Columnمحمد مبشر انوار

غزہ کی تعمیر نو

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
دنیا کے امن کو لاحق خدشات میں اس وقت سر فہرست ،غزہ کی مخدوش ترین صورتحال تھی،جس کے باعث یہ گمان شدید تر ہو چکا تھاکہ یہاں بڑھکنے والے جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں پوری دنیا آ سکتی ہے اور درحقیقت گریٹر اسرائیل کے قیام کی خاطر اسرائیل پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگانے کے لئے بھی تیاردکھائی دیتا تھاتاہم دنیا انسانی خواہشات پر نہیں چلتی اور نیتن یاہو کی گریٹر اسرائیل کی خواہش پر فی الوقت رکاوٹ لگ چکی ہے۔ گو کہ اس دوران امریکی صدر بائیڈن کی مکمل تائید ،نیتن یاہو اور اسرائیل کو میسر تھی لیکن اللہ رب العزت کے فیصلوں کے سامنے انسانی منصوبے کس طرح ناکام ہوتے ہیں،اس کا مظاہرہ دور جدید میں فلسطین میں ،اقوام عالم نے بخوبی کیا ہے کہ نہتے فلسطینیوں نے اسرائیلی جارحیت کے سامنے جس عزم کا اظہار کیا ہے،وہ سوائے اللہ رب العزت کی بخشی ہوئی قوت و ہمت کے بغیر ممکن ہی نہیں جبکہ دیگر اسلامی ممالک کی طرف دیکھیں تو یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ جنہوں نے دنیاوی خدائوں کو تسلیم کیا ہو، وہ کس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ اسرائیل کا براہ راست تنازعہ چونکہ فلسطین کے ساتھ ہے جبکہ دیگر اسلامی دنیا بفرض محال براہ راست اس معاملے میں کود جاتی تو پس پردہ رہ کر سفارتی محاذ کی جنگ اس طرح نہ لڑ سکتی،گو کہ پس پردہ لڑی جانے والی سفارتی جنگ میں بھی جس طرح کامیابی نصیب ہوئی،وہ کسی بھی طور قابل ستائش نہیں کہلائی جا سکتی کہ فلسطینیوں کا خون جس بے دردی سے رزق خاک ہوا،وہ اسلامی دنیا کی مجرمانہ غفلت کہیں یا مرگ مفاجات ،اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے دنیا بھر میں زندگی تنگ ہو چکی ہے۔ دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ اس پس پردہ سفارتی مہم میں اگر چین و روس کی کاوشوں اور ان کے وزن کو شمار نہ کیا جائے،تو کیا حالیہ جنگ بندی بھی ممکن تھی؟بہرحال چین و روس کی سفارتی کاوشوں میں اتنی تیزی نہ تھی کہ جتنی ان کے ذاتی معاملات میں ہو سکتی تھی کہ مدعی سست و گواہ چست والی صورتحال میں ایسا ہی ہوتا ہے جبکہ ان دو ممالک کی کاوشوں کے پس پردہ یقینی طور پر ان کے ریاستی مفادات بھی وابستہ ہوں گے،جن کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی ان کا وزن فلسطین کی حمایت میں ،اسی تناسب سے پڑا ہو گا۔بہرحال ان تمام تر کاوشوں کے باوجود،بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ،جنگ بندی کی کوششیں ، مٹی جھاڑنے سے زیادہ نہ رہی تاآنکہ انتخابات میں ٹرمپ نئے صدر منتخب نہیں ہو گئے اور انہوں نے جنگ بندی کے حوالے سے واضح و دوٹوک اعلان نہیں کیا،جس کے نتیجہ میں نیتن یاہو کو مجبورا اس ’’حکم‘‘ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑالبتہ اس دوران بھی اسرائیل نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح غزہ کو مکمل طور پر فتح کیا جا سکے ،جس میں وہ ناکام رہے۔ تاہم اس دوران اسرائیل نے ،غزہ میں زندگی کو بالکل نیست و نابود کردیا ،لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے،عورتوں،بچوں اور بوڑھوں تک کی تمیز نہ کی گئی،امداد لینے کے لئے قطاروں میں کھڑے نہتے فلسطینیوں پر بموں کی بارش کی گئی،ہسپتالوں ،سکولوں اور پناہ گاہوں پر بمباری کرکے جنگی قوانین کی دھجیاں ،ان عمارتوں کی خاک میں اڑا دی گئی لیکن کوئی ہاتھ بھی اس ظلم و ستم کو روکنے کے لئے نہیں اٹھا ماسوائے مذمتی بیانات کے،فلسطینیوں کی نسل کشی میں کوئی کمی نہ آئی۔ عالمی فوجداری عدالت کی جانب سی اسرائیل اور اس کے وزیر اعظم کو جنگی جرائم کامرتکب قرار دیا گیا،ان کے وارنٹ جاری ہوئے لیکن وہ انتہائی اطمینان نے ایسے ممالک کی فضائی حدود سے پرسکون انداز میں پرواز کرتے ہوئے،امریکہ یاترا کو گئے کہ جیسے انہیں ان الزامات کی رتی بر پرواہ نہ ہو جبکہ دوسری طرف ایسے الزامات پر روس جیسی عالمی طاقت کے صدر پوتن،ایسے ممالک میں سفر کرنے سے صرف اس لئے گریز کرتے ہیں کہ مبادا کہیں ان کو حراست میں نہ لے لیا جائے۔اسے بدقسمتی سے اقوام عالم کا دہرا معیار نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ اگر ریاست اپنی رٹ نافذ کرنے پر آئے،تو ایسے کسی بھی ملزم کو پاتال یا آسمانوں سے بھی اتار کر حراست میں لے لیتی ہے لیکن جب معاملہ اسرائیل کا آئے تو خاموشی سے آنکھیں بند کر لیتی ہے۔
