Column

شہید راہ وفا ۔۔۔ عمار ابن یاسرؓ

تحریر ، صفدر علی حیدری
اسلام لانے میں جن کا نمبر چھٹا ہو، قرآن مجید کی پندرہ آیات جن کی شان میں نازل ہوئی ہوں، جن کے بارے ختمی مرتبت کا فرمان ہو کہ لوگوں کا ایمان ان کے دلوں میں ہوتا ہے ان کا ایمان ان کی ہڈیوں ان کے ریشوں میں پہنچا ہوا ہے۔ جنت جن چار شخصیات کی مشتاق ہو ان میں جناب علی، جناب سلمان جناب ابوزر کے ساتھ وہ بھی شامل ہوں ۔چار بڑی جنگوں میں جو لشکر اسلام کے سپہ سالار رہے۔ جن کی ماں اسلام کی پہلی شہیدہ ہو اور جو خود بھی شہید راہ وفا ہو۔
جی ہاں یہ عمار ابن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ایک جلیل القدر صحابی رسول، جن کا تذکرہ اکثر سننے کو نہیں ملتا۔ حالاں کہ آپ قدیم الاسلام اور  مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ آپ ان مصیبت زدہ صحابیوں میں سے ہیں جن کو کفار مکہ نے اس قدر ایذائیں دیں کہ سوچ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شاید اسلام کی خاطر آپ کو سب سے زیادہ صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ظالموں نے ان کو جلتی ہوئی آگ پر لٹایا۔ یہ دہکتی ہوئی آگ کے کوئلوں پر پیٹھ کے بل لیٹے رہتے تھے اور جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے اور یہ آپ کو یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کہہ کر پکارتے تو آنجنابؐ ان کے لیے اس
طرح آگ سے فرمایا کرتے تھے: ’’ اے آگ !تو عمار پر اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی تھی ‘‘۔ حضرت عمارؓ بن یاسر کی والدہ حضرت سمیہؓ کو ابو جہل نے نہایت وحشیانہ طریقے پر اپنے نیزہ سے شہید کیا؛ چنانچہ تاریخ اسلام کی یہ پہلی شہادت تھی، جو استقلال و استقامت کے ساتھ راہِ خدا میں واقع ہوئی، ان کے والد حضرت یاسرؓ اور بھائی حضرت عبد اللہ ؓ نے بھی اسی گرداب اذیت میں وصال فرما۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضرت عمارؓ کو طیب و مطیب کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ یہ 37 ھ میں ترانوے برس کی عمر پا کر جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے، حضرت عمار ؓ کے والد حضرت یاسرؓ قحطانی النسل تھے ، یمن ان کا اصلی وطن تھا، اپنے ایک مفقود الخبر بھائی کی تلاش میں دوسرے دو بھائی حارث اور مالک کے ساتھ مکہ پہنچے، وہ دونوں واپس لوٹ گئے، لیکن انہوں نے یہیں طرحِ اقامت ڈال دی اور بنو مخزوم سے حلیفانہ تعلق پیدا کرکے ابوحذیفہ بن المغیرہ مخزومی کی ایک لونڈی سمیہ نام سے شادی کرلی، جس سے حضرت عمار بن یاسر ؓ پیدا ہوئے، ابو حذیفہ نے حضرت عمارؓ بن یاسر کو ان کے بچپن ہی میں آزاد کر کے تاحیات دونوں باب بیٹے کو لطف و محبت سے اپنے ساتھ رکھا۔
ابوحذیفہ کی وفات کے بعد ہی اسلام کا غلغلہ بلند ہوا، حضرت عمارؓبن یاسر اور صہیب ابن سنان ؓایک ساتھ ایمان لائے تھے ، فرماتے ہیں کہ میں نے صہیب بن سنان رومی کو ارقم بن ابی ارقمؓ کے دروازہ پر دیکھ کر پوچھا ’’ تم کس ارادہ سے آئے ہو‘‘، بولے ’’ پہلے تم اپنا ارادہ بیان کرو‘‘، میں نے کہا: ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر ان کی کچھ باتیں سننا چاہتا ہوں‘‘، بولے’’ میرا بھی مقصد یہی ہے‘‘۔ غرض دونوں ایک ساتھ داخل ہوئے اور ساقیِ اسلام
کے ایک ہی جام نے دونوں کو نشہ توحید سے مخمور کر دیا، عمارؓ بن یاسر کے ساتھ یا کچھ آگے پیچھے ان کے والدین بھی مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
