Column

کاش ایسا ہو جائے

تحریر : محمد اسلم وٹو
پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا تھا۔ مملکت خدا داد کو اللہ اور رسول کے نام پر حاصل کی گئی اس ارضِ مقدس کے حصول کے لیے خون کی ندیاں بہائی گئی تھیں۔ آزادی کی دلہن کو بیاہنے کے لیے لاکھوں سروں کا حق مہر دیا گیا تھا۔ خون کے موجزن سمندر کو پار کر کے لوگ اپنے گھر بار، مال مویشی، زمینیں اور جائیداد چھوڑ کر مملکتِ خداد کی طرف ہجرت کر آئے تھے۔ بہنوں اور بیٹیوں کی تار تار عصمتوں کی دلخراش داستانوں کو سنیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مگر ان تمام اذیتوں تکلیفوں اور مصیبتوں کے باوجود مہاجروں کے دلوں میں کوئی ملال نہیں تھا۔ وہ مطمئن تھے۔ جانتے تھے کہ عظیم مقصد کو پانے کے لیے جان و ناموس کی قربانی دینا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ وہ خوش تھے کہ انہیں اپنا وطن میسر آگیا ہے جہاں پر عدل وانصاف ہوگا، قانون کی حکمرانی ہوگی اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام نافذ ہو گا۔ کسی کمزور پر طاقتور ظلم نہیں کر سکے گا۔
مملکتِ خداداد کا قیام کسی معجزے اور نعمت خداوندی سے کم نہ تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ ملک کے پہلے گورنر جنرل بن گئے اور اس نومولود مملکت کو کمزور پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش میں دن رات ایک کردیا۔ قائد اعظمؒ کو جلد ہی احساس بھی ہو گیا کہ کچھ غلط ہوگیا ہے اور آگے غلط کرنے کی باریک واردات ڈالنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ انہیں مجبور ہو کر کہنا پڑا کہ ’’ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘۔
بس یہیں سے خاموشی کے ساتھ خرابی اور بربادی کی طرف قدم اٹھایا جانے لگا۔ اور پاکستان ابھی اپنے پائوں پر کھڑا ہونا بھی نہیں ہوا تھا کہ قائد اعظمؒ کی ایمبولینس میں ہی وفات ہوگئی اور یہ معمہ آج تک حل نہ ہو سکا کہ ایمبولینس خراب کیوں ہوئی؟۔
آج بھی قوم کے ذہنوں میں یہ سوال کانٹے کی طرح چبھتا ہے کہ کیا بانی پاکستان اتنا ہی سستا تھا کہ ایک خراب ایمبولینس انہیں لینے کو بھیجی گئی۔
عظیم قائد کی وفات کے بعد ہر گزرتا دن تنزلی اور خرابی و بربادی کی وعید لے کر آتا رہا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سینے میں گولی لگتے دیکھی تو قوم سمجھی کہ بیرونی دشمن ہوگا جس نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ملک کے وزیر اعظم پر گولی چلائی ہے۔
پھر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی کردار کشی کی مہم چلی۔ انہیں غدار تک کہا گیا اور پھر ایک روز پتہ چلا کہ مادر ملت نے موت کی وادی میں پناہ لے لی ہے۔ بظاہر تو یہ طبعی موت تھی مگر خدشات ظاہر کیے گئے کہ اس طبعی موت کے اصل حقائق کچھ اور ہیں۔ آزادی کے 24سال بعد سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوگیا۔ ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس گلشن کو تباہ و برباد کرنے میں بیرونی دشمن سے زیادہ اندر کے دوستوں کا عمل دخل تھا۔
اتنے بڑے سانحہ کے بعد قوم سکتہ میں آگئی، مگر ذاتی مفاد کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے اور اشنان کرنے والے مخصوص ٹولے کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور اتنے بڑے نقصان کے بعد بھی سبق سیکھنے کی بجائے اسی خود غرضی اور مفاد پرستی کی پالیسی کو اپنائے رکھا۔ ملک میں مارشل لاء اور جمہوری دور حکومت آتے جاتے رہے مگر عوامی دورِ حکومت نہ آسکا۔ جو خواب قوم کو دکھایا گیا تھا اس کی عملی تعبیر سامنے نہ آ سکی۔ جمہور کی آواز بننے والے ذوالفقار علی بھٹو کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ مذہب کا ٹچ دے کر قوم کی سوچ کا رخ موڑ دیا گیا اور سوچنے کا انداز بدل دیا گیا۔
