو یا انگریزی بولنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پھر بڑے پرائیویٹ اسکولز بھی اس سب میں برابر کے قصور وار ہیں ۔
یہ سوال خاصا دلچسپ ہے کہ سب سے زیادہ کون سی زبان بولی جاتی ہے ۔ تو تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی چین کی زبان مندرین ہے جسے تقریباً ایک ارب لوگ بولتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا نمبر ہسپانوی زبان کا ہے ، جسے تقریباً 400ملین لوگ بولتے ہیں ۔ تیسرا نمبر انگریزی کا ہے جسے بولنے والوں کی تعداد 335ملین کے نزدیک ہے ۔ اردو بھی ایک نمایاں زبان ہے اور تیسرے سے دسویں نمبر پر روایت کی جاتی ہے ۔
یہ بات قابل ذکر ہے لاہور ہائیکورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں پنجاب حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ پانچویں جماعت تک مادری زبان میں تعلیم کو لازمی قرار دینے کے لیے فوری اقدامات کرے ۔ اب اس سلسلہ میں کیا اقدامات کیے گئے ؟ خدا جانے ۔
قوم پرست جماعتوں اور ادبی تنظیموں کا بھی بارہا کا مطالبہ ہے کہ اردو کی طرح دیگر زبانوں کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے ۔ ہمارا آئین ہر شخص کو اپنے مادری زبان میں تعلیم کا حق دیتا ہے ۔ مگر افسوس اسے یہ حق آج تک نہیں دیا گیا ۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اقلیتوں کی شناخت قائم رکھنے کے لیے ان کی زبانیں قائم رکھنا بہت ضروری ہے ۔ اس کے ادارے یونیسکو نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے ’’ جب کوئی زبان غائب ہو جاتی ہے تو اپنے ساتھ پوری ثقافت اور انٹیلیکچول وراثت بھی لے جاتی ہے‘‘۔ مادری زبان کے دن کے موقع پر ہمیں اکٹھے ہو کر مقامی زبانوں کو محفوظ بنانے کا عزم کرنا چاہیے۔ کسی نے بجا لکھا ہے کہ ’’ آپ جب پہلی مرتبہ بچے کو سکول بھیجتے ہیں تو اس پر دو ظلم کرتے ہیں ۔ ایک تو اس سے پہلے ماں کی گود چھین لیتے ہیں اور دوسرا اس سے ماں بولی بھی لے لیتے ہیں ‘‘۔
مجھے سرائیکی ہونے پر فخر ہے لیکن اردو میرا عشق ہے ۔ نوبیل انعام دینے والے ادارے نے بھی مادری زبان کے حوالے سے اپنے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ادب کا نوبیل انعام اب تک 25ایسے افراد کو دیا جا چکا ہے جنہوں نے تخلیقی کام اپنی مادری زبانوں میں کیا ۔ ان میں بنگالی ، ہنگیرین اور ترک زبان بھی شامل ہیں ۔
ہماری مادری زبان کے پاس ہزاروں سال کی تہذیب، ہماری شناخت، روحانیت اور اقدار کا نظام ہے جس برادری میں ہم رہتے ہیں ۔ آخر مادری زبان میں بات کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ اس میں کیا شرمندگی ہے؟، اگر مادری زبان نہیں بولیں گے تو یہ آہستہ آہستہ مر جائے گی اور اس کے ساتھ ہزاروں سال کی ثقافت بھی ۔ اس کا آسان حل ملک میں زیادہ قومیں زبانیں تسلیم کرنا ہے ۔ انڈیا میں 21قومی زبانیں ہیں جبکہ سوئٹزرلینڈ میں چار۔ تو کیا پاکستان میں ایک سے زیادہ قومی زبانیں بنانا کوئی بڑا مسئلہ ہے؟۔
مجھے سرائیکی ہونے پر فخر ہے لیکن اردو میرا عشق ہے ۔ ہمارے یہاں زبانوں پر بھی سیاست کی جاتی ہے اور اتنی گرد اڑائی جاتی ہے کہ اصل مسئلہ ہی چھپ کر رہ جاتا ہے ۔ یاد پڑتا ہے کہ ایک بار کسی دوسرے درجے کے مزاحیہ اداکار سے پوچھا گیا کہ آپ کون سی زبان بولتے ہیں تو اس کا جواب سنہری الفاظ میں لکھا جا سکتا ہے ۔
انسان جو مرضی زبان بولتا ہو ، اسے بات اچھی کرنی چاہیے
آخر میں اپنا ایک افسانچہ پیش کر رہا ہوں
ماں بولی کا دکھ۔۔۔
یار تیری یہ بات مجھے بڑی عجیب لگتی ہے کہ انگریزی کے پروفیسر ہو کر بھی تم ماں بولی کو نہیں بھولتے۔۔۔ کمال محبت ہے تمہاری اپنی ماں بولی کے ساتھ، بھئی یہ ہماری ماں بولی۔۔ پہلی محبت جیسی ۔۔۔ ہماری پہلا پیار ہماری ماں ہے تو یہ محبت ہم نے جس زبان میں کی وہ بھی تو ہماری محبت ہی ٹھہری ۔۔۔ جو ہم نے اٹک اٹک کر لفظ بولنا سیکھے تھے، وہ بھی تو اسی زبان میں ہی سیکھے تھے۔۔ اور پھر ہمارے گھر والے ، ہمارے بڑے وہ توتلے جملے سن کر کتنا خوش ہوا کرتے تھے۔۔ اماں بتاتی ہیں کہ میرے مرحوم ابا کو میرا یہ جملہ بڑا پسند تھا جب میں ہتھیلی کھول کر کہتا تھا ’’ پیپے تاں کینی ۔۔۔ ( پیسے نہیں ہیں )‘‘ وہ بار بار یہ جملہ یاد کرتے، ہنستے اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا دیتے ۔۔’’ کہڈاہیں پیسے دی تھوڑ نہ تھیوری ( کبھی پیسوں کی کمی نہ ہو خدا کرے )‘‘۔ میں جب یہ زبان بولتا ہوں تو لگتا یے میں اپنے پرکھوں کو یاد کر رہا ہوں ۔۔۔ اپنے دادا جی کو ۔۔ اپنے بابا کو ، اپنے تایا کو ۔۔’’ وہ آبدیدہ ہوئے جاتے تھے ‘‘ میں بھی اپنی زبان نہیں بھولا ۔۔۔ گھر میں بچوں پر غصہ آتا ہے تو میں ماں بولی میں ان کو ڈانٹتا ہوں ۔۔ اپنی بولی میں گالیوں دینے کا اپنا ہی مزہ ہے۔

جواب دیں

Back to top button