پنجابی شناخت پر حملے کیوں؟

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
گزشتہ روز بارکھان زڑکن لیوز تھانے کے قریب ناکہ لگاکر مسلح افراد نے کوئٹہ سے پنجاب جانیوالی بس سے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد 7مسافروں کو اتار کر قریبی پہاڑوں پر لے جاکر گولیاں مار دیں اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات میں 31جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب مسلح افراد کی جانب سے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر پنجگور سے آنے والی ایک مسافر کوچ پر فائرنگ سے 17سکیورٹی اہلکار شہید کئے گئے۔ گزشتہ سال اگست کے مہینے میں بارکھان سے متصل ضلع موسیٰ خیل میں ڈیرہ غازی خان کے راستے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان شاہراہ پر مختلف گاڑیوں سے 22مسافروں کو اتار کر انہیں گولی مار کر شہید کیا گیا تھا۔ ان میں سے دو کا تعلق بلوچستان جبکہ باقی تمام لوگوں کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔ جبکہ پچھلے سال اپریل میں نوشکی میں کوئٹہ اور تفتان کے درمیان شاہراہ پر ایک بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9مسافروں کو فائرنگ کرکے شہید کیا تھا۔ ان افراد کی آخری سانسوں کی معصوم حیرت، دردناک ہے کیونکہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ آخر پنجابی ہونا کیوں ایک قابل قتل جرم بن گیا؟ اگر دہشت گردوں کے مسائل پنجابی مزدوروں کو قتل کرکے حل ہوسکتے ہیں تو ابھی تک کچھ حالات میں بہتری آچکی ہوتی۔ اس سے پہلے استاد بھی شہید ہوئے ہیں، حجام، زائرین، نانبائی اور پھر مزدوری کے خواب دیکھنے والے مزدور بس میں اونگھتے نوجوان جو اپنے والدین بہن بھائیوں کا سہارا تھے ایک ایسی موت کا شکار ہوئے جن میں ان کا صرف پنجابی ہونا قصور تھا۔ بلوچستان کا مسئلہ کسی فرد یا سرکاری اہل کار کو قتل یا ہزارہ برادری کا قتل عام کرکے حل ہوسکتا ہے تو وہ اس قدر ہوگئے ہیں کہ اپنا ہنستا بستا کوئٹہ چھوڑ کر ہزاروں خاندان پاکستان بھر میں دربدر ہیں۔ یہ حملے رک جانے چاہئیں تھے۔ ابھی تک ان دشت گردوں کے کالجے ٹھنڈے نہیں ہوئے۔ پاکستانی سیاست میں لمبا عرصہ حکمران رہنے والی سیاسی پارٹی کا تعلق بھی صوبہ پنجاب سے ہے لیکن حکمران جماعت کی طرف سے اس لسانیت کی جنگ کو ٹھنڈا کرنے میں کوئی پلاننگ نہیں کی گئی، صوبہ بلوچستان کی تعمیر و ترقی کیلئے حکومتوں کی طرف سے اقدامات تو کئے جاتے رہے لیکن ان کے ثمرات کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ملا۔ سب سے زیادہ مشرف دور میں بلوچستان حکومت کو فنڈز جاری ہوئے جس سے تھوڑی بہتری نظر آئی لیکن حالات پھر خراب ہی رہے۔ چھوٹی سیاسی جماعتیں اپنے وجود کو زندہ رکھنے کیلئے لسانی کارڈ استعمال کرتی ہیں لیکن اس کارڈ سے ملک میں تفریق کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ صوبہ بلوچستان کے عوام کیلئے کوئی ریلیف نہیں۔ تعلیمی نظام نہیں، صحت اور روزگار کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ محرومی سے نجات ہی ان دہشت گردوں کی کمر توڑ سکتی ہے، عوامی شعور اجاگر کرنا، انسانی حقوق کی پاس داری کامیاب بلوچستان کی ضمانت ہے۔







