نامہ ہے دل جلوں کا

تحریر : رفیع صحرائی
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے خطوط لکھنے کی سیریز شروع کر رکھی ہے۔ وہ یکے بعد دیگرے تین خطوط آرمی چیف کے نام لکھ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے خطوط مکتوب الیہ کو پہنچنے کی بجائے رقیب کے ہاتھ لگ گئے۔ یعنی آرمی چیف کو لکھے خط میڈیا والوں تک پہنچ گئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ خط میڈیا والوں تک مکتوب الیہ سے پہلے کیسے پہنچے؟ ظاہر ہے کہ پہنچائے گئے ہیں۔ ادھر مکتوب الیہ کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی خط ملا ہی نہیں کیونکہ یہ خط انہیں لکھے ہی نہیں گئے۔ یہ خط لکھے ہی میڈیا کو گئے ہیں۔ اگر مکتوب الیہ جنرل عاصم منیر کی جگہ جنرل باجوہ ہوتے تو ان کا موقف اس کے برعکس ہوتا۔ انہوں نے خط کو چومتے ہوئے ناہید اختر کی زبانی کہنا تھا
میرے محبوب کا آیا ہے محبت نامہ
وہ خوشی دل کو ملی ہے کہ بتا بھی نہ سکوں
اور اس پیار کے جذبے کو چھپا بھی نہ سکوں
یا پھر لہک لہک کر یوں گاتے کہ
جانِ تمنا خط ہے تمہارا پیار بھرا افسانہ
دل لے لو نذرانہ
لیکن شنید ہے کہ باجوہ تو پاکستان میں ہوتے ہی نہیں۔ وہ تو دور دیس جا بسے ہیں۔ ان کے لیے تو اب خان صاحب یہی گا سکتے ہیں۔
چٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کون سا دیس جہاں تم چلے گئے
اس دل پہ لگا کے ٹھیس جانے وہ کون سا دیس جہاں تم چلے گئے
یہ حقیقت ہے کہ چاہے اپنی اپنی غرض سے ہی سہی لیکن عمران خان اور جنرل باجوہ میں گہری محبت پروان چڑھ گئی تھی۔ گو دونوں ہی وقتی محبت کے تحت ایک دوسرے کے اسیر تھے لیکن ان کے پیار کی گڈی اسمانوں پر اڑتی رہی۔ اگر محبت قائم رہتی اور حالات پلٹا نہ کھاتے تو جنرل باجوہ کے پردیس میں بسیرا کرنے کے لیے جاتے سمے ان کے محب یہ ضرور کہتے
دیس پرائے جانے والے وعدہ کرتے جانا
مجھے خط لکھو گے مجھے خط لکھو گے روزانہ
سابق محبوب کی بے وفائی سے دل برداشتہ عمران خان نے نئے محبوب پر ڈورے ڈالنے کی پوری کوشش کی۔ پنجابی فلموں کے ولن کی طرح دھونس اور دھمکیوں سے کام لینے کے ساتھ ساتھ اپنے حواریوں کی بڑی تعداد سے ڈرانے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ جب کسی طور بھی حافظ صاحب رام نہ ہوئے تو ان کی کردار کشی کر کے انہیں بدنام کرنے اور دبائو میں لانے کا چارہ کیا گیا۔ لیکن وہ تمام پینتروں سے بخوبی آگاہ تھے۔ کسی طور بھی ان کے دام میں نہ آئے۔ خان صاحب اسیرِ اڈیالہ ہو گئے کہ ان کے سیاسی مخالفین یہی چاہتے تھے۔ یہ وہاں بھی نچلے نہیں بیٹھے۔ گنڈا پور کے ذریعے مرکز پر دھاوا بولنے کی بار بار پلاننگ اور کوشش کی گئی۔ یہ الگ بات کہ گنڈا پور وکٹ کے دونوں طرف چابکدستی سے کھیل رہے تھے۔ حواری بھی ہوائوں کا رخ بھانپ کر پیچھے ہٹ گئے۔ تب کرائے کے لوگوں کا بندوبست کیا گیا۔ مستقل سرکاری ملازمین کو دھمکی کے ذریعے اور غیرمستقل سرکاری ملازمین کو مستقل کرنے کا لالی پاپ دے کر فائنل کال کے نام سے اب تک کا ’’ آخری حملہ‘‘ کیا گیا لیکن اس ناکام حملے کے بعد طویل عرصہ تو زخم چاٹنے میں ہی گزر جائے گا۔ نئی صف بندی مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔ ادھر گنڈاپور کو خود سے دور اور ان کی پارٹی پوزیشن کمزور کر کے اپنے آپ کو اور پارٹی کو بھی کمزور کر دیا گیا۔ اب کسی نئے ایڈونچر کی صورت میں سرکاری کمک حاصل نہیں ہو سکے گی۔ سرکاری وسائل کے بغیر ایڈونچر کو مس ایڈونچر بنانے میں بھلا کیا دشواری ہو گی۔ اس کے بعد آخری کارڈ کھیلا گیا۔ ایک چٹھی دیارِ غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کو لکھی گئی کہ اپنے ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں اسیرِ اڈیالہ کا ساتھ دیں۔ پردیسی ان کی چٹھی پا کر خوشی سے جھوم اٹھے
چٹھی آئی ہے چٹھی آئی ہے وطن سے چٹھی آئی ہے
بڑے دنوں کے بعد ہم بے وطنوں کو یاد وطن کی مٹی آئی ہے
لیکن انہوں نے عملی طور پر اس چٹھی پر لبیک نہیں کہا۔ ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے گھریلو معاشی حالات کو بھی تو دیکھنا تھا۔ اوورسیز پاکستانیوں نے پہلے سے سوا گُنا ترسیلِ زر کے ذریعے دیارِغیر میں بلاک بسٹر مقبولیت کے غبارے میں سوئی چبھو دی۔ تب جنرل عاصم منیر کو چٹھی لکھنے کا فیصلہ ہوا لیکن معروضی حالات کی تبدیلی سے بے خبر اسیرِ اڈیالہ گومگو کی کیفیت میں تھا۔
خط لکھاں تے لکھ کے میں پاڑ دینی آں
کنڈی کھولاں تے کھول کے میں چاڑھ دینی آں
متاں ایسے گڈی تے آ جاویں او متاں ایسے گڈی تے آ جاویں
لیکن ادھر مکمل خاموشی کا عالم تھا۔ تب بسم اللہ پڑھ کر چٹھی لکھی گئی اور اسے اڑتے طائر کے حوالے کر دیا گیا۔
واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا!
