Column

جس کھیت سے دہقاں کو۔۔

صفدر علی حیدری

گندم دنیا بھر میں اگائی جانے والی  فصل  ہے۔ یہ گھاس کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور غذائی احتیاجات کو پورا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2022ء میں پوری دنیا کی گندم کی پیداوار تقریباً 783.92 ملین میٹرک ٹن رہی، جس کی رو سے یہ مکئی کے بعد دنیا میں پیدا ہونے والی دوسری بڑی فصل ہے۔ گندم کا بیج خوراک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسے پیس کر آٹا تیار ہوتا ہے، جس سے روٹی، ڈبل روٹی، بسکٹ، کیک، دلیہ، پاستہ، نوڈل وغیرہ تیار ہوتے ہیں۔ گندم کے پودوں کا استعمال پالتو جانوروں کے چارے کے طور پر بھی ہوتا ہے۔
گندم کی کاشت موسم سرما کی آمد کے وقت کی جاتی ہے اور موسم گرما کی ابتدا میں اس کی فصل تیار ہو جاتی ہے ۔ گندم کا استعمال دنیا کے تمام ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں گندم کا استعمال انتہائی کثرت سے کیا جاتا ہے ۔ شوگر کا مرض بھی اس کے استعمال کو محدود نہیں کر سکا ۔ بچپن میں سنا تھا حضرت آدمٌ سے جو ترک اولی ہوا تھا اور وہ جس درخت کے پاس چلے گئے تھے وہ گندم ہی تھا۔ اس وقت یہ خیال نہ آتا تھا کہ گندم کا درخت نہیں ہوتا پورا پودا ہوتا ہے۔ ویسے بائبل میں بھی درخت کا ذکر ( The tree of knowledge ) کے طور پر آیا ہے۔
پچھلے سال کسانوں کو گندم جتنا بڑا دکھ دے گئی تھی اس کے بعد لگتا یہی تھا کہ وہ اسے کاشت نہیں کرے گا مگر اس بار بھی یہ بڑے پیمانے پر کاشت ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کسان مجبور ہے اسے گھر کے راشن کے لیے تو اسے اگانا ہی پڑتا ہے۔ بھاری قیمت پر ٹھیکے پر لی گئی زمین پر وہ گندم کاشت کئے بنا رہ نہیں سکتا۔ ایک وقت تھا اگر کسان گندم نہ بیچتا تو گھروں میں چھاپے مارے جاتے تھے۔ ضلع کے باہر اور بعض اوقات صوبہ کے باہر لے جانے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ حکومت بھی بڑے پیمانے پر گندم خریدتی تھی۔ اس سے گندم مقررہ ریٹ پر اور بعض اوقات اس سے زیادہ قیمت پر بک جایا کرتی تھی۔
پچھلے سال میں نے گھر کے استعمال کے لیے گندم اکتیس سو میں خریدی۔ بیچنے والے نے پینتیس سو میں نہیں دی تھی۔ اس کا خیال تھا سینٹر کھل جائیں گے تو اسے اچھی قیمت ملے گی مگر افسوس حکومت پنجاب نے خریداری سے انکار کر دیا اور یوں دام گر گئے۔ گندم کسان سے نہ خریدنے کی ایک معقول وجہ بھی۔ مارچ میں باہر سے گندم منگوا لی گئی۔ یہ اور بات کہ سرکار کے پاس کئی سال کا ذخیرہ موجود تھا اور نئی فصل بھی آنے والی تھی۔ اب پتہ نہیں کون سی ایسی مجبوری آن پڑی تھی کہ باہر سے ناقص ترین گندم لے لی گئی اور اپنے کسان کی سونے جیسی گندم کو دو کوڑی کا کر دیا گیا۔ حکومت نے نگران وزیر اعظم پر الزام لگایا۔ نگران وزیر اعظم نے نئی حکومت پر۔ کچھ دن لے دے ہوئی اور پھر مٹی پائو پروگرام شروع ہوا اور خاموشی چھا گئی۔ اربوں روپے کما لیے گئے۔
فارم 47والی حکومت کا مسئلہ عمران خان تھا۔ سو اسے جیل بھیج کر وہ مطمئن ہیں۔ کسی اور مجرم کو پکڑنا ان کی ذمہ داری کبھی بھی نہیں رہی۔ کسان کو خوار کر دیا گیا مگر کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ اس واقعے کے ذمہ دار آج بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس واقعے کا اصل ذمہ دار تھا کون ؟۔ ایمان داری سے بتائیے کیا کسی اور ملک میں یہ سب ہو سکتا ہے۔ شاید اس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ صرف مملکت خداد داد پاکستان میں ہو سکتا ہے کہ یہ کرپٹ لوگوں کا ملک ہے۔ جو جتنا بڑا مجرم اس کا اس ملک میں اتنا بڑا مقام۔ اسی دوران ہمیں بھائی سے پیسے وصولنے تھے، اس نے گندم ابھی آس پر رکھی ہوئی تھی کہ شاید سرکاری نرخوں پر سرکار خرید لے مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
