ColumnImtiaz Aasi

اپنے دام میں آگیا صیاد

تحریر : امتیاز عاصی
کہتے ہیں قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے، کسی نہ کسی وقت انسان اپنے کئے پر پھنس جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے حکومت چاہے کسی کی ہو جرم کے مرتکب افراد کو ان کے کئے کی سزا ملنی چاہیے۔ یہ نہیں اگر کوئی حکومت کا کہا نہ مانے تو اس کے خلاف مقدمات درج کر دیئے جائیں۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں تھا۔ موجودہ حکومت نے اس کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا ہے تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں جرم جرم ہوتا ہے، خواہ کوئی کرے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ایک ایسے وقت جب ملک ریاض کو عمران خان کے خلاف گواہی دینے کے لئے دبائو ڈالا گیا تو اس نے گواہی دینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد کئی سال پرانا مقدمہ کھول دیا گیا۔ بحریہ کا فیز سات مکمل ہو چکا ہے اور فیز آٹھ پر تعمیرات کا کام جاری ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کے دور کا یہ اسکینڈل پہلے اینٹی کرپشن میں زیر التواء رہا، بعد ازاں احتساب کے ادارے میں پڑا رہا۔ راولپنڈی کے قریب موضع تخت پڑی جنگلات کی ہزاروں ایکٹر زمین پر مشتمل تھا پنجاب کے محکمہ ریونیو اور سابق ڈپٹی کمشنر جس کا تعلق سندھ سے تھا کی مبینہ ملی بھگت سے کھربوں روپے مالیت کا یہ رقبہ ملک ریاض کو الاٹ کر دیا گیا۔ اینٹی کرپشن نے مقدمہ درج کیا تو معاملہ زیر التوا پڑا رہا۔ عمران خان کے دور میں ایک راست باز سابق آئی جی پولیس حسین اصغر کو پنجاب کا ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن لگایا گیا تو انہوں نے تمام زیر التواء مقدمات کی تفتیش شروع کرنے کے احکامات دے دیئے۔ پہلے تو سابق ڈپٹی کمشنر، تحصیل دار اور پٹواریوں نے ضمانت کے لئے رجوع کیا، اسی دوران ملک ریاض نے جنگلات کی ہزاروں ایکٹر سرکاری اراضی کا مقدمہ نیب میں منتقل کرنے کی درخواست دے دی۔ ملک ریاض بڑا سیانا آدمی ہی اسے پتہ تھا بحریہ میں کئی سابق جرنیل اور اعلیٰ افسر کام کرتے ہیں، لہذا وہ کسی نہ کسی طرح مقدمہ زیر التواء رکھوا لے گا۔ حقیقت تو یہ ہے ملک ریاض نے اپنے اثر و رسوخ سے مقدمہ زیر التواء رکھوا لیا تھا، جیسا کہ سوشل میڈیا پر اس بات کا شور غوغا ہے، ملک ریاض نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سوال ہے اینٹی کرپشن ہو یا احتساب کا کوئی ادارہ ہو کسی کو مقدمات زیر التواء رکھنے کا اختیار نہیں۔ ملک ریاض کے خلاف اب دو ریفرنس دائر ہوئے ہیں، موضع تخت پڑی کا مقدمہ اینٹی کرپشن نے درج کیا تھا، جسے ملک ریاض نے ازخود نیب میں منتقل کرنے کی درخواست کی۔ ایک نیا ریفرنس ملک ریاض کے خلاف مری کے راستے موضع مانگا کی ہزاروں ایکٹر سرکاری اراضی کا دائر ہوا ہے۔ موضع مانگا کی سرکاری اراضی پر بحریہ گولف سٹی تعمیر ہو چکا ہے۔ سترہ میل سے دائیں جانب نظر دوڑائیں تو دائیں جانب ایک فائیو سٹار ہوٹل اسی اراضی پر زیر تعمیر ہے، جبکہ سامنے پہاڑی پر علی ریاض ملک کا محل نما گھر اور کے ساتھ ملحقہ محل ایک بہت بڑے افسر کی ملکیت ہے، جس کا نام لکھنے کی اس ناچیز میں سکت نہیں۔ تعجب ہے بحریہ کا فیز سات کئی سال پہلے مکمل ہو چکا ہے، گالف سٹی پر بہت سی تعمیرات ہو چکی ہیں، کیا ذمہ داران کو اتنے عرصہ میں علم نہیں ہو سکا، سرکاری اراضی پر ایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی تعمیرات کر رہی ہے؟، دراصل ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی کا ہمیشہ فقدان رہا ہے، قانون پر عمل داری ہوتی تو سرکاری اراضی پر نجی ہائوسنگ سوسائٹی کیسے تعمیر ہو سکتی تھی۔ موضع تخت پڑی اور مانگا کی سرکاری اراضی جس کی مالیت کھربوں ہے، سوسائٹی بننے کے بعد مذکورہ اراضی کی مالیت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ہے۔ یہ درست ہے دونوں مقامات پر سرکاری اراضی کا ریفرنس عدالت میں بھیج دیا گیا ہے، اتنے بڑے اسکینڈل کو زیر التواء رکھنے والوں سے کسی نے باز پرس کی ؟، ہمیں امید ہے دونوں ریفرنس کی سماعت کم وقت میں ہو جائے گی۔ وقت کے حکمران ملک ریاض سے ناخوش ہیں ورنہ ملک
ریاض پر کوئی ہاتھ ڈال سکتا تھا۔ ایک بڑے کاروباری اور کھربوں کے اثاثوں کے مالک کا عمران خان کے خلاف گواہی دینے سے انکار اور ڈٹ جانا کوئی معمولی بات نہیں، ورنہ کاروباری حضرات ایسے مواقع پر گواہی کیا سب کچھ کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔ حکومت کے لئے یہ بات کسی امتحان سے کم نہیں آیا، دبئی سے ملک ریاض کو ڈی پورٹ کرنے میں کامیاب ہو سکے گی؟۔ دونوں ملکوں کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ ہونے کے باوجود شائد ملک ریاض کی حوالگی ممکن نہ ہو سکے گی۔ موجودہ وقت میں جب حکومت نے آئینی ترامیم میں کامیابی حاصل کر لی ہے، حالات جوں رہے تو اس بات کا قومی امکان ہے، ملک ریاض اور اراضی کے اس بڑے اسکینڈل میں ملوث ملزمان کو سزائیں ہو سکیں گی۔ ملک میں جو ماحول بن چکا ہے عدلیہ کی آزادی خوب بن گیا ہے عوام حکومت مخالف سیاست دانوں کو انصاف ناپید دکھائی دے رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ اور وکلاء برادری منقسم ہو چکی ہے، لہذا ملک میں حصول انصاف خواب بن گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چند ججز نے کسی قسم کا دبائو خاطر میں لانے کی اٹھانی تو آئین میں من پسند ترامیم کر لی گئیں، جس کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ججز کو پرواز کرنے کو کہا گیا ہے مگر پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ اے کاش ملک ریاض کے خلاف یہی ریفرنس کئی سال قبل عدالت میں بھیجا جاتا تو کم از کم کہا جا سکتا تھا، حکومت کسی بڑے سے بڑے پر ہاتھ ڈالنے سے گریز نہیں کرتی ۔ سوشل میڈیا پر ملک ریاض کا شورو غوغا اس امر کا غماز ہے، اس نے پی ٹی آئی کے بانی کے خلاف شہادت دینے سے معذوری ظاہر کی، جس کی پاداش میں اس کے خلاف مقدمات عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔ ملک میں بے لاگ احتساب کا عمل جاری رہے تو یہ بات یقینی ہے، ملک سے کرپشن کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم اس کے دوسرے پہلو پر غور کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے صیاد اپنے ہی دام میں آگیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button