دال چاول کھائو کرکٹ کھیلو

تحریر : سیدہ عنبرین
پاکستان نے طویل جدوجہد کے بعد ایک جنگ جیت لی ہے، اس جنگ میں بھارت ہمارا مقابل تھا، تنازع باسمتی چاول کا تھا، ہم کہتے تھے یہ ہمارا ہے، جبکہ بھارتی موقف تھا کہ باسمتی چاول ان کا ہے۔ باسمتی چاول اپنے ذائقے اور خوشبو کے اعتبار سے بہترین قسم ہے اور دنیا میں اس کی بہت مانگ ہے، پاکستانیوں نے اس کی تجارت میں بھی اپنا رنگ دکھایا، چاولوں کے ساتھ کنکر پتھر بھی ایکسپورٹ کرنے شروع کر دیئے۔ ہمارے دوست ممالک ہماری محبت میں کچھ عرصہ خاموش رہے، پھر انہوں نے وارننگ دی، جس پر کسی نے کان نہ دھرے، شکایات بڑھتی گئیں، لیکن کسی سطح پر اس کا نوٹس نہ لیا گیا، بعض پاکستانی تاجروں کا خیال تھا کہ جیسے پاکستانی باسمتی چاول پسند ہے، اسے یہاں کی مٹی اور کنکر بھی پسند ہونے چاہئیں، یہی سوچ کر انہوں نے یہ مکروہ کاروبار جاری رکھا، پھر وہ وقت آیا جب بعض ممالک نے ہمارا ترسیل کردہ چاول واپس بھجوا دیا اور آئندہ نہ خریدنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران بھارت کے ساتھ تجارت کا عشق ہمارے سروں پر سوار تھا۔ بھارتی تاجروں نے پاکستان کی اس ’’ کیش کراپ‘‘ کی بڑے پیمانے خریداری شروع کر دی، وہ پاکستانی باسمتی یہاں سے بھارت لے جاتے، اس کی پیکنگ کھولتے، صفائی ستھرائی کرتے اور اپنی پیکنگ میں اسے ان ممالک میں ایکسپورٹ کر دیتے، جہاں کبھی ہم براہ راست مال بھیجا کرتے تھے، وہ تمام ممالک جو ہم سے نسبتاً کم نرخوں پر خریداری کیا کرتے تھے، بھارت سے یہی خریداری مہنگے داموں پر کر کے بھی خوش نظر آئے، کیونکہ اب یہ ملاوٹ سے پاک ہو چکا تھا۔ ہمیں ہوش اس وقت آیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، کئی برس تک بھارتی پیکنگ میں چاول خریدنے کے بعد یہ تاثر قائم ہو گیا کہ دنیا کا بہترین باسمتی چاول بھارت میں پیدا ہوتا ہے اور بھارت ہی ایکسپورٹ کرتا ہے، اس تاثر کو زائل کرنے میں خاصا وقت لگا، اب خبر آئی ہے کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے باسمتی چاول کو ہماری پراڈکٹ تسلیم کر لیا ہے، لیکن ابھی انہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ بھارت سے باسمتی امپورٹ کرنا چھوڑ دیں گے اور پاکستان کی طرف لوٹ آئیں گے۔ چاول کے حوالے سے جو مارکیٹ ہم کھو چکے ہیں، اسے دوبارہ حاصل کرنے اور وہاں قدم جمانے میں بہت عرصہ لگے گا، وہ بھی صرف اس صورت کہ ہمارے تاجر دیانتداری سے کام کرنے پر آمادہ ہوں۔ فی الحال دور دور تک اس کے آثار نظر نہیں آتے، چند گندی مچھلیوں نے پورے تالاب کو گندہ کر دیا ہے، پاکستان کے تاجروں کی ایک بہت بڑی تعداد نیک نام ہے مگر سبھی نہیں۔
ملاوٹ کا کلچر 1980ء کے بعد شروع ہوا اور پھر بجلی کی تیزی سے اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، آغاز دودھ میں پانی کی ملاوٹ سے ہوا، کسی نے ادھر توجہ نہ دی، پھر شہروں کو صاف اور خوبصورت بنانے کے خواب دکھا کر بھینسوں کے باڑے شہر سے نکال باہر کئے، اب دودھ کا کاروبار کرنے والوں پر کسی کی نظر نہ تھی، انہوں نے منافع خوری کے شوق میں ملاوٹ شروع کر دی اور بہانہ بنایا کہ ہمارے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ حقیقت یہ نہ تھی بلکہ اس کاروبار سے منسلک بعض افراد فلمی دنیا کی طرف مائل ہوئے، انہوں نے فلمسازی میں اپنا سرمایہ جھونکنا شروع کیا، جو ہر زمانے میں ایک بہت جوا ہی سمجھا گیا، فلمسازی کے بہانے دیگر شوق بھی پورے ہوتے رہے، ایک وقت ایسا بھی آیا جب فلم کا صرف اعلان ہوتا تھا، افتتاحی شوٹنگ اور بس، سب کچھ ہمیشہ کیلئے پیک ہو جاتا، فلمساز کی ضرورت کیلئے سٹوڈیو میں دفتر قائم رہتا، جہاں دیگر تمام شوق پورے کئے جاتے۔
