آزاد سوچ اور آزاد رائے

تحریر : یاسر دانیال صابری
معاشرتی ترقی اور فلاح کے لیے لازم ہے کہ افراد میں آزادانہ سوچ اور نظریات کا تبادلہ ممکن ہو۔ جب ہم ایک ایسے معاشرے کی بات کرتے ہیں جہاں لوگوں کو اپنی سوچ کو بے جھجک اور آزادانہ طور پر پیش کرنے کا موقع ملتا ہے، تو وہاں حقیقت میں ایک مضبوط، مستحکم اور فلاحی سماج کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر کسی بھی معاشرے میں سوچ کی آزادی پر پابندیاں عائد کی جائیں، تو وہ معاشرہ اپنے امکانات سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور اس کی ترقی کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر ریاست یا معاشرتی طاقتیں سوچنے والوں کی آواز کو دبانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، تو معاشرہ ایک مفلوج اور جمود کا شکار ہو جاتا ہے، جہاں نئے خیالات، نظریات، اور تخلیقی قوتوں کا جنم لینا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔
ایک جمہوری معاشرہ اپنی خصوصیات میں اس بات کو اہمیت دیتا ہے کہ ہر فرد کو اپنی رائے کے اظہار کا مکمل حق حاصل ہو۔ جمہوریت میں، ریاست کا بنیادی فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو اپنی مرضی اور سوچ کے اظہار کی آزادی دے۔ یہی وہ آزادی ہے جو ادب، سائنس، آرٹ اور سیاست میں نئے خیالات اور تصورات کو جنم دیتی ہے۔ ایسے معاشرے میں نہ صرف ہر شخص کو اپنی آواز بلند کرنے کا حق ملتا ہے، بلکہ یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ مختلف نقطہ نظر اور افکار کے باہمی تصادم سے معاشرے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں۔
لیکن جب معاشرتی نظام آمریت پر مبنی ہو یا کسی فوجی حکومت کا دور ہو، تو عوام کی آواز دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آمریت میں نہ صرف افراد کے ذاتی حقوق چھین لیے جاتے ہیں، بلکہ فکری آزادی پر بھی سنگین حملے کیے جاتے ہیں۔ فوجی حکومتوں میں غیر معمولی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، جہاں ادب، شعر و شاعری، فلسفہ اور سیاست میں خیالات کی آزادی کو مکمل طور پر کچل دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک سماج میں تفکر، بصیرت، اور نئے افکار کی کمی ہو جاتی ہے۔
آمریت کے دور میں نہ صرف تخلیقی افراد کو دبایا جاتا ہے بلکہ عوام کے ذہنوں کو بھی ایک خاص سوچ میں محصور کیا جاتا ہے۔ اس میں ادیبوں، شاعروں اور مفکرین کو اس قدر دبایا جاتا ہے کہ وہ کسی نئے خیال کی تشکیل یا اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فکری بحران پیدا ہوتا ہے بلکہ پورے سماج کی ذہنی سطح گرتی جاتی ہے۔
زبان اور الفاظ انسانی تاریخ کے سب سے اہم ذرائع ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے خیالات، احساسات اور نظریات کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں زبان کو کسی خاص طریقے سے بندھ دیا جائے یا اس پر پابندیاں عائد کی جائیں، تو یہ زبان کی مکمل ترقی کو روک دیتی ہے اور انسانوں کی سوچ کے اظہار میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ جب زبان کی آزادی چھین لی جاتی ہے، تو ایک ایسا سماج پیدا ہوتا ہے جہاں خیالات کا تبادلہ ممکن نہیں رہتا۔
مثال کے طور پر، اگر کسی ادیب یا شاعر کو اس خوف میں مبتلا کیا جائے کہ وہ اپنے خیالات یا احساسات کا کھل کر اظہار نہیں کر سکتا، تو اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ وہ کسی نئے خیال کو اس خوف سے بیان نہیں کر پائے گا کہ کہیں اسے سزا نہ ملے یا اس کے خیالات کو رد نہ کر دیا جائے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سماج میں نیا کچھ تخلیق کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
تاریخ میں ہم نے کئی مثالیں دیکھیں جہاں آمریت اور فکری آزادی پر پابندیاں عائد کرنے سے سماجی اور ثقافتی ترقی رک گئی۔ مثلاً، اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ جب معاشرے میں نظریاتی پابندیاں لگتی ہیں تو وہ صرف ادب اور فنون تک محدود نہیں رہتیں، بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس طرح کے معاشروں میں عموماً ہر فرد کو اپنی سوچ، فکر اور رائے کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔
ایک مثال کے طور پر، پاکستان کی تاریخ میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ جب فوجی حکومتیں اقتدار میں آئیں، تو انہوں نے فکری آزادی اور ادبی تخلیق کے حوالے سے شدید پابندیاں عائد کیں۔ ادب اور صحافت کو دبایا گیا اور مفکرین کی آوازیں خاموش کر دی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان حکومتوں کے دور میں فکری تنائو بڑھا اور معاشرہ ایک ذہنی جمود کا شکار ہو گیا۔
جب معاشرت میں تخلیقی قوتوں اور آزادانہ سوچ کو دبایا جاتا ہے، تو اس کے نتیجے میں کئی دہائیوں تک معاشرہ اس بحران کا شکار رہتا ہے۔ وہ نسلیں جو اس دبا کا سامنا کرتی ہیں، وہ بسا اوقات اپنی فکری آزادی سے محروم رہ جاتی ہیں اور ان میں نئے خیالات اور تخلیقی سوچ کا فقدان ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی قیمت وہ سماج ادا کرتا ہے جس میں نئے تجربات، اختراعات اور فکر کی نئی راہیں جنم نہیں لیتیں۔
جب عوام کی آواز دبانے کے عمل کو مسلسل جاری رکھا جاتا ہے، تو وہ ایک سماجی بحران کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ بحران دراصل ذہنی آزادی کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے جس سے نہ صرف معاشرتی بلکہ سیاسی بحران بھی جنم لیتا ہے۔
آزاد سوچ اور فکری تنقید کا وجود کسی بھی فلاحی سماج کی بنیاد ہے۔ اگر معاشرتی ادارے اور حکومتیں اپنی عوام کی ذہنی آزادی کا احترام کریں اور انہیں ان کے خیالات، احساسات اور نظریات کے اظہار کی اجازت دیں، تو وہ سماج نہ صرف معاشی طور پر ترقی کر سکتا ہے، بلکہ اس کے افراد بھی ذہنی طور پر پروان چڑھ سکتے ہیں۔ ایک آزاد معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں لوگوں کو اپنے خیالات اور نظریات کے اظہار کا پورا حق ہو، اور جہاں فکری اختلافات کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
جب بھی ایک معاشرے میں سوچنے اور رائے دینے کی آزادی کو دبایا جاتا ہے، تو وہ سماج کئی دہائیوں پیچھے جا سکتا ہے۔ فکری آزادی اور تخلیقی اظہار کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہر معاشرے کو اپنی ترقی کے لیے اپنے لوگوں کو آزادانہ سوچنے، بولنے اور لکھنے کی اجازت دینی چاہیے تاکہ وہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ پورے معاشرے کو بہتر بنا سکیں۔







