Column

نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے متحدہ والو

محمد ناصر شریف

ماضی کے کنگ میکر اب محض پیادہ بن کر رہ گئے ہیں، کوئی نظریہ ہے نہ منزل، کسی کی خواہش پر دھڑوں میں بٹے لوگوں کو متحد کیا گیا اور جب سے یہ اتحاد وجود میں آیا ہے اسی روز سے تنظیم میں  اختیارات کی جنگ عروج پر ہے، عوام کے کام نہ ہونے کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں آنے والی ایم کیو ایم پاکستان کے رہنمائوں میں گزشتہ کئی ماہ سے تنائو، طلاطم اور طغیانی نظر آرہی تھی۔ مگر رہنما معاملات کی بہتری اور پُرسکون سفر کی نوید سنا رہے تھے لیکن یکایک ہفتے کو عارضی مرکز بہادر آباد میں ناراض کارکنوں کے دھاوے نے تمام پول کھول دیئے، تمام تر دعوئوں کے باوجود اب بھی سب کچھ اچھا نہیں، مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے مرکزی کمیٹی کا مشاورتی واٹس اپ گروپ چھوڑ دیا ہے تو پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے واضح کیا کہ احتجاج کرنے والوں کو تنظیمی نظم و ضبط کے مطابق دیکھیں گے، ایم کیو ایم ڈسپلن والی پارٹی ہے، ایسے عناصر کی پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنہوں نے پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی ان کے خلاف پارٹی ایکٹ کے تحت فیصلے کریں گے۔ کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے گورنر ہیں، وہ گورنر رہیں گے اور وہ کہیں نہیں جارہے، مجھ سمیت پوری پارٹی کو گورنر سندھ کامران ٹیسوری پر اعتماد ہے، ایم کیو ایم گورنر ہائوس سے نہیں چل رہی، کل کا واقعہ افسوس ناک ہے، 22اگست 2016ء کے بعد نئے روپ میں سامنے آنے والی ایم کیو ایم ابتداء میں ہی کامران ٹیسوری کے معاملے پر انتشار کا شکار ہوگئی تھی، کامران ٹیسوری پارٹی کی جانب سے سینیٹ کا حصہ نہ بن سکے مگر گورنر بن کر ایم کیو ایم کا حوصلہ ضرور بن گئے، 2024ء کے
انتخابات میں کامیابی کے بعد ایم کیو ایم دوبارہ سے کراچی کی بڑی سیاسی اسٹیک ہولڈر پارٹی بن گئی، تاہم واپس آنے والوں کی جانب سے قیادت اور وزارت کو الگ رکھنے کی باز گشت سے پھر پارٹی میں تقسیم اور اختلافات نمایاں ہونے لگے ہیں، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مرکزی قیادت کے اختلافات نچلی سطح کے کارکنوں تک پہنچ گئے ہیں، سوشل میڈیا پر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور سید مصطفی کمال کے حامی ان کے حق میں مہم چلارہے ہیں، ایم کیو ایم کے مختلف سوشل میڈیا گروپس بھی تقسیم کا شکار ہیں، خاموش کارکن بھی متحرک ہیں ان کا کہنا ہے کہ شہری ڈمپر سے مر رہے ہیں اور لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں، ایم کیو ایم کے متحد ہونے کے باوجود یہ بات دکھائی دے رہی تھی کہ قیادت اور کارکنوں کے درمیان یکسوئی کا فقدان اور ان کے درمیان تحفظات ہیں۔
اختلاف میں شدت اس وقت آئی جب ایم کیو ایم پاکستان میں ان 25کمیٹیوں کی تشکیل نو کی گئی، اس کے مطابق سینٹرل آرگنائزنگ کمیٹی ڈاکٹر فاروق ستار، انیس احمد قائم خانی، سید امین الحق۔ سندھ تنظیمی کمیٹی انیس احمد قائم خانی، سید امین الحق، رضوان بابر۔ لیبر ڈویژن کمیٹی سید مصطفیٰ کمال، سید فیصل سبزواری، رضوان بابر، شعبہ خواتین نسرین جلیل باجی انیس احمد قائم خانی، کیف الوری، یوتھ فورم سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار، سید فیصل سبزواری، بزنس فورم سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار، سید فیصل
سبزواری۔ سوشل میڈیا سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار۔ ایڈمن کیف الوری، رضوان بابر۔ لیگل ایڈوائزر فورم انیس احمد قائم خانی، کیف الوری، رضوان بابر۔ شہدا اسیر و لاپتہ انیس احمد قائم خانی، کیف الوری۔ ایلڈرونگ انیس احمد قائم خانی، کیف الوری، رضوان بابر۔علمائ/مذہبی امور انیس احمد قائم خانی، سید مصطفیٰ کمال، کیف الوری۔اقلیتی امور انیس احمد قائم خانی، رضوان بابر۔ اے پی ایم ایس او سید امین الحق، سید فیصل سبزواری۔ فنانس کیف الوری، رضوان بابر۔ صوبائی پارلیمانی امور( ایم پی اے) کامران خان ٹیسوری۔ سینٹرل پنجاب سید مصطفیٰ کمال، سید فیصل سبزواری۔ اپر پنجاب سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق۔ سائوتھ پنجاب انیس احمد قائم خانی، نسرین جلیل باجی۔ کے پی کے سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق۔ بلوچستان، نسرین جلیل، سید امین الحق۔گلگت بلتستان، ڈاکٹر فاروق ستار، سید فیصل سبزواری۔ سی آئی سی ، سید امین الحق، سید فیصل سبزواری۔ کشمیر، نسرین جلیل باجی، رضوان بابر۔ڈپلومیٹ کمیٹی سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق، نسرین جلیل باجی، سید فیصل سبزواری پر مشتمل ہوگی۔ ان کمیٹیوں میں متعدد نام ہر کمیٹی میں شامل دیکھے
جاسکتے ہیں ۔ جس پر کارکن مشتعل ہوگئے۔
ایم کیو ایم میں اختلافات اور انتشار کے حوالے سے برف پگھلنے کے امکانات ابھی واضح نہیں ہورہے ہیں، تاہم بعض سیاسی ذمے دار حلقوں کا کہنا ہے کہ معاملات جلد ٹھیک ہوجائیں گے، اس حوالے سے موقر روزنامہ ڈان نے خبر دی ہے کہ ضلع جنوبی کے سیف ہائوس میں ہونے والے بند کمرہ اجلاس میں سب کو سمجھا دیا گیا ہے، دریں اثناء ایم کیو ایم کے اہم رہنما سید مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی اتوار کو جب عارضی مرکز بہادر آباد پہنچے تو ان کے استقبال کے لئے وہاں دوسرے گروپ کا کوئی رہنما موجود نہیں تھا، دونوں رہنمائوں نے اپنے ایم پی اے اور ہم خیال لوگوں سے مشاورت کی، بعد میں میڈیا سے بات چیت میں رکن قومی اسمبلی اور سینئر رہنما سید مصطفیٰ کمال نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں کہا کہ ہم نے اسٹیٹس کو، کو چیلنج کیا ہے اسٹیٹس کو والی ایم کیو ایم کمزور ہے۔ ایم کیو ایم جتنی متحرک ہوگی عوام کے مسائل حل ہوں گے۔ ایم کیو ایم میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ایم کیو ایم کل کے مقابلے میں آج زیادہ مضبوط ہے، یہ ہمارا آفس ہے، جب چاہیں آئیں ، آپ کے دفتر میں نعرے لگے ، سوال نعرے لگانا جمہوری عمل ہے، جو لوگ آئی تھے وہ ذمے داریوں کی تقسیم کے حوالے سے معلوم کرنا چاہتے تھے کہ یہ فہرست کہاں سے آئی ہے، انہوں نے کہا کہ کل جو لوگ بہادر آباد آئے تو شکر کریں دفتر بند تھا ، جب فیصلہ کرنے پر وقت لگتا ہے تو بات باہر نکلتی ہے ، جو ہورہا ہے میں اس سے خوش ہوں، بات کسی شخصیت کی نہیں ہورہی ہے، ہم اپنے گھروں کو چھوڑ کر سیاست کرتے ہیں ، جن کا بیڑا اٹھا رکھا ہے ان کو فائدہ ہونا چاہئے، سو فیصد کامیاب نہیں ہورہے ، اس کا حل یہ ہے کہ مشاورت کرکے ٹارگٹ پورا کیا جائے ، جب بات ہوتی ہے کئی مشورہ دیا جاتا ہے ، مختلف آراء کا ہونا اختلاف نہیں ہوتا ہے ، یہ جتنی بھی سیاست ہے صبح دوپہر شام میں سب کی سیاست کی بات کر رہا ہوں، ہم اپنا گھر باہر سب کچھ چھوڑ کر کام کرتے ہیں، جس میں یوسیز بھی شامل ہیں ان کاموں کے لئے بیٹھ کر بات کی جاتی ہے۔
ادھر وفاقی حکومت بھی ان اختلافات پر بول پڑی اور کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) پاکستان کے تنظیمی معاملات کا تعلق ان کی قیادت سے ہے، اس سے وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ(ن)کی وفاقی حکومت اتحادیوں کی تنظیمی سیٹ اپ یا معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، تاہم پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو اور کراچی ڈویژن کے صدر و صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ ہمیشہ کہتے آئے ہیں ایم کیو ایم چوں چوں کا مربہ ہے، ان میں اختلافات پہلے سے ہی تھے، البتہ اب کھل کر سامنے آرہے ہیں ، گورنر سندھ اپنی پارٹی کی مخالفت پر توجہ دیں، ڈی آئی جی ٹریفک بننے کی ان کی عمر نکل چکی ہے عوامی مسائل کے حل کرنے اور عوام کی خدمت کے لئے اس ملک میں پیپلز پارٹی سے بہتر کوئی جماعت نہیں ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان نے پارٹی رہنمائوں کے اختلافات کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ دو روز سے میڈیا پر مسلسل ایم کیو ایم سے متعلق من گھڑت خبریں چلائی جارہی ہیں، سوچی سمجھی سازش کے تحت پارٹی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ترجمان ایم کیو ایم نے کارکنان سے اپیل کی کہ اپنی صفوںمیں اتحاد برقرار رکھیں اور کسی شر انگیزی کا شکار نہ ہوں۔
سیاسی اور کراچی کے ایشوز پر ایم کیو ایم کا انداز ماضی جیسا جارحانہ اور مدبرانہ نہیں، پتہ نہیں کیا بات ہے وہ اداروں کی زیادتیاں ہوں، شہر کے طلبہ و طالبات پر تعلیمی اداروں، بورڈز اور یونیورسٹیز کا ظلم ہو، ڈمپر سے شہریوں کی ہلاکتیں ہوں ، شہر میں پانی کی بندش، لوڈشیڈنگ ہو، تجاوزات کے نام پر پرانی بستیوں کو اجاڑنے کا معاملہ ہو کہیں کوئی موثر آوا ز اور عملی جدوجہد کرتے ہوئے نظر نہیں آرہی۔ ایم کیو ایم کو اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی لانا ہوگی، نئی حکمت عملی بنانا ہوگی، منتخب نمائندوں کو علاقائی سطح پر فعال کرنے کی پالیسی بنانا ہوگی، محمد حسین، سابق میئر کراچی وسیم اختر، کشور زہرا، فروغ نسیم، سابق ڈپٹی میئر ارشد حسین سمیت کئی اہم رہنما منظر سے غائب ہیں۔ ان رہنمائوں کو آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے ووٹرز کے لیے کچھ کریں، ورنہ داستاں بھی نہیں ہوگی داستانوں میں۔۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے متحدہ والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

جواب دیں

Back to top button