ColumnTajamul Hussain Hashmi

شدت میں اضافے کا اقرار

تجمل حسین ہاشمی
وہ اپنی ماں سے کہنے لگا کیا میں جنت میں بھی کرکٹ کھیل پائوں گا۔ ماں مسکرا کر کہتی کہ وہاں سب کچھ ملے گا۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ماں اپنے بیٹے کو سمھجایا کرتی کہ خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے انسان کو محنت کی ضرورت ہے۔ شارٹ کٹ سے حاصل کی گئی کامیابی دیرپا نہیں ہوتی۔ ماں اپنے بیٹے کو سچ اور جھوٹ کا فرق سمجھانے کیلئے بتاتی کہ سچے لوگ جنت میں جائیں گے اور جھوٹے لوگ دوزخ کی آگ میں جلیں گے۔ ماں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ صرف اور صرف سچ بولا کرو۔ اقتباس ’’سچ بولنا منع ہے‘‘ ماں کی نصیحت پر چل کر آج بیٹا اس مقام تک پہنچ گیا جس کا تصور مشکل ہے۔ ماں تو دنیا سے چلی گئی لیکن بیٹے نے ماں کا نام روشن کر دیا۔ آج پوری دنیا میں اس کا نام اس کے الفاظ برانڈ ہیں، آج اس کا نام گلی محلوں کا بچہ بچہ جانتا ہے، اس کو اب اپنے اس وعدے کی تکمیل کیلئے سب کچھ کرنا ہوگا جس سے قوم کے رویوں، معاشی صورتحال میں بہتری آ سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کو مکالمے کی ثقافت کو اپنانا چاہئے۔ برداشت و رواداری کو مضبوط بنانا چاہئے۔ ملکی مفاد میں ایک قدم آگے آنا ہوگا۔ مجھے یاد آیا کہ ایم کیو ایم کی سابقہ رہنما وسیم اختر نے میاں برادران اور صوبہ پنجاب کیخلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے جو غیر جمہوری تھے لیکن میاں برادران کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کو ایسے حالات درپیش رہے جس پر نوازشریف شدت پسندی سے دور رہے۔ سیاست میں برداشت، بردباری میں شریف فیملی آگے ہے اور ملکی جمہوریت کیلئے قربانیاں بھٹو اور بلور فیملی نے دی ہیں۔ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا ’’مجھے گناہ اور بے گناہی کا پتہ نہیں ہے، اس کا فیصلہ تو
عدالتوں کو کرنا ہی یا جس طرح دنیا کا نظام ہوتا ہے، میرے ان کیخلاف تحفظات تھے، وہ ایسے نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر ان کو فورا گرفتار کرلیا جائے اور پھر یہ جو مقدمات ہیں وہ مقدمات ان کی اپنی بحث ہے، اپنا موضوع ہے۔ مستقل کسی سیاستدان کو جیل میں قید کرکے ان کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتا اور اگر کوئی اختلاف ہے تو ہم میدان میں کریں، آپس میں گفتگو کے ذریعے کریں، باہر کریں لیکن سیاست میں شدت نہیں ہونی چاہئے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) میں اختلافات ہیں۔ ہم کچھ زیادہ شدت کی طرف چلے گئے تھے، زیادہ تلخیوں کی طرف چلے گئے تھے اور ہم اب اس تعلق کو واپس ایک اعتدال پر لانے کیلئے کہ اختلاف اختلاف رہے لیکن رویے میں اعتدال رہے اس طرف آنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘ مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس میں لفظ شدت غور طلب اور آئی ایس پی آر کے سوشل میڈیا اور فیک نیوز کے حوالہ سی بیانات واضح ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کو اپنے قریبی دوست میاں بشیر کے کہے ہوئے الفاظ کو سمجھنا چاہئے، ذمہ داری اٹھانا آسان نہیں۔ حقیقت میں گزشتہ چند سالوں میں شدت پسندی، افراتفری اور لاقانونیت میں اضافہ ہوا ہے، پی ٹی آئی پر الزام ہے کہ ان کی طرف سے سوشل میڈیا کا غلط استعمال
کیا گیا ہے، جھوٹی خبریں، نفرت انگیز مواد کو پھیلایا گیا، جس سے اختلافات، شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ 9مئی کے واقعات سامنے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ یا دیگر ریاستی اداروں کی سیاست میں اثراندازی سے ایک سیاسی جماعت فائدہ اٹھاتی ہے اور دوسری کو سیاسی نقصان کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عوام میں سخت گیر رویے حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے سے بھی جنم لیتے ہیں۔ سماجی اور معاشی صورتحال 40سال سے اسی ڈگر پر ہے۔ اس میں بہتری لانا کسی بھی سیاسی جماعت یا امر کے بس میں نہیں رہا، اس کی کئی وجوہات ہیں، جن کا تدارک نہیں کیا گیا، سیاست دانوں کا گلہ رہا کہ ان کو حکومت کرنے نہیں دی گئی، کسی بھی جماعت کو اپنا وقت پورا نہیں کرنے دیا گیا تو پھر ملک میں بہتری کیسے ممکن ہوسکتی تھی۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا شکوہ رہا، لیکن حالات کی کروٹ نے ان کو ایسے ساتھ بٹھا دیا جیسے وہ صدیوں سے ایک ساتھ حکومت کرتے آئے ہیں جو کبھی چالیس چور، روڈوں پر گھسیٹنے کے نعرے لگایا کرتے تھے، ویسے سیاسی جنگ میں صرف لفظوں کے وار چلتے ہیں یا پھر مقدمات درج ہوتے ہیں، ایسے سیاسی محاذوں سے نقصان ملک و قوم کا ہوتا ہے۔ جو قوم برداشت کر رہی ہے، گزشتہ 5سال میں حکومتی پالیسی اور مہنگائی نے قوم کی ایسی کمر توڑ دی ہے اب کسی میں ہمت نہیں رہی، شدت پسندی میں اضافے میں کئی دوسرے فیکٹر بھی شامل ہیں جن کی طرف حکومت یا مقتدر حلقوں کا فوکس نہیں ہے، شدت پسندی کی آبیاری میں رشوت، مہنگائی، بیروزگاری، انصاف اور تعلیم کی کمی بھی بڑا فیکٹر ہے جس کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button