حضرت عمارؓبن یاسر گو ایک بے یارو مددگار غریب الوطن تھے ، دنیاوی وجاہت و طاقت بھی حاصل نہ تھی اور سب سے زیادہ ان کی والدہ حضرت سمیہ ؓاس وقت تک بنی مخزوم کی غلامی سے آزاد نہیں ہوئی تھیں ، تاہم جوشِ ایمان نے ایک دن سے زیادہ مخفی ہو کر رہنے نہ دیا ، مشرکین نے ان کو اور ان کے خاندان کو ناچار و مجبور دیکھ کر سب سے زیادہ مشقِ ستم بنایا ۔ طرح طرح کی اذیتیں دیں، ٹھیک دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت میں لٹایا، دہکتے ہوئے انگاروں سے جلایا اور گھنٹوں پانی میں غوطے دئیے لیکن جلوہ توحید نے کچھ ایسا وارفتہ کر دیا تھا کہ ان تمام سختیوں کے باوجود ان کو اسلام سے برگشتہ نہ کر سکے ۔
ایک دفعہ مشرکین نے حضرت عمارؓبن یاسر کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیا، آنحضرت ٔ اس طرف سے گزرے تو ان کے سر پر دستِ مبارک پھیر کر فرمایا ’’ اے آگ تو ابراہیم علیہ السلام کی طرح عمار ؓ پر ٹھنڈی ہوجا‘‘، اسی طرح جب ان کے گھر کی طرف سے گزرتے اور خاندانِ یاسر کو مبتلائے مصیبت دیکھتے تو فرماتے’’ اے آلِ عمارؓ تمہیں بشارت ہو جنت تمہاری منتظر ہے‘‘۔ ایک دفعہ حضرت یاسرؓ نے آنحضرت ؐسے گردشِ زمانہ کی شکایت کی، ارشاد ہوا ’’ صبر کرو، پھر دعا فرمائی ، اے خدا آلِ یاسر ؓکو بخش دے ‘‘۔ ایک روز مشرکین نے ان کو پانی میں اس قدر غوطے دئیے کہ بالکل بدحواس ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس حالت میں ان جفا کاروں نے جو کچھ چاہا ان کی زبان سے اقرار کرا لیا، اس کے بعد گو اس مصیبت سے گلو خلاصی ہو گئی، تاہم غیرت ملی نے عرق عرق کر دیا، دربارِ نبوتؐ میں حاضر ہوئے تو آنکھوں سے آنسوئوں کا دریا جاری تھا، آنحضرتؐ نے پوچھا، عمار ؓکیا خبر ہے؟ عرض کیا یا رسولؐ اللہ نہایت ہی بُری خبر ہے، آج مجھے اس وقت تک خلاصی نہ ملی جب تک میں نے آپؐ کی شان میں بُرے الفاظ اور ان کے معبودوں کے حق میں کلماتِ خیر استعمال نہ کیے۔ ارشاد ہوا، ’’ تم اپنا دل کیسا پاتے ہو؟‘‘، عرض کیا ، میرا دل ایمان سے مطمئن ہے۔ سرورِ کائناتؐ نے نہایت شفقت کے ساتھ ان کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے پونچھ کر فرمایا ’’ کچھ مضائقہ نہیں اگر یہ پھر ایسا ہی کرو‘‘ ۔ اس کے بعد ہی قرآن پاک میں یہ آیت نازل ہوئی’’ جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کا انکار کرے مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہے اس سے کوئی مواخذہ نہیں‘‘۔
غرض حضرت عمارؓ بھی ان مصائب میں گرفتار تھے۔ انہوں نے راہِ خدا میں صبر و استقامت کے ساتھ گوناگوں مصائب اور مظالم برداشت کیے لیکن آئینہ دل سے توحید کا عکس زائل نہ ہوا ۔ ضعیفی کے عالم میں جن لوگوں نے ان کی پیٹھ ننگی دیکھی وہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت تک کثرت کے ساتھ سیاہ لکیریں ، تپتی ہوئی ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں کے داغ ان کی پیٹھ میں موجود تھے۔ غزوہ بدر سے غزوہ تبوک تک جس قدر اہم معرکے پیش آئے، سب میں وہ جانبازی شجاعت کے ساتھ رسالت مآبؐ کے ہم رکاب رہے۔ خلیفہ دوم نے 20 ھ میں ان کو کوفہ کا والی بنایا۔ حضرت عمار بن یاسر ؓنے ایک سال 9ماہ تک نہایت خوش اسلوبی اور بیدار مغزی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام دئیے ۔ خلیفہ ثالث  کے عہدِ حکومت میں تمام ملک شورش و فتنہ پردازی کا آماجگاہ ہو گیا۔ 35 ھ میں خلیفہ وقت نے اس شورش کے اصلی اسباب کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن مرتب کیا ۔ حضرت عمار بن یاسر ؓ بھی اس کے ایک رکن قرار پائے اور فتنہ پردازی کے اصل مرکز صوبہ مصر کی طرف روانہ کیے گئے ۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے مولا علیؓ خلیفہ بنائے گئے۔ حضرت عمارؓبن یاسر کو ان سے جو خاص انس و خلوص تھا اس کے لحاظ سے تمام امور میں وہ ان کے دست و بازو ثابت ہوئے۔ ماہ جمادی الثانی 36 ھ میں جنگ جمل کا آغاز ہوا۔ دونوں طرف کی فوجیں مقام ذی قار میں مجتمع ہوئیں ۔ زبیر بن عوامؓ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عمارؓ بن یاسر بھی حضرت علی ابن ابی طالب ؓکے ساتھ ہیں تو انہیں نظر آنے لگا کہ وہ غلطی پر ہیں۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حق عمار بن یاسر ؓکے ساتھ ہے اور باغی گروہ ان کو قتل کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت علی بن ابی طالبؓ نے ایک ایسی بات یاد دلائی کہ وہ اس وقت اس خانہ جنگی سے کنارہ کش ہو گئے۔ جمعرات کے روز جنگ شروع ہوئی ۔ حضرت عمارؓبن یاسر میسرہ پر متعین تھے ، چوں کہ انہیں یقین تھا کہ وہ حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس لیے غیر معمولی جوش سے لڑے ، یہاں تک کہ حامیانِ خلافت کی فتح پر اس افسوس ناک جنگ کا خاتمہ ہوا۔ علی بن ابی طالبؓ کی خالص مذہبی سلطنت کو زمانہ برداشت نہ کر سکا۔ آپؓ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہو گئے جنہیں آپؓکی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا۔ آپؓ نے ان سب سے مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا۔ جمل، صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں، جن میں ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔
ایک روز شام کے وقت جب آفتاب غروب ہو رہا تھا اور جنگ پورے زور کے ساتھ جاری تھی، حضرت عمارؓ بن یاسر دودھ کے چند گھونٹ حلق سے فرو کرکے بولے ’’ رسولؐ خدا نے مجھ سے فرمایا ہے کہ دودھ کا یہ گھونٹ تیرے لیے دنیا کا آخری توشہ ہے‘‘، اور کہتے ہوئے غنیم کی صف میں گھس گئے کہ آج میں اپنے دوستوں سے ملوں گا، آج میں محمدؐ رسول اللہ اور ان کے گروہ سے ملوں گا۔ کچھ ایسے عزم و استقلال سے حملہ آور ہوئے تھے جس طرف نکل گئے پرے کا پرا صاف ہو گیا اور جس پر وار کیا ڈھیر ہوکر رہ گیا۔ واقف کار مسلمان ان پر ہاتھ اٹھانے سے پہلو بچاتے تھے، لیکن اسی حالت میں ابن الغادیہ کے نیزہ نے ان کو مجروح کر کے زمین پر گرا دیا اور ایک دوسرے شامی نے بڑھ کر سر تن سے جدا کر دیا۔
حضرت عمار بن یاسر ؓکی شہادت سے در حقیقت حق و ناحق کا فیصلہ ہو گیا ۔ حضرت خزیمہ بن ثابتؓ جنگ جمل اور معرکہ صفین میں شریک تھے لیکن اس وقت تک کسی طرف سے اپنی تلوار بے نیام نہیں کی تھی ۔ حضرت عمارؓ بن یاسر کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ انہیں حیدر کرار ؓکا ساتھ دینا چاہیے؛ چنانچہ اس کے بعد تلوار کھینچ کر شامی فوج پر ٹوٹ پڑے اور شدید کشت و خون کے بعد شہادت حاصل کی۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے جب اپنے مونس و جانثار کی شہادت کی خبر سنی تو آہ سرد کھینچ کر فرمایا ،’’ خدا نے عمارؓ بن یاسر پر رحم کیا، جس دن اسلام لائے، خدا نے رحم کیا، جس دن شہید ہوئے اور خدا ان پر رحم کرے گا۔ جس دن زندہ اٹھائے جائیں گے، میں نے ان کو اس وقت رسولؐ اللہ کے ساتھ دیکھا تھا جب کہ صرف چار یا پانچ صحابہ ؓکو اعلانِ ایمان کی توفیق عطا ہوئی تھی ۔ قدیم صحابہ ؓ میں سے کوئی بھی ان کی مغفرت میں شک نہیں کر سکتا، عمارؓ اور حق لازم و ملزوم تھے ، اس لیے ان کا قاتل یقیناً جہنمی ہوگا ، اس کے بعد تجہیز و تکفین کا حکم دیا ۔ حضرت عمارؓبن یاسر کا ہر ایک قدم صرف خدائے پاک کی خوشنودی و رضا مندی کی راہ میں اٹھتا رہا ۔ آپؓ کو خدائے واحد کی عبادت و پرستش میں خاص لطف حاصل ہوتا تھا رات رات بھر نماز اور وظائف میں مشغول رہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر انور پر اپنے فضل و کرم کی بارش برساتا رہے، آمین۔

جواب دیں

Back to top button