کمیونل صحافت سے یو ٹیوب صحافت تک

تحریر: روشن لعل
ان دنوں پاکستانی صحافت کے حوالے سے یہ باتیں عام سننے کو مل رہی ہیںکہ جس قسم کے بحرانوں کا شکار ہماری صحافت آج ہے ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ اس قسم کے احساسات رکھنے والے لوگ حکومتی رویوں اور ’’پیکا ‘‘ جیسے قوانین کو درپیش بحرانوں کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ آزاد صحافت سے مراد، سچ کا ابلاغ ہوتا ہے لیکن پیکا جیسے قوانین کی موجودگی میں آزاد صحافت کا عملی اظہار ممکن ہو ہی نہیں سکتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قوانین کے ذریعے صحافت کو کنٹرول کرنا سچ کے ابلاغ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف ہے لیکن یہاں یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ’’پیکا‘‘ کے نفاذ کے بعد صرف سچ بولنے والوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی ہوئی ہیں یا آزادی سے جھوٹ بولنے والوں کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان باتوں پر غور کرنے کیلءے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہاں صحافت کا سفر کہا ں سے شروع ہوکر کہاں تک پہنچ چکا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کیونکہ زیادہ تر لوگ مذہبی وابستگی کی بنیاد پر سیاست اور سیاسی جماعتوں سے جڑے ہوئے تھے اس لئے اس دور کی صحافت کا مرکز و محور بھی مذہبی جذباتیت ہی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد یہاں کا معاشرتی ماحول تو بڑی حد تک تبدیل ہوگیا مگر اخبارات کی ادارتی پالیسی تقریباً وہی رہی جو انگریز دور میں تھی۔ پاکستان بننے کے بعد، عام آدمی تو ان خوابوں کی تعبیر کے متعلق جاننا چاہتا تھا جو اسے پاکستان کا مطالبہ پیش کرتے وقت دکھائے گئے مگر اخبارات قیام پاکستان سے پہلے کے دور سے باہر نہیں نکل پا رہے تھے۔ ایسے حالات میں پروگریسو پیپرز کا قیام اور اس کے تحت اردو اور انگریزی اخبارات کا اجرا عوام کیلئے نعمت بن کر ظاہر ہوا۔ قبل ازیں یہاں صحافت کے نام پر صرف جذباتیت موجود تھی لیکن پروگریسو پیپرز کے اخبارات نے پاکستان میں اصل صحافت کو روشناس کرایا۔ اس سلسلے میں انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز اور اردو اخبار امروز نے یہاں صحافت کا سفر روایت شکن سمت کی طرف موڑ دیا۔ مذکورہ اخبارات سے وابستہ صحافیوں نے ترجیحی بنیادوں پر عام آدمی کے مسائل کو اپنی خبروں کا موضوع بنایا۔ ان صحافیوں نے طبقاتی نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے مزدوروں، کسانوں، عورتوں اور طالب علموں کے مسائل کو اجاگر کیا۔ صحافیوں کے اس کردار کی وجہ سے یہاں اس مخاصمانہ صحافت کا خاتمہ ہوا جو صرف چند نعروں کی بنیاد پر قائم ہوئی اور چل رہی تھی۔ بعد ازاں اس قسم کی صحافت سے وابستہ اخبارات بھی آہستہ آہستہ بند ہونا شروع ہوگئے۔
پاکستان بننے کے بعد جب یہاں جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل حکمران شہری آزادیوں کو پامال کرتے ہوئے جمہوریت کے قیام اور زرعی اصلاحات کے نفاذ کے ضمن میں کئے گئے اپنے وعدے پورے کرنے سے پیچھے ہٹ گئے تو ترقی پسند صحافیوں نے نہ صرف انہیں، ان کے وعدے یاد دلائے بلکہ ایفائے عہد نہ کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ اس دور میں اکثر صحافیوں کی تحریروں میں عام آدمی کے مسائل کا عکس نظر آتا تھا۔ عام آدمی کے مسائل کا عکس پیش کرنے والے صحافیوں نے بنیادی انسانی حقوق کے ضمن میں خاص طور پر عورتوں کے حقوق کی بات کی۔ صحافت کے اس تبدیل شدہ رجحان کا اثر علاقائی زبانوں میں شائع ہونیوالے جرائد پر بھی ہوا۔ اس قسم کے حالات پیدا ہونے پر حکمرانوں نے اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کی بجائے عوامی مسائل کی نشاندہی کرنیوالے اخبارات کو قومی تحویل میں لے کر اپنی اطاعت گزاری پر مجبور کر دیا۔ جن صحافیوں نے حکمرانوں کی اس غنڈہ گردی کیخلاف آواز اٹھائی انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پابند سلاسل کیا جانے لگا۔ ضمیر کی آواز پر قلم کی حرمت کو مقدم رکھنے والے صحافیوں کی زندگیوں کو طویل غیر جمہوری دور میں وسیع پیمانے پر اور مختصر جمہوری دور میں محدود حد تک اذیت ناک بنا دیا گیا۔ جولائی 1977ء کے مارشل لاء کے بعد عائد کی گئی پابندیوں نے قلم کی حرمت کا پاس رکھنے والے صحافیوں کیلئے حالات کو مزید سخت اور مشکل بنا دیا۔ آزادی اظہار کی راہیں مسدود کر دینے والی سختیوں کے نفاذ کے باوجود کچھ شہبازوں نے اپنی پرواز جاری رکھی جبکہ کئی شاہ سوار سمجھے جانے والوں نے شہ نشینوں کے پیروں کی خاک بننے کو ترجیح دی۔ ایسے حالات میں خالی ہونیوالی زیادہ تر جگہوں پر قلم کے سپاہیوں کی بجائے ایجنسیوں کے کاسہ لیسوں کو ترجیح دی گئی۔ دنیائے صحافت میں ایسے مصاحب پیدا ہوگئے جنہوں نے نئے نئے داتا دربار تلاش کرکے اپنے اور مالکان کیلئے دانے دنکے کا بندوبست کرنا اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ گو کہ ایسے لوگوں کی تعداد کے متعلق مبالغہ آرائی کی جاتی ہے مگر دنیائے صحافت میں ان کی واضح موجودگی سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ افسوس ایسے لوگ تقریباً ہر دور میں صحافی برادری کے چہرے پر بدنما داغ بن کر موجود رہے۔
یہاں حالات کی تبدیلی کے ساتھ صحافت کے چہرے کے بدنما داغ زیادہ نمایاں ہونا شروع ہوگئے۔ یہ داغ اس وجہ سے زیادہ نمایاں ہوئے کیونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ملنے والے آزادی اظہار کے حق کو یہاں انتہائی بے دردی سے استعمال کیا جانے لگا۔ جن آزادیوں کو یہاں بے دردی سے استعمال کیا گیا ان کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے تو دنیا سے کوچ کر گئے مگر ان آزادیوں سے مستفید ہونے والوں میں بہت کم ایسے لوگ سامنے آئے جنہیں ان کے سابقین کا عکس کہا جاسکے۔
صحافیوں کے متعلق کہا جاتاہے کہ انہیں سماج میں اچھا میک اپ مین نہیں بلکہ بہترین عکاس بن کر اپنا کام کرنا چاہئے۔ کسی عکاس کا یہ کام ہوتا ہے کہ اس کے سامنے جو کچھ بھی ہے وہ اس کا ہو بہو عکس پیش کرے جبکہ میک اپ مین اپنے فن سے کسی خوبصورت شے کو خوفناک اور بھدی چیز کو دلکش بناکر پیش کر سکتا ہے۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ جن صحافیوں کو عکاس ہونا چاہئے تھا ان کی بڑی تعداد نے ناجائز مالی مفادات حاصل کرنے کیلئے، میک اپ مین بن کر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔
صحافت کی دنیا میں جہاں جھوٹ اور سچ کو غلط ملط کیا گیا وہاں اس عمل کے اسقاط کا احساس بھی پیدا ہوتا رہا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سچ کے ساتھ کھڑے لوگ کمزور ہونے کی وجہ سے کبھی منظم شکل اختیار نہ کر سکے۔ ایسے لوگوں کے مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے یہاں صحافی نما لوگ جو اپنی روٹی روزی کیلئے پہلے ایجنسیوں کے مرہون منت تھے انہوں نے زیادہ مالی مفادات حاصل ہونے پر یوٹیوبرز کی شکل اختیار کرلی۔ ایجنسیوں کی سکھائی ہوئی کلاکاری کو استعمال کرتے ہوئے یہ یوٹیوبر اس کمال کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں پیش کیا جانے والا سچ کہیں ٹھہر نہیں پاتا۔ یوٹیوبرز کا جھوٹ سچ پر حاوی ہونے کے بعد ان کے توڑ کیلئے’’ پیکا‘‘ جیسا قانون بنایا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر یوٹیوبرز، آزادی سے اپنے جھوٹ کا ابلاغ جاری رکھنے کیلئے ملک سے فرار ہوچکے ہیں جبکہ پیکا کا قانون یہاں سچ پر مبنی صحافت کرنے والوں کے سامنے رکاوٹ بن کر ان کا منہ چڑا رہا ہے۔