جنگ بندی کا اعلان ہونے کے بعد،اچانک نو منتخب امریکی صدر کی جانب سے ایک اور درفنطنی چھوڑی گئی کہ غزہ کے شہری ،اپنی زمینیں چھوڑ کر فوری طور پر کسی اور ملک میں ہجرت کر جائیں،اس مقصد کے لئے ایک طرف یہ مشورہ دیا گیا کہ سعودی عرب ان فلسطینی شہریوں کو اپنے ملک میں جگہ دے تو دوسری طرف مصر سے یہ توقع رکھی گئی کہ وہ ان شہریوں کو اپنے ملک میں بسانے کے اقدامات کرے،جبکہ امریکہ غزہ کو اپنے تصرف میں لاکر یہاں جدید طرز پر تعمیری کام کرے گا اور یہاں اپنی سہولت کے مطابق آباد کاری کرے گا۔ ٹرمپ نے اپنی اقتاد طبع کے عین مطابق اپنی پٹاری سے ایک نئے منصوبہ کا اعلان تو کردیا لیکن اس کے اس بیان نے ساری دنیا میں عجیب صورتحال پیدا کر دی، غزہ میں ہونے والی جنگ بندی سے خوشی کا جو سماں بندھا تھا،وہ سوگ میں تبدیل ہونے لگا کہ غزہ کے شہریوں نے اتنی قربانیاں اور اتنی شہادتیں ،اپنی سرزمین کو بچانے کے لئے دی تھی نہ کہ اپنی سرزمین کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لئے خون بہایا تھا؟اس بیان نے حالات کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور گذشتہ چند دنوں میں دنیا بھر کے سفارت کاروں نے بالعموم جبکہ مشرق وسطیٰ کے سفارت کاروں نے بالخصوص اپنی کاوشوں کا اعادہ کرنا شروع کیا اور سفارت کاری کو تیز تر کرتے ہوئے ،اس منصوبے و فیصلے کے مضمرات واضح کئے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ٹرمپ اپنے بیان سے یو ٹرن لے چکے اور اب شنید ہے کہ جنگ بندی کا عمل،اپنے طے کردہ اہداف کے مطابق جاری رہے گا۔ جس میں ایک طرف اسرائیلی فوجیں بتدریج مکمل طور غزہ سے نکل جائیںگی،مغویوں کے بدلے فلسطینی قیدی شہریوں کا تبادلہ جاری رہے گا،مصر سے متصل فلاڈلفیا کوریڈورسے بھی اسرائیلی فوجیں نکل جائیں گی۔ انتظامی امور کے لئے ممکنہ طور پر اقوام متحدہ و اسلامی ممالک سے فوجیں غزہ میں تعینات ہوں گی تا کہ امن و امان کی صورتحال کو قابو میں کیا جا سکے،حماس اس دوران کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کرے گی اور امن و امان کی بحالی کے لئے اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ دیگر اسلامی ممالک کی افواج کے ساتھ تعاون کرے گی جبکہ اسرائیل کی جانب سے بھی کسی قسم کی جارحیت نہیں ہو گی۔ ویسے اصولا اقوام متحدہ کی زیر نگرانی تعینات افواج پر جارحیت کرنا اتنا آسان قطعی نہیں لیکن مقابل چونکہ اسرائیل ہے،جس سے کوئی بھی توقع بہرحال رکھی جا سکتی ہے کہ اسرائیل عالمی قوانین کو مکڑی کے جالے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا وگرنہ جس طرح کی جنگی جرائم غزہ میں ہوئے ہیں،ان کے بعد توقع تو یہ ہے کہ غزہ میں انتظام سنبھالنے کے بعد ،اقوام عالم کی جانب سے ،جن میں مشرق وسکی کی عرب ریاستوں کے علاوہ دیگر ریاستیں بھی اپنی اپنی مہارت کے مطابق، فی الفور غزہ کے شہریوں کے لئے نئی بستیاں تعمیر کرے گا،تا کہ ان کی رہائش کے لئے مناسب بندوبست ہو سکے،اسی طرح دیگر ضروریات زندگی سے متعلق تعمیرات کی جائیں گی،جن میں ہسپتال و سکول سرفہرست ہیںتا کہ زندگی معمول پر آسکے۔غزہ کا مسئلہ اس وقت تک مستقلا حل نہیں ہو گا جب تک اسرائیل کو اس کی حد میں نہیں دھکیلا جاتا،اسے جینے اور جینے دو کی پالیسی سکھائی نہیں جاتی ،اس کی بے جا حمایت سے ہاتھ روکے نہیں جاتے،اس کے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو رد نہیں کیا جاتا ،امن کا مستقل حصول ممکن نہیں ہے،خواہ غزہ کی ہزار مرتبہ تعمیر نو کی جائے۔

جواب دیں

Back to top button