دودھ کے کاروبار سے کروڑ پتی بننے والوں کی دیکھا دیکھی دیگر چیزوں میں بھی ملاوٹ شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے ، آج پاکستان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہاں کھانے پینے کی کوئی چیز خالص شکل میں دستیاب نہیں، انتہا یہ ہے کہ دودھ بیچنے والے دھڑلے سے تین قسم کا دودھ بیچتے ہیں، کم پانی والا دودھ، زیادہ پانی والا دودھ اور پانی میں کچھ دودھ، ہمارے مستقبل کے وارث جنہیں اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا ہے اب تو چند قدم چلتے ہیں تھک جاتے ہیں، کچھ ہانپ جاتے ہیں، کچھ کانپ جاتے ہیں، ملاوٹ مافیا اب ادویات بنانے والی فیکٹریوں تک جا پہنچا ہے، غذا کے بعد اب دوا بھی خالص نہیں رہی۔
فوڈ اتھارٹی کی طرف سے کبھی کبھار کارروائی نظر آتی ہے، وہ ملاوٹ شدہ دودھ کے ٹینک ضائع کر دیتے ہیں، لیکن ملاوٹ مافیا پھر بھی ختم نہیں ہوا، نمائشی کارروائیوں کی کوئی وجہ نہیں، قوانین تبدیل کرنے ہوں گے، جس دکان، جس سٹور سے ملاوٹ شدہ سامان برآمد ہو، اس کا مالک گرفتار کیا جائے، اس جرم کو ناقابل ضمانت بنایا جائے اور سٹور یا دکان کی ملکیت ہو تو اسے ہمیشہ کیلئے سیل کر دیا جائے۔ اس کی سزا 14برس قید رکھی جائے، قتل کی سزا 14برس ہے تو ملاوٹ بھی اقدام قتل ہے کچھ کم نہیں۔ ہر سال خبر آتی ہے فلاں شہر میں ایکسپائرڈ جوس پینے سے اتنے بچے ہلاک ہو گئے، بارات کو دیا جانے والا کھانا خراب ہو چکا تھا، پوری بارات ہسپتال پہنچ گئی، ملاوٹ کی سزا اتنی کم ہے کہ ملاوٹ مافیا پر اس کا بوجھ نہیں پڑتا۔ اول تو چھاپے سے قبل ہی اسی دفتر سے اطلاع آ جاتی ہے، پھر بھی اگر چھاپہ مار ٹیم کچھ پکڑ لے تو تمام شواہد غائب کرنے اور قانون کا منہ بند کرنے کے کئی راستے ہیں، مختلف ویڈیوز کلپ میں دیکھا شہر کی بہترین بیکری میں اشیاء سے سجے شو کیس میں چوہے ناچ رہے ہیں، آج تک کسی کو چند روز کیلئے سیل نہیں کیا گیا، نہ اس کا یہ غلط سامان تلف ہوا، نہ ہی اسے جرمانہ، نہ کوئی اور سزا ملی۔ سزا تو صرف عام آدمی کیلئے ہے۔
زندگی سے بڑی سزا نہیں
جرم کیا ہے پتہ ہی نہیں
چاول کی جنگ جیتنے کے بعد اب ہم ایک اور جنگ کے میدان میں قدم رکھ رہے ہیں، یہ کرکٹ کی جنگ ہے، بس یہی دو جنگیں اہم ہیں، اس کے علاوہ کسی کی کوئی اہمیت نہیں، یہی وجہ ہے اب ایٹم بم کی کوئی اہمیت نہیں رہی، بڑی طاقتیں کمزور ملکوں کو یہی پٹی پڑھا رہی ہیں کہ نیو کلیئر پر تمہارا حق نہیں، یہ صرف طاقتور ملک ہی رکھ سکتے ہیں، ان کا اگلا سبق اور ہدف یہ ہے کہ جس کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ہے اس نے ایٹم بم کیوں سینے سے لگا رکھا ہے، دال چاول کھائو اور کرکٹ کھیلو۔ ہر میچ میں ایک ایسا نعرہ لگے گا کہ ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔





