ColumnImtiaz Aasi

آئینی ترامیم کیخلاف ملک بھر کے وکلاء کا احتجاج

امتیاز عاصی
ملک بھر سے آئے ہوئے وکلاء آئینی ترامیم کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ سوموار کے روز چاروں صوبوں سے آئے ہوئے وکلاء تمام رکاوٹیں توڑ کر وفاقی دارالحکومت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ تادم تحریر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تھی البتہ پولیس وین احتجاجی وکلاء کے قریب موجود تھی۔ احتجاجی وکلا نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر 26آئینی ترمیم نامنظور تحریر تھا۔ عدلیہ کی تاریخ میں غالبا یہ پہلا موقع ہے جب ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں ججوں کی خالی اسامیوں کو سرعت سے پر کیا جا رہا ہے۔ بظاہر دیکھا جائے تو عدلیہ میں ججوں کی تقرری سے زیرالتواء مقدمات کے فیصلوں کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ آئین میں ترامیم سے قانونی اور عوامی حلقوں میں جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوسرے صوبوں کے تین ججوں کے تبادلوں کے بعد یقین میں بدل گیا جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ایگزیکٹو نے عدلیہ پر پورا کنٹرول کر لیا ہے ۔ گو آئین میں صدر مملکت کو ایک صوبے کی ہائی کورٹ کے جج کو دوسرے صوبے کی ہائی کورٹ میں بدلنے کا اختیار حاصل ہے ایک ایسے وقت جب ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے بانی کی سزائوں کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیلوں کی سماعت کا وقت قریب ہے پنجاب، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے
ججوں کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبدیلی سے شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے ورنہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان اپنے فرائض معمول کے مطابق سرانجام دے رہے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چند ججوں کی چیف جسٹس کے نام نالش کے بعد اس بات کا پورا یقین تھا شکایت گزار جج صاحبان کسی کے دبائو میں نہیں آئیں گے حسب معمول اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کریں گے۔ لاہور ہائیکورٹ سے ایک جج کو وفاقی دارالحکومت کی ہائی کورٹ میں ٹرانسفر اور آئین میں رکھی گئی شرط کو بالائے طاق رکھ کر نئے آنے والے جج کا ازسر نو حلف نہ اٹھانے سے یہ بات واضح ہے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں لاہور ہائیکورٹ کے ایک قائم مقام چیف جسٹس ایم کے صمدانی مرحوم یاد آرہے ہیں جنہوں نے ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ذوالفقار علی بھٹو کی نواب محمد احمد خان قتل کیس میں ضمانت لے لی تھی ایسے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک سابق جج شوکت صدیقی کا معاملہ سب کے سامنے ہے راست باز شوکت صدیقی نے طاقتور حلقوں کے سامنے جھکنے سے انکار کرکے عدلیہ کی تاریخ میں ایک نئے بات کا اضافہ کیا۔ حقیقت میں آئین میں 26ترمیم سے معاملات خراب ہوئے ہیں جوڈیشل کمیشن میں سیاسی جماعتوں کے من پسند لوگوں کو لاکر عدلیہ کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ ماتحت عدلیہ سے عوام کو کم ریلیف ملتا ہے وکلا حضرات اپنے موکلوں کو اسی بات کا حوصلہ دیتے ہیں انہیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ریلیف مل جائے گا۔ بقول معروف قانون دان اور فوجداری مقدمات کے ماہر مرحوم سردار محمد اسحاق خان کہا کرتے تھے ماتحت عدالتوں کے تمام فیصلے درست ہوں تو ہائیکورٹ کی ضرورت نہیں رہتی اور ہائی کورٹ کے سارے فیصلے ٹھیک ہوں تو سپریم کورٹ کی ضرورت نہیں رہتی۔ موجودہ صورت حال میں سیاست دان ہوں یا عوام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ سے اسی صورت میں ریلیف کی توقع کی جا سکتی ہے
جب عدلیہ آزاد ہو۔ ملکی تاریخ گواہ ہے وقت کے آمروں نے آئین کو معطل اور ججوں سے پی سی او کی تحت حلف لینے کی ٹھانی تاہم بہت سے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھا کر ضمیر کو زندہ رکھا اور بعض نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر ملک کے آئین سے روگردانی کی۔ آج جسٹس منیر کو کن الفاظ میں لوگ یاد کرتے ہیں اس کے باوجود بعض دنیاوی نمود و نمائش اور مراعات کے رسیا ضمیر قربان کرنے کو تیارہو جاتے ہیں۔ ہمیں کسی سیاسی جماعت اور اس کے کسی رہنما سے کوئی سروکار نہیں ایک بڑی سیاسی جماعت کے بانی سے عدلیہ کی طرف سے جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے عدلیہ کی روشن تاریخ پر دھبا لگا دیا ہے۔ ماتحت عدلیہ سے من پسندوں فیصلوں کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں اپیلوں کے من پسند فیصلوں اور آئین سے کھلواڑ نے عوام کا عدلیہ پر رہا اعتماد ختم کر دیا ہے۔ درحقیقت آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کے ذمہ دار سیاست دان ہیں۔ جے یو آئی کے امیر کی سیاست سمجھ سے بالاتر ہے وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کے شہسوار ہیں۔ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی کسی تحریک کا حصہ بننے سے قاصر ہیں جو ان کی دوغلی سیاست کا واضح ثبوت ہے۔ ملکی سیاست میں ایک اور نوابزادہ نصراللہ خان کی ضرورت ہے جو وقت کے آمروں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتے تھے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ان پر پور اعتماد ہوتا تھا اس کے برعکس آج کی سیاسی جماعتوں کے قائدین ناقابل بھروسہ ہیں۔ عدلیہ پر شب خون مارنے کا آغاز ہو چکا ہے جس کا پہلا نشانہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنیئر جج صاحبان بنے ہیں۔ عوام دور آمریت کو روتے تھے آج ہم آمریت کے بدترین دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ حالات خواہ کچھ ہو عوام اسلام آبا د ہائیکورٹ کے ان پانچ ججوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے ضمیر کا سودہ کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ وطن عزیز کو ایسے ججوں کی ضرورت ہے جو حصول انصاف کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ آج ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے وکلا ء کی بھرپور تحریک کی ضرورت ہے مگر آئین اور قانون کی بالادستی کا ڈھنڈورہ پٹینے والے اپنی اپنی بیلوں میں ہیں باوجود اس کے چاروں صوبوں سے وکلاء کی خاصی تعداد آئینی ترامیم کے خلاف احتجاج کے لئے اسلام آباد پہنچ گئی۔ یہ علیحدہ بات ہے وقتی طور پر بعض طالع آزمائوں کو اپنے اپنے مفادات کا حصول ہے لیکن آئین اور قانون سے کھلواڑ کے نتائج آنے والے وقتوں میں ان کے مردہ ضمیروں کو ضرور جگائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button