مجبوراً دو ماہ بعد اس سے گندم اٹھا کر مارکیٹ میں بیچی تو پچیس سو فی من کے حساب سے فروخت ہوئی۔ پھر یہ دام گر کر دو ہزار تک بھی پہنچے۔ ابھی چند دن قبل پنجاب حکومت نے اپنی ذخیرہ شدہ گندم چھبیس سو میں فروخت کی ہے، اب یہ سننے میں آ رہا کہ اس بار بھی حکومت گندم کی خریداری نہیں کرے گی۔ ویسے یہ بات گزشتہ سال بھی سنی تھی کہ اب آئندہ حکومت گندم خریدا نہیں کرے گی۔ سو حسب توقع کسان کے پیٹ پر لات مارنے کی تیاریاں کر لی گئی ہیں۔ اس کی گندم کوئی خریدے یا نہ خریدے۔ سستی خریدے یا مفت کوئی اٹھا لے جائے، حکومت کی بلا سے۔ حکومت کی طرف سے چون کہ گندم کی خریداری کا کوئی ارادہ نہیں ہے، سو اس کی امدادی قیمت بھی مقرر نہیں کی ۔ سننے میں آ رہا کہ بائیس سو روپے قیمت رکھی جائے گی۔ ظاہر ہے یہ قیمت انتہائی کم ہے اور کسان کی گندم اتنے میں بکے گی بھی نہیں۔
انڈیا سے آئے ہوئے ایک سکھ نوجوان نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ یوریا کی بوری ان کو ساڑھے تین سو میں ملتی ہے۔ اس نے پورے وثوق سے بتایا کہ یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا کہ حکومت کو اپنے غریب کسان کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ظاہر ہے ایک زرعی ملک میں کسان پریشان حال ہو گا تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑے گا۔ اس کا مظاہرہ پچھلے سال ہو چکا۔ احمق لوگ اپنی غلطیوں سے کبھی نہیں سیکھتے۔ وہ ویسے ہی غلطیاں دوبارہ کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اپنی ادائوں پر ذرا غور کیا جاتا۔ غلطی سے سیکھا جاتا۔ مگر اس کے لیے حکمت کی ضرورت ہوتی ہے اور ان لوگوں کے پاس بس حکومت ہے۔ بلکہ حکومت بھی کہاں ہے جو آئی ایم ایف نے کہہ دیا انہوں نے مان لیا۔ جی حضوری کی بھی ہوئی حد ہوتی ہے، نہ کسان کو اچھا بیج ملتا ہے، نہ وہ سستا ملتا ہے۔ نہ معیاری ادویات ملتی ہیں۔ نہ ارزاں نرخوں پر کھاد ملتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسان کا خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ اس پر قرضہ چڑھ جاتا ہے۔ پھر وہ اپنی زمین، مکان یا مال مویشی بیچ کر نئی فصل کاشف کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔
ایک زرعی ملک کی حکومت کسان دشمن بھی ہو سکتی۔ ہاں ہو سکتی ہے۔ کہیں اور ایسا ہو نہ ہو ہمارے ملک میں ہوتا ہے، ایران میں حکومت ساری گندم خرید لیتی ہے۔ کسی کو گھر میں آٹا رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ حکومت ہوٹلوں اور تنور والوں کو گندم فراہم کرتی ہے اور مقررہ وزن اور قیمت کی روٹی عوام ان سے خریدتے ہیں۔ ہمارا یہاں سستی روٹی اسکیم چلائی گئی اور اربوں کما لیے گئے۔
ہمارا کسان دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہے کہ اس بار حالات پچھلے سال والے نہ ہوں مگر آثار تو کچھ اور ہی بتاتے ہیںعلامہؒ نے فرمایا تھا
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
اور اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
جاتے جاتے سن لیجیے کہ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں بڑا اضافہ ہو چکا ہے۔
پاکستان نے بے روزگاری میں بھارت اور بنگلہ دیش کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، پاکستان کو سالانہ 15لاکھ ملازمتوں کی ضرورت ہے اور حکومت نوکریاں نہ دینے کے عزم پر قائم ہے۔

جواب دیں

Back to top button