Column

کامیاب زندگی گزارنے کے سنہری اصول

تحریر : محمد اسلم وٹو
اس جہانِ رنگ و بو میں انسان ایک مخصوص وقت کے لیے آتا ہے اور اپنا مقررہ وقت گزار کر لوٹ جاتا ہے لیکن یہی مختصر سا گزرا ہوا وقت انسان کو مرنے کے بعد بھی صدیوں امر کر سکتا ہے، اگر اس نے عملی زندگی میں کچھ انوکھا کام کیا یا کوئی کار نامہ سر انجام دیا ہوا ہے ۔
اس کرہ ارض پر اربوں انسان آئے اپنا اپنا وقت بسر کیا اور منظر سے غائب ہوگئے۔ ان چلے جانے والے اربوں انسانوں میں سے گنتی کے ایسے انسان ہیں جن کو دنیا آج بھی جانتی ہے یا جن کا نام آج بھی زندہ ہی۔ بہت کم ایسے گوہر ہیں جو مٹی میں مل کر بھی اپنے کارناموں کی بدولت تاریخ کے اوراق میں زندہ ہیں۔
تاریخ کے سینے میں دل نہیں بلکہ انسانوں کے کردار اور کار نامے ڈھرکتے ہیں۔ تاریخ اپنی گود میں اصول پسند، باکردار، باضمیر، عظیم اور بہادر انسانوں کو پناہ دیتی ہی۔ بزدل لوگوں کا تاریخ میں گمنام باب ہوتا ہے جن کو کوئی پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔
ان تمہیدی جملوں کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ دنیا میں کامیاب زندگی گزار کر موت کی وادی میں قدم رکھیں تو پھر آپ کو کچھ اصول اپنانا پڑیں گے۔ بے ہنگم اور بے ڈھنگی زندگی تو حیوان بھی نہیں گزارتے۔ آپ تو پھر بھی انسان ہیں۔ وہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے۔ آپ کی زندگی باعث رشک اور قابل تقلید ہونی چاہیے۔
میرے خیال میں جب بندہ اپنے آپ کو ایک انسان سمجھنے لگتا ہے تو تب اس میں انسانیت کے جوہر اور صفات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو انسان سے بھی کوئی اوپر کی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ انسان سے افضل زمین و آسمان میں کوئی اور مخلوق نہیں ہے۔ کار خانہ قدرت میں انسان ہی افضل و اعلیٰ اور سب سے برتر مخلوق ہے۔
فرشتوں سے افضل ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
کامیاب زندگی گزرانے کے لیے تین چیزیں بڑی اہم ہیں۔
( 1)۔ آپ کے الفاظ
( 2)۔ آپ کا گزارا ہوا وقت
(3)۔ آپ کا قابل اعتماد کردار
سب سے پہلے لفظوں پر بات کرتے ہیں۔ الفاظ کے دانت تو نہیں ہوتے مگر جو زخم لفظوں سے لگتے ہیں وہ تلوار، نیزے، بھالے، نشتر یا دنیا کے کسی بھی تیز دھار ہتھیار سے نہیں لگتے۔ تیز دھار آلے سے تو صرف جسم ہی زخمی ہوتا ہے لیکن الفاظ تو روح کو گھائل کر دیتے ہیں اور لفظوں سے لگنے والے زخموں کا مرہم کسی طبیب کے پاس یا کسی مطب پر دستیاب نہیں۔ اس لیے زبان کو حرکت میں لانے سے قبل سوچ لیا کریں کہ جو الفاظ ادا ہونے والے ہیں وہ مد مقابل پر کیا اثرات چھوڑیں گے۔ کہیں آپ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ دوسرے کے لیے تکلیف کا سبب تو نہیں بنیں گے۔
اچھی گفتگو اور اچھے اندازِ تکلم سے آپ کی شخصیت کا اچھا اثر پڑے گا۔ اگر آپ کی گفتگو ناشائستہ اور فضول ہوگی تو آپ خواہ کتنے امیر کبیر ہیں، آپ کی شخصیت کا دوسروں پر برا اثر پڑے گا۔ آپ کا امیج مجروح ہوگا۔ آپ کا بھرم اور رکھ رکھا سب کچھ ایک لمحہ میں دھڑام کرکے زمین بوس ہو جائے گا۔ بولنے سے پہلے سو بار سوچیں کہ کیا بولنے لگے ہیں۔ اگر آپ اپنے انداز گفتگو کو بہترین بنا لیں تو آپ ہر جگہ پر قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔ قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبان انسان کے اپنے کردار اور امیج کو ہی تار تار کرتی ہے۔ سوچیں! کیا آپ کی زبان آپ کے کنٹرول میں ہے؟۔
اب تھوڑی سی بات گزرے وقت پر کر لیتے ہیں۔ شاید بہت کم ایسے انسان ہوں گے جو گزرے ہوئے وقت سے مطمئن ہوں گے۔ قریباً ہر انسان گزرے ہوئے وقت سے پریشان ہے؟
وقت گزرنے والی چیز ہے اور وقت کی رفتار کے پہیے کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ وقت کا پنچھی زمانے کی پروا کیے بغیر محوِ پرواز رہتا ہے۔ گزرا وقت کبھی پلٹ کر نہیں آسکتا۔ کامیاب انسان وقت کی قدر کرتے ہیں۔ وہ وقت ضائع کرنے کی بجائے اسے مثبت انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ آپ بھی وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی قدر کریں۔ وقت کو ضائع نہ کریں۔ جو وقت میسر آیا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ جب ہم حال میں ہوتے ہیں تو ہمیں وقت کی قدر کا احساس نہیں ہوتا۔ جونہی وہ حال ماضی کی الماری میں سج جاتا ہے تو فورا ہمیں پچھتاوا ہونے لگتا ہے۔ کامیاب انسان ماضی سے سبق سیکھ کر حال کو بہتر بناتا اور مستقبل کے کے لیے بہترین پلاننگ کرتا ہے۔
تیسری اہم چیز دوسروں کا آپ کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ ہے۔ کہتے ہیں انسان پہاڑ سے گر کر اٹھ سکتا ہے مگر نظروں سے گرا ہوا انسان کبھی اٹھ نہیں سکتا۔ آج کے دور میں کسی دوسرے انسان پر اعتماد اور بھروسہ کرنا بہت ہی مشکل کام ہے تاہم اگر آپ پر کوئی بھروسہ کر رہا ہے تو پھر کچھ بھی ہو جائے آپ کسی کے اعتماد اور بھروسے کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ یہ معاملہ بڑا ہی نازک ہوتا ہے۔ تھوڑی سی ٹھوکر سے بھروسے کا آبگینہ ٹوٹ کر سیماب کی طرح بکھر جاتا ہے اور پھر کبھی ہاتھ نہیں آتا۔
جس شخص کا کسی ایک شخص پر سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے تو پھر وہ کسی دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ مشکل ہی سے کرتا ہے۔
اس دنیا میں آدمیوں کا ہجوم ہے۔ انسان بہت کم ملیں گے۔ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے کسی رجلِ رشید کا میسر آ جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دوسرے انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔۔
چند روزہ زندگی ہے کون سا یہاں صدیوں بسیرا کرنا ہے ۔
فقیرانہ آئے صدا کر چلے۔
محمد اسلم وٹو

جواب دیں

Back to top button