ColumnTajamul Hussain Hashmi

بحری جہاز کا خوش قسمت

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
شیراز کہنے لگا کہ پہلے وقتوں میں مال دولت کی اتنی جستجو کہاں تھی۔ شرافت، ایمانداری اور نیک اولاد کو مال و دولت سمجھا جاتا تھا۔ بھائی شیراز آج بھی ایسی ہی سوچ کا مالک ہے۔ پیسے سے زیادہ وہ انسانیت کو درجہ دیتا ہے۔ میرے مطابق اگر کسی کو سمجھ میں آ جائے تو اس سے اچھی سمجھ کوئی نہیں ہو سکتی۔ انسان کی عزت اس کی تہذیب، اس کی اپنی زبان میں پوشیدہ ہے۔ شیراز 18سال کی عمر میں زندگی کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار تھا۔ اللہ کے فضل سے اسے بحری جہاز میں نوکری مل گئی۔ انسانی رویوں پر اس کی مسکراہٹ کبھی کبھار مدھم پڑ جاتی ہے، ایک دن مجھے واقعہ سنے لگے۔ کہنے لگے میں کوئی 55ممالک گھومے ہیں، سو کے حساب سے شہر بھی دیکھے ہیں ۔ پیسہ دولت سب کچھ دیکھا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ایسے ہی چلتے پھرتے ہی مہذب نہیں بنے، انہوں نے انسانیت کو افضل درجہ دیا، دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا تو آج وہ اس مقام پر پہنچے ہیں۔ وہ غیر مسلم ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ میں بحری جہاز میں کوئی بڑا افسر نہیں تھا، میں ایک چھوٹا سا ملازم تھا، جس کی ڈیوٹی بحری جہاز میں لگی مشینوں کی مینٹینس، خرابی دور کرنا تھا، کام کاج کے دوران یونیفارم اتنا صاف نہیں رہتا تھا، اس کی بڑی وجہ مشینوں کی ریپرنگ تھی۔ جس کمپنی کا میں ملازم تھا اس کا نام سرلس کنٹینرز سروسز ( sarlis containers services )تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ کمپنی کا مالک جہاز پر آیا، میں بالکل بھی اسے نہیں جانتا تھا، وہ مجھے دیکھ کر میرے پاس رکا، جہاز میں شاید میں سب سے کم عمر ملازم تھا۔ وہ میرے ساتھ ہی فرش پر بیٹھا گیا اور مجھے سے حال احوال کرنے لگا۔ میں انگلش تھوڑی بہت سمجھ سکتا تھا، وہ تو اردو بالکل بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ بار بار میرے کپڑوں پر ہاتھ رکھتا اور مجھے سے ہمدردانہ اظہار کرتا، وہ میرے رویہ سے بہت متاثر ہوا، کیوں میرا انجینئر اسے میرے متعلق بتا رہا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ کبھی ملاقات نہیں رہی۔ حالات بہت اچھے ہو گئے۔ اچھی تنخواہ بھی ہو گئی، محنت سے کام کرتے رہے ۔ ایک دن میرے انجینئر ماسٹر جس کا نام Costa linardatosتھا، جو کہ Greekکا رہنے والا تھا اس نے خبر دی کہ کمپنی کو MSCنامی کمپنی نے خرید لیا ہے۔ میں پریشان ہو گیا۔ گھر کی فکر کھانے لگی۔ شیراز کہنے لگا کہ میری عادت ایسی تھی کہ مجھے جو بھی کام انجینئر کوسٹا کہتے میں اس کام کو محنت اور ایمانداری سے کرتا تھا۔ مجھے اکثر بازار سے سامان کی خریداری کیلئے بھیجا کرتے تھے۔ میں جو بھی بقیہ رقم ہوتی ایمانداری سے واپس کرتا۔ دوسروں کی طرح بے ایمانی نہیں کرتا تھا، بظاہر وہ خاموش رہتا لیکن بخوبی آگاہ تھا۔ کمپنی کی طرف سے وارننگ جاری ہوئی کہ سب ملازمین کو فارغ کر دیا جائے گا۔ میرا انجینئر بہت اچھا انسان تھا۔ اسی دوران مجھے ایک پراجیکٹ دیا جس سے میں نے کوئی لگ بھگ 100000لاکھ ڈالر کمائے ۔ میں نے سارے ڈالر لا کر انجینئر کوسٹا کی ٹیبل پر رکھ دئیے۔ میرے دماغ میں اس وقت یہ چل رہا تھا کہ ماسٹر مجھے چند سو ڈالر دے گا اور باقی اپنے پاس رکھ لے گا۔ اسی دوران ماسٹر نے مجھ سے پوچھا کہ پاکستان میں ایک اچھا گھر کتنے پیسوں میں مل جاتا ہے، میں نے اس وقت کے حساب سے جواب دیا کہ کوئی 30ہزار ڈالر تک کا مل جاتا ہے۔ اس نے ٹیبل پر پڑے ڈالروں میں سے بتیس ہزار ڈالر میری طرف کر دئیے اور پھر بولا، اچھی گاری کتنے تک مل جاتی ہے، میں نے کہا کوئی 20ہزار ڈالر تک کی مل جاتی ہے، اس نے 20ہزار ڈالر میری طرف کر دئیے۔ میں سوچ میں پڑھ گیا یہ کیا ہو رہا ہے۔ ماسٹر صاحب کوئی مذاق تو نہیں کر رہے۔ پھر انجینئر نے مجھے کہا بتائو پاکستان میں اچھا کاروبار کرنے کے لیے کتنے پیسے لگ جاتے ہیں، میں پھر سوچ میں پڑ گیا اور تھوڑی دیر بعد میں نے جواب دیا کہ کوئی 40سے 50ہزار ڈالر تک ایک اچھا کاروبار چل سکتا ہے۔ ماسٹر نے ٹیبل پر پڑے تمام ڈالر میری طرف کر دئیے اور کہنے لگا شیراز یہ سب تمہارے ہیں، یہ تمہاری محنت اور ایمانداری کا صلہ ہے۔ آپ مجھے سے جھوٹ بھی بول سکتے تھے، میں کون سا تمہارے سر پر کھڑا تھا۔ آپ ایک اچھے انسان ہو، یہ سب تمہاری محنت کا ثمر ہے۔ وطن جا کر کوئی اچھا کاروبار کر لینا۔ اپنی فیملی کے ساتھ اچھی زندگی گزارنا۔ میں گریک شہری ہوں، مجھے کسی جگہ نوکری مل جائے گی لیکن تمہارے لیے مشکل ہو گی۔ جائو اپنے بیوی بچوں میں خوش رہو۔ یہ تمہاری محنت اور ایمانداری کا ثمر ہے۔ بھائی شیراز جب یہ باتیں سب دوستوں کو بتا رہا تھا۔ محفل میں خاموشی تھی۔ ویسے مجھے لمبی محفلیں پسند نہیں لیکن میں شیراز بھائی کو سننا چاہتا ہوں۔ انسانی رویوں میں اخلاص کی آبکاری کا ماہر ہے اس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ وہ خاموش یا ڈرپوک ہے۔ حالات کا مقابلہ اچھے سے کرنا خوب جانتا ہے۔ شیراز بھائی کی کہانی کے ساتھ ہی مجھے اپنے گزرے وہ دن بھی یاد آ گئے جب میں نے B Comپاس کیا۔ میں کراچی اور میرے والدین پنجاب میں تھے۔ نوکری کرنا میرے لیے انتہائی ضروری تھا۔ کیوں کہ اچھی تعلیم کیلئے پیسہ بہت ضروری ہے۔ میں نے ایک کوکنگ آئل کمپنی میں سٹور کیپر کی نوکری کر لی۔ کمپنی کا مالک مجھے بہت پسند کرتا تھا کیوں کہ میں محنت اور ایمانداری سے اپنا کام کرتا لیکن جن ملازموں کے کھانچے لگے ہوئے تھے ان کو بڑی تکلیف رہتی۔ میری وجہ سے سب بند ہو گیا۔ میں دور کی بہت کم سوچتا تھا۔ ایک دن میرے ساتھ ایسا ہاتھ ہوا جو ابھی تک یاد ہے۔ مجھے ہیڈ آفس سے آرڈر مل کہ اتنا مال سندھ کے شہر میر پور خاص بھج دو، میں نے مال بھج دیا۔ مال وہاں وصول بھی ہو گیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ مال کسی اور جگہ ڈیلیور ہونا تھا، غلطی سے پرانے ڈیلر کے پاس چلا گیا تھا، اس ڈیلر نے مال روک لیا اور کمپنی سے تقاضہ کیا کہ میرے روکے گئے بل کلیئر کرو اپنا مال لے جائو۔ اس بنیاد پر مجھے نوکری سے نکال دیا گیا۔ ہیڈ آفس کی غلطی تھی مجھے نیا ایڈریس نہیں دیا گیا لیکن میرے کندھے پر ڈال دی گئی۔ کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی اور ہمیں قربانی کا بکرا بنا دیا۔ چند دن بعد مجھے بہانے سے دفتر بلوا کر کہا گیا کہ آپ کو دوبارہ بحال کر دیں گے اور آپ روکی گئی تنخواہ بھی جاری کر دیں گے، آپ معافی کی درخواست لکھ دو۔ میں 22 سالہ لڑکا جیسا انہوں نے کہا میں نے لکھ دیا ۔ ویسے میں ان کا کیا کر سکتا تھا جب ان ارادے ہی غلط تھے ۔ دن تو گزرتے گئے لیکن میری تنخواہ 7000روپے کوکنگ آئل کمپنی والوں نے جاری نہیں کی ۔ میرا تو وقت جیسا تیسا گزار گیا۔ وہاں کے جی ایم مظہر جس نے میری محنت اور ایمانداری کا یہ صلہ دیا جو آج تک یاد ہے۔ پاکستان کی معاشی تباہی کے ذمہ دار ایسے کاروباری افراد ہیں جو قانون کو اپنی طاقت سے پامال کرتے ہیں۔ جن کی نظر میں انسانیت کچھ نہیں ہے۔
دنیا مہذب اور انصاف پسند انسانیت کے حقوق کے تحفظ سے بنی ہے، کیوں کہ وہاں فیصلے میرٹ پر کئے جاتے ہیں، وہاں سیاسی ڈاکو، قومی چور نہیں ہیں، وہاں انسان تو انسان، جانور کی بھی عزت نفس کا خیال کیا جاتا ہے، ایک ارب پتی کمپنی کے مالک کیلئے 7000ہزار روپے کی کیا حیثیت تھی لیکن ہمارے کمزور آدمی کے لیے ان کی بہت اہمیت تھی ، costa linardatisجو غیر مسلم ہے اس کا کردار آج 30سال بعد بھی زندہ ہے اور کوکنگ آئل کمپنی کے مالک اور جی ایم مظہر کا کردار اس قوم کیلئے بوجھ ہے۔ یقینا فرق صرف انسانی رویوں کا ہے ۔ اس کی ذمہ دار حکومت وقت ہے کیوں کہ معاشرتی عوامل انسانیت کو متاثر کرتے ہیں، کسی ایک عوامل کو لے کر ملک سیدھا نہیں کیا جا سکتا جب تک ان تمام عوامل کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جائے گا۔ ہماری حکومتیں اسی لیے ناکام رہی ہیں کیوں کہ ان کا فوکس صرف ان کام کی طرف رہا جہاں ان کے ذاتی مفادات ہیں۔ ایسے بگاڑ ، افراتفری ہی پیدا ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button