چٹھی میرے ڈھول نوں پچاویں وے کبوترا!
کبوتر چٹھی لے کر اڑا اور ڈھول کی بجائے میڈیا کی چھتری پر جا اترا۔ چٹھی محبوب کی بے اعتنائی کے شکوئوں سے شروع ہو کر دوبارہ موقع دینے کی استدعا بلکہ ترلے کے مضمون پر مشتمل تھی۔ دوسری طرف سے خاموشی پا کر دوسری اور پھر تیسری چٹھی بھی محبوب کو مخاطب کر کے ڈھنڈورچی کے ہاتھ میں تھما دی گئی۔
جنرل عاصم منیر سے جب صحافیوں نے خط کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کوئی خط نہیں ملا۔ اگر ملا بھی تو وہ اسے بغیر پڑھے وزیرِ اعظم کو ارسال کر دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ خط چالیں ہیں۔ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے اور اسے آگے بڑھنا ہے۔
یاد رہے کہ بانی پی ٹی آئی نے پہلا خط 3 فروری کو لکھا تھا جس میں سپہ سالار سے پالیسیوں میں تبدیلی کی استدعا کی گئی تھی۔ 8فروری کو لکھے جانے والے دوسرے خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ گن پوائنٹ پر 26ویں آئینی ترمیم منظور کروا کر عدالتی نظام پر قبضہ کیا گیا ہے۔ اس خط میں کافی تلخ باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے
نامہ ہے دل جلوں کا ذرا بچ کے کھولنا
آتش بھری ہے اس میں کہیں ہاتھ جل نہ جائیں
تیسرا خط انہوں نے 12فروری کو آرمی چیف کے نام لکھا تھا جبکہ اب وہ چوتھا خط بھی لکھ رہے ہیں۔
خط اسی وقت لکھا جاتا ہے جب مکتوب الیہ سے براہِ راست رابطہ نہ ہو۔ خط کو آدھی ملاقات بھی کہا جاتا ہے۔ ٹیلیفون نے البتہ خط لکھنے کی خوب صورت روایت کو تقریباً نگل لیا ہے۔
تسی چٹھیاں پانیاں بُھل گئے
جدوں دا ٹیلیفون لگیا
لیکن ٹیلیفون کال ملانے کی صورت میں ’’ آپ کو مطلوبہ نمبر پر کال کرنے کی سہولیت میسر نہیں‘‘ کہہ کر کال کاٹ دی جاتی ہے۔
اگر عمران خان کے لکھے گئے خطوں کے مندرجات پر غور کیا جائے تو لگتا ہے انہوں نے یہ خط جنرل عاصم منیر کو لکھے ہی نہیں تھے۔ درحقیقت انہوں نے میڈیا ہی کو یہ خط لکھے تھے تاکہ میڈیا کے ذریعے خطوں کے مندرجات عوام تک پہنچائے جا سکیں۔ وہ ان خطوں سے وہی کام لے رہے ہیں جو اپنی تقریروں سے لیا کرتے تھے۔ ان کا ٹارگٹ اب بھی فوج اور حکومت ہی ہے۔ انہوں نے طریقہ کار تبدیل کیا ہے۔ اپنے ٹارگٹ اور مقصد سی پیچھے نہیں ہٹے۔ مقصد واضح ہے کہ جیل سے نکال کر انہیں سیدھا ایوانِ اقتدار میں پہنچایا جائے۔ ترجیحات کا تعین ہمیشہ وقت اور مفادات ہی کیا کرتے ہیں۔ فی الحال نہ وقت خان صاحب کے ساتھ ہے اور نہ ہی ان سے کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وقت کا پہیہ رواں دواں ہے۔ کوشش جاری ہے۔ اگر بے اعتبار سانسوں کا ساتھ رہا تو ممکن ہے اوپر والی سمت نیچے اور نیچے والی سمت اوپر بھی آ جائے۔ آج خان صاحب سے اختلاف رکھنے والے ان کی سیاست کے خاتمے کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ کبھی میاں نواز شریف کے بارے میں بھی ایسا ہی کہا جاتا تھا۔ البتہ مستقبل قریب میں کسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ فی الحال تو عمران خان کی کیفیت یہ ہے کہ
انتظار خط میں تیرے ہو گئیں آنکھیں سفید
ورق سادہ بھیج دے حاجت نہیں تحریر کی





