
تحریر: محمد مبشر انوار(ریاض)
انسانی فطرت ہے کہ وہ حالات کو تھوڑا سا موافق دیکھ کر بہت سی توقعات باندھ لیتا ہے اور گمان یہ کرتا ہے کہ آنے والا وقت بہت خوشنما اور خوش کن ہونے والا ہے لیکن مستقبل کے متعلق کی گئی اس کا گمان خال ہی درست ثابت ہوتا ہے۔ انفرادی طور پر چند شخصیات کو اللہ کر طرف سے ایسