Column

انتشار

تحریر : طارق خان ترین
اس وقت ملک میں ایک مرتبہ پھر سے انتشاری سیاست کو پروان چڑھانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن اب متحدہ اپوزیشن کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ اس اپوزیشن میں پی ٹی آئی، جمعیت علمائے اسلام، عام عوام پارٹی اور دیگر پارٹیاں شامل ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ 8فروری کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دے کر دوبارہ الیکشن کا انعقاد کیا جائے۔ ہماری تاریخ رہی ہے کہ جب بھی اس ملک میں الیکشن ہوئے ہیں، متنازعہ رہے ہیں۔ ایک پارٹی اکثریت کے ساتھ جیت جاتی ہے تو باقی پارٹیوں میں دھاندلی دھاندلی کا شور و غوغا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب کو پتہ ہے کہ کس طرح سے پی ٹی آئی 2018کے الیکشن میں جیت گئی، کس طرح سے پراجیکٹ عمران خان کو 2010سے لیکر پچھلی اسٹیبلشمنٹ تک لاڈلے کے طور پر نوازتی رہی۔ کس طرح سے باقی پارٹیوں کے سنیئر ممبران کو لاٹوں میں بھر کر پی ٹی آئی میں شامل کرایا گیا، جب یہی سب اگر آج غلط ہے تو تب بھی غلط ہی تھا۔ لاڈلے کو نوازنے کی انتہا یہاں تک پہنچی کہ بانی پی ٹی آئی نے 2019میں جب وہ وزیراعظم تھے امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کی پریمیر انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر طالبان کو ٹریننگ فراہم کرنے کا بیان داغ دیا۔ اپریل 2019میں، ایران میں بیٹھ کر کہا گیا کہ پاکستان کی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔ حالات اس کے برعکس ہیں جبکہ پاکستان کی جانب سے جنوری 2024میں ایران کے اندر 7سرجیکل سٹرائک کئے گئے۔
بانی پی ٹی آئی جو اس وقت جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں اپنی حکومت میں رہتے ہوئے انہوں نے پاکستان کی شہ رگ مقبوضہ کشمیر کو پاکستان سے الگ ہونے دیا، جس پر ایک دو جمعہ کو خاموشی جیسی عظیم مزاحمت کو اپنا کر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا، نہ صرف یہ بلکہ ستم ظریفی یہاں تک پہنچی کہ کہہ دیا گیا، جس نے بھی کشمیر کیلئے مزاحمت کی تو اس کو ملکی دہشتگرد قرار دیا جائیگا۔ مگر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی نوازشات لاڈلے پر برستی رہیں اور لاڈلا مزید نکھرتے ہوئے اپنے رنگ دکھاتا گیا، انہوں نے اپنا رخ سعودی عرب کی طرف موڑتے ہوئے ان کے حکومت کے تب کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر مسئلے پر سعودی عرب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہمیں اب ہمیں آگے بڑھنا ہوگا سعودی عرب کے ساتھ یا پھر اس کے بغیر‘‘۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ سفارتی حلقوں میں اس نامناسب رویے پر ایک بھونچال مچ گیا، جس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بے تحاشہ نقصان پہنچا۔ سفارتی نقصانات اس سے کم تھے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر لہرا کر پاک امریکہ تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک گھنائونی سازش رچائی۔ ’’ سائفر پر کھیلنا ہے‘‘ کا عملی سفر شروع ہوکر ’’ کیا ہم کوئی غلام ہے‘‘ پر سے گزرنے ہوئے، انتشار کی سیاست کرتے کرتی وزیراعظم کی کرسی سے عدم اعتماد کے ذریعے بے دخل کر دئیے گئے۔ یوٹرن کو عظیم فلاسفی قرار دینے والے موجد بانی پی ٹی آئی کو سائفر اور اس پر خوب کھیل کر جب اپنی شکست و تنہائی کا احساس ہونے لگا تو بے دھڑک کہہ دیا کہ مجھے امریکہ نے نہیں بلکہ جنرل باجوہ نے نکالا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا اسرائیل جیسے ناجائز ریاست کے خلاف ایک نظریاتی موقف ہمیشہ رہا ہے، جس کی بنیاد پر پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ مگر موصوف کی حکومت میں 24اکتوبر 2018کو ایک اسرائیلی ہوائی جہاز پاکستان میں لینڈ کر گیا جس کے ثبوت فلائٹ راڈار 24کی ویب سائٹ سے اس وقت سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے۔ ملک بھر میں سوشل میڈیا پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی چہ مگوئیاں شروع ہونے لگیں۔ بلکہ پی ٹی آئی حکومت کی ایک ایم این اے صاحبہ نے تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر پوری تقریر قومی اسمبلی میں جھاڑ دی۔ حالات یہاں تک پہنچے کہ جو پاسپورٹ دنیا کے تمام ممالک کیلئے قابل قبول ہے ماسوائے اسرائیل کے، تو پاکستان سے پہلا پاسپورٹ جو اسرائیل کیلئے قبول فرمایا گیا وہ بھی پی ٹی آئی کی حکومت میں بنایا گیا، یعنی جنوری 2019میں۔ سیاسی مداری کے طور پر ابھرنے کیلئے انہوں ’’ آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے‘‘ سے بھی یوٹرن لیتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے‘‘۔ ’’ مجھے بچا لو‘‘ اور ’’ عمر بھر کی ایکسٹینشن لو‘‘، کی آفر بھی کام نہ آسکی، حکومت بھی چلی گئی، نادانی کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ دسمبر 2022میں خود ہی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے پہلے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر آئی ایم ایف معاہدے سے روگردانی کرتے ہوئے پاکستان جیسے ذمہ دار ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لیکر گئے۔ بلکہ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے پی ٹی آئی کے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے فنانس منسٹرز کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کے دوران یہ تک کہہ دیا کہ دونوں حکومتوں فسکل بجٹ کی اضافی رقم واپس نہیں کریں تاکہ ایسا کرنے سے وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مسائل پیدا ہوں۔
پی ٹی آئی کی دربدری اور تذبذب پر مبنی سیاست نے عوام کو تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے ملک میں عدم استحکام تا حد فہم تک پہنچا دیا۔ ڈی چوک کی سیاست لاہور کے زمان پارک تک پہنچ گئی، جہاں سادہ لوح عوام کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو کہنے والا کہ ’’ آپ نے گھبرانا نہیں‘‘۔ خود گھبراہٹ کا شکار ہوکر چھپتا رہا۔ یہ ایک ایسی پارٹی کے طور پر سرگرم عمل رہی ہے جنہیں ووٹ ملک کی تعمیر پر دیئے گئے جبکہ کام انہوں انتشار پھیلانے، ملک کو عدم استحکام دینے، ملک کو توڑنے، معاشی طور پر ملک کا جنازہ نکالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ اور پوچھنے پر بتایا گیا کہ میرا تو کوئی تجربہ نہیں تھا ملک کو چلانے کا، حالانکہ 2018کے انتخابات سے پہلے انہوں نے پورا پلان اور ڈمی منسٹرز کا انتخاب کیا تھا، جنہیں اپنے جلسوں میں بڑے اعتماد کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔
آج پھر سے اس جماعت نے سوشل میڈیا پر ہماری فوج، عدلیہ اور قومی وقار و تشخص پر لعن طعن کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، دوسری طرف آرمی چیف کے نام خط لکھ کہہ رہے ہیں کہ فوج اور عوام کے درمیان نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ جبکہ ان نفرتوں کی سب بڑی وجہ خود یہی جماعت ہے۔ جلائو گھیرائو، بے سر و پا احتجاج، عوام کو نکالنا، نکال کر بے آسرا چھوڑنا وغیرہ جیسی مشتعل سیاست ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ ان کی کارکردگی کا معیار سڑکوں پر احتجاج ہے، جبکہ اس جماعت کے جعلی رہنما اڈیالہ جیل کی گیلری میں کھیل رہے ہیں۔ انہیں نہ تو عوام کے ساتھ کوئی لگائو ہے اور نہ ہی ملکی مفادات کا کوئی خاطر رکھتے ہیں۔ کل تک جس مولانا فضل الرحمان کو الٹے سیدھے ناموں کے ساتھ پکارتے تھے آج اسی کے در پر منتیں کر کے انہیں اپنے لئے ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک مقدس گائے ہے، جی میں جو آئے کہہ دیتے ہیں اور کر بھی دیتے ہیں۔ پھر سے جعلی انقلاب کا نعرہ لگا کر 9مئی کو دہرانا چاہتے ہیں۔ مگر کیا عوام نہیں جانتے کہ زمینی حقائق اور خواہشات میں فرق ہوتا ہے؟ کیا عوام کو تعمیر و تنزلی کے درمیان فرق کا نہیں پتہ؟ عوام نہیں جانتے کہ تعمیر و ترقی کیلئے سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے؟۔ یہ جان چکے ہیں کہ جن کی سیاسی زندگی کیلئے آوازیں امریکہ، بھارت، اسرائیل سے اٹھتی ہوں ان کی سیاست ملک کے مفاد میں ہر گز نہیں ہوسکتا۔ جو عوام کے بجائے بیرونی حمایت پر انحصار رکھتا ہو وہ بھلا قومی مفادات کی کیا خاطر رکھے گا، کل اگر اقتدار میں آ بھی جائے تو موصوف انہی ممالک کے مفادات کا خیال تو رکھیں گے جن کی جانب سے ان کے حق میں شور و غوغا ہورہا ہے مگر ملک کے مفادات کا تحفظ اور ان کی اہمیت کی کوئی حیثیت ان کے سامنے نہیں ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button