پھر اچانک طیارہ حادثہ پیش آگیا اور پاکستان کے سیاہ و سفید کے خود ساختہ مالک جنرل ضیاء الحق ملکِ عدم کو روانہ ہو گئے۔ تب بے نظیر بھٹو کا دور آیا لیکن اسے زیادہ عرصہ چلنے نہ دیا گیا۔ میاں نواز شریف کو راج سنگھاسن پر بٹھانے کے لیے چن لیا گیا مگر وہ بھی حسبِ منشا ڈلیور نہ کر سکے تو ان کو چلتا کر کے ان کے مخالفین کو پھر موقع دیا گیا۔ اقتدار کی کرسی کو میوزیکل چیئر میں بدل دیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کے اقتدار پر کلہاڑے کا وار کر کے اسے چلتا کیا گیا اور میاں نواز شریف کو آزمانے کا فیصلہ ہوا لیکن وہ خود کو سچ مچ کا بااختیار وزیر اعظم سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے۔
نتیجہ وہی نکلا جو ایسے کاموں کا ہوا کرتا ہے۔ ہماری بلی ہمی کو میائوں۔ شاید میاں نواز شریف کو بھی بھٹو کی طرح ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دیا جاتا لیکن پرویز مشرف میں ضیاء الحق جیسی ہمت، جرات اور فراست نہ تھی۔ ملکی حالات بھی پہلے جیسے نہ تھے اور عوام بھی قدرے باشعور ہو چکے تھے۔ نواز شریف ڈیل کر کے اپنی زندگی اور خاندان کو بچا کر نکل گئے۔ پھر ملک پر طویل رات مسلط ہو گئی، جس کی سویر ہونے میں دس سال لگ گئے۔ مگر اس رات کو سحر میں بدلنے کے لیے بے نظیر بھٹو کے خون کی سرخی بھی شامل تھی۔ نواز شریف اور بے نظیر نے ملک بدری ہو کر بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ میثاقِ جمہوریت اسی کا نتیجہ تھا۔ آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے پوری سچائی کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر عمل کیا اور 18ویں ترمیم منظور کروا کر خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ تب عمران خان کو مہرے کے طور پر آگے بڑھایا گیا لیکن وہ بھی خود کو اصلی حکمران سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے۔ نواز اور زرداری تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم بن گئے۔
اب چاہیے تو یہ تھا کہ سیاست دان ماضی سے کچھ سبق سیکھتے لیکن انہوں نے ملکی مفاد پر ذاتی مفاد اور اقتدار کے حصول کو ترجیح دے رکھی ہے۔ عوام کو آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے دلفریب نعروں میں الجھا کر اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے قوم کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ہر کوئی پیا کے من کو بھانے کے لیے جتن کرنے میں مصروف ہے۔ سازشوں، الزامات، جھوٹ اور فریب کا نہ ختم ہونے والا کھیل جاری ہے۔ ملک اور جنتا کا کسی کو احساس تک نہیں ہے۔ کوئی مہرہ بنا ہوا ہے تو کوئی مہرہ بننے کے لیے بے تاب ہو کر ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔
اپنی انا کا بت توڑنے کو کوئی تیار نہیں۔ بعض تو اپنی بوٹی کے لیے پورا اونٹ ذبح کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ سیاست دانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ بے صبری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ایک اور میثاقِ جمہوریت کیا جائے جس میں پوری قوم کے سامنے سبھی سیاست دان یہ عہد کریں کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔ غیر سیاسی اور غیرملکی قوتوں کا مہرہ بن کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی بجائے صبر سے اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ اگر ایسا ہو جائے تو نہ انتخابی دھاندلی ہو گی اور نہ ہی سیاست دانوں کو جیل مقدموں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کاش ایسا ہو جائے۔

جواب دیں

Back to top button