CM RizwanColumn

مودی نے بھارت بیچ دیا

تحریر : سی ایم رضوان
جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوئے ہیں تب سے بعض تجزیہ کاروں کی حد تک یہ خدشات ابھر رہے ہیں کہ لو جی ٹرمپ مودی اور عمران خان کا ذاتی دوست ہے لہٰذا وہ عمران خان کو رہائی اور حکومت دلوانے کے ساتھ ساتھ بھارت کو نوازنے کے ریکارڈ بھی توڑ دے گا حالانکہ ایسا کچھ نہ تو ہوا ہے اور نہ ہی ہونے والا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور حکومت کی امید تو چند ہفتے قبل ہی خوابوں کی دھول میں اڑ گئی تھی اور اب مودی کو بھی ٹرمپ کی جانب سے ٹھینگا دکھا دیا گیا ہے لیکن اس کے اثرات اور حقائق کو مسخ کرنے کے لئے یہ خبر پیش کی جا رہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں تنقیدی خیالات رکھنے والے بھارتی نژاد اسکالر ایس پال کپور کو جنوبی اور وسطی ایشیا کے لئے معاون وزیر خارجہ نامزد کیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایس پال کپور کی نامزدگی ایسے اہم موقع پر میڈیا میں لیک ہوئی جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی واشنگٹن کے دورے پر تھے۔ اس تناظر میں ایس پال کپور کی تقرری واشنگٹن کی جنوبی ایشیا کی پالیسی میں وسیع تر تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، پالیسی میں اسلام آباد کے بارے میں زیادہ شکوک و شبہات کا رویہ اختیار کرتے ہوئے نئی دہلی سے تعلقاتِ پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایس پال کپور کی نامزدگی پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں ممکنہ طور پر سختی کی نشاندہی کرتی ہے، جس میں سکیورٹی اور معاشی معاملات پر کم مصروفیت شامل ہے۔ جیسا کہ جنوبی ایشیائی امور کے امریکی اسکالر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ انتظامیہ میں پہلے سے موجود دیگر افراد کی طرح کپور بھی امریکا اور بھارت کی شراکت داری کے مضبوط حامی اور پاکستان کے سخت ناقد ہیں۔ یو ایس نیول پوسٹ گریجویٹ اسکول کے پروفیسر اور اسٹینفورڈ کے ہوور انسٹیٹیوٹ کے فیلو کپور طویل عرصے سے یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کی پالیسیوں کا انحصار اسلامی عسکریت پسندی پر ہے۔ ان کی کتاب ’’ جہاد از گرینڈ اسٹریٹجی‘‘ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اس نقطہ نظر نے کبھی اسلام آباد کو اسٹریٹجک برتری فراہم کی تھی لیکن اس کے بعد سے اس نے پاکستانی ریاست کو کمزور کیا، اس کی معیشت کو کمزور کیا اور زیادہ جارحانہ بھارتی فوجی پوزیشن کو اکسایا۔ لہٰذا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایس پال کپور کے اثر و رسوخ کا مطلب، مالی امداد اور کشمیر پر سفارتی حمایت جیسے معاملات پر سخت موقف اختیار کرنا ہو سکتا ہے، اگر ان کا نقطہ نظر امریکا کی سرکاری پالیسی کی تشکیل کرتا ہے تو اسلام آباد پر اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کے لئے زیادہ دبا پڑ سکتا ہے، یا پھر اسے گہری سفارتی اور معاشی تنہائی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اگر سینیٹ کی جانب سی اس کی توثیق ہو جاتی ہے تو کپور ڈونلڈ لو کی جگہ لیں گے، جو انتظامیہ میں تبدیلی کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ ان تمام خدشات کی تردید کے لئے یہی کافی ہے کہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے والے ان تجزیہ کاروں کو شاید یہ علم نہیں فی الحال، ایرک میئر اس خطے کی نگرانی کرنے والے سینئر عہدیدار کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور ایس بال ٹھاکرے کی تقرری کا کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا۔
اسی طرح انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جمعہ کو ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ امور پر بات چیت کے دوران تجارت، سکیورٹی اور امیگریشن سمیت بہت سے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس ملاقات میں انڈیا کے سکیورٹی امور سے متعلق ایک اہم اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس سال انڈیا کو فوجی سازوسامان کی فروخت میں اربوں ڈالر کا اضافہ کیا جائے گا اور اس سے انڈیا کو ایف 35لڑاکا طیارے فراہم کرنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بتاتے چلیں کہ ایف 35لڑاکا طیارہ دنیا کے بہترین لڑاکا طیاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ طیارہ مہنگا لڑاکا طیارہ شمار کیا جاتا ہے اور اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کا بنایا ہوا یہ لڑاکا طیارہ ایف۔35جوائنٹ سٹرائیک فائٹر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ایف۔ 35لڑاکا جیٹ ففتھ جنریشن کا سٹیلتھ لڑاکا جیٹ ہے اور اسے اپنی سپر سونک رفتار کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس کی دور فاصلے سے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانی کی صلاحیت اسے میدان جنگ میں جدید طیاروں میں سرفہرست بناتی ہے۔ اس طیارے کو بنانے والی کمپنی کی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ لاک ہیڈ مارٹن ایف۔ 35لائٹننگ ٹو سٹیلتھ ٹیکنالوجی، جدید سینسرز، ہتھیاروں کی صلاحیت اور رینج کے لحاظ سے یہ اب تک کا سب سے خطرناک لڑاکا طیارہ ہے۔ لاک ہیڈ مارٹن کمپنی نے اپنے یہ طیارے اب تک 15ممالک کو فروخت کیے ہیں جن میں امریکی فضائیہ، نیوی اور میرین کور شامل ہیں۔ اسرائیل، بیلجیم، ڈنمارک، اٹلی، جاپان، ہالینڈ، پولینڈ، جنوبی کوریا اور ناروے جیسے ممالک کی فضائیہ بھی اس طیارے کو استعمال کر رہی ہیں۔ اب اس فہرست میں جلد ہی انڈیا کا نام شامل ہونے کا امکان بھی پیدا ہوا ہے۔ یونائیٹڈ سٹیٹس گورنمنٹ اکائونٹیبلٹی آفس ( گائو) کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اب تک 2700ایف 35 لڑاکا طیاروں کا آرڈر دیا ہے جن میں سے اسے900 طیارے مل چکے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس لڑاکا طیارے کی قیمت 82.5ملین ڈالر یعنی تقریباً 7.16ارب روپے ہے۔ اس کے علاوہ اس کی پرواز پر فی گھنٹہ 40ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ خرچ آتا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ انڈیا کو یہ طیارے کتنے میں فروخت کرے گا لیکن یہ واضح ہے کہ یہ طیارے اس وقت دنیا میں سب سے مہنگے لڑاکا طیارے تصور کیے جاتے ہیں۔ گائو کی رپورٹ کے مطابق اس کی لاگت ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس طیارے کی متوقع عمر 66سال ہے۔ اس طیارے کو مسلسل فعال رکھنے کے لئے اس کی مینٹینس لاگت کی وجہ سے سکیورٹی ماہرین نے بھی اس پر سوالات اٹھائے ہیں۔ سال 2022 میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسرائیل کو ملنے والے ان طیاروں کے ایک بیچ کے پائلٹ ایجیکشن سسٹم میں خرابی تھی۔ تاہم پھر بھی اسرائیل نے لاک ہیڈ مارٹن کے ایف 35لڑاکا طیارے کو گیم چینجر قرار دیا۔ ماضی میں انہی امریکی طیاروں کو ایلون مسک نے سکریپ کہا تھا جو اس وقت امریکی حکومت میں شامل ہیں۔ انہوں نے اس طیارے کے بنانے والوں کو بھی احمق قرار دیا تھا۔ اب کچھ عرصے سے اس لڑاکا طیارے کی آپریشنل صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایف 35جیٹ فائٹر پروگرام دنیا کا مہنگا ترین پروگرام ہے اور اس پروگرام پر آنے والی مالیت اور اس کی جنگی صلاحیت پر تنقید کی جا رہی ہے۔ سال 2017میں بھی اس وقت کے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کو ایسے وقت اس پروگرام کا دفاع کرنا پڑا جب صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے قبل ٹویٹ میں اس جہاز پر آنے والی 100ملین ڈالر فی جہاز لاگت پر تنقید کی تھی۔ تاہم اپنے اسلحہ بیچنے کے ازلی پروگرام کے تحت امریکہ نے اس جہاز میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ پروگرام 2070تک چلے گا اور اس پر ڈیڑھ ٹریلین ڈالر لاگت آئے گی۔
اس سکریپ طیارے کی فروخت کی یقین دہائی کے علاوہ ٹرمپ نے اپنے مبینہ دوست مودی کو کچھ بھی نہیں دیا اور نہ کوئی خاص معاہدہ ہوا ہے تبھی تو نریندر مودی کے اس امریکی دورے پر خود بھارت میں کافی تنقیدی ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ اڈانی کے معاملے پر مودی کے جواب پر تنقید یہ کی جا رہی ہے کہ امریکا نے اربوں ڈالر کے دفاعی سودے، امریکی مصنوعات پر محصولات کم کرنے کا فیصلہ، روسی تیل کی جگہ امریکی تیل اور ہندوستان کی مزید بے دخلیوں کا وعدہ لیا جبکہ ہندوستان نے صرف ایک مطلوب شخص کی حوالگی اور تجارتی ہدف کا اعلان حاصل کیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ تارکین وطن سے ناروا سلوک پر مودی نے خاموشی اختیار کی، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے اڈانی کو بچانے کے لئے ملک کو بیچ دیا ہے۔ ٹرمپ، مودی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی صحافیوں کی غیر پیشہ ورانہ اور غیر سنجیدہ رپورٹنگ کو بھی امریکی صحافیوں نے حماقت کا تماشہ قرار دیا۔ ٹرمپ بھی نہیں جانتے کہ ایلون مسک مودی سے کیوں ملے۔ واشنگٹن سے خالی ہاتھ واپس لوٹنے والے مودی ٹیرف میں چھوٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے، اڈانی کے معاملے پر مودی کے جواب نے اپوزیشن اور میڈیا کی توجہ حاصل کی، مودی سے گوتم اڈانی کے خلاف امریکی عدالت میں بدعنوانی کے الزامات کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو انہوں نے انتہائی مکاری سے اسے ’’ ذاتی معاملہ‘‘ قرار دے کر جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ ذاتی مسائل رہنمائوں کے درمیان زیر بحث نہیں آتے۔ راہول گاندھی نے اس ردعمل کی شدید تنقید کی اور الزام لگایا کہ مودی بھارت میں اس معاملے پر خاموش رہتے ہیں لیکن بیرون ملک اسے ذاتی معاملہ کہہ کر اڈانی کی حفاظت کرتے ہیں۔ راہول گاندھی نے کہا کہ مودی اپنے دوست کو بچانے کے لئے پردہ ڈال رہے ہیں اور اڈانی کے بدعنوانی کے الزامات کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کانگریس رہنما جیرام رمیش نے ڈیپورٹیز کے ساتھ ’’ غیر انسانی‘‘ سلوک پر بھی مودی کی خاموشی پر سوال اٹھائے۔ سوشل میڈیا پوسٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کے امریکا کے دورے سے بھارتی عوام میں کافی عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے مودی پر تنقید کی کہ انہوں نے اڈانی کو بچانے کے لئے ملک کو بیچ دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ تجارتی جنگ اور محصولات کی رعایتوں سے بھارت کے متوسط طبقے کو نقصان ہوگا۔ ٹرمپ نے بھارت کے زیادہ محصولات کی تنقید کی، اسے ’’ ہائی ٹیرف ملک‘‘ قرار دیا۔ ٹرمپ نے 2008ء کے ممبئی دہشت گرد حملے سے منسلک طہور رانا کی بھارت کو حوالگی کا اعلان بھی کیا۔ اس پر بھی بھارت سمیت دنیا بھر میں تنقید ہو رہی ہے کہ مودی نے دہشت گردانہ سفارت کاری کی ہی۔

جواب دیں

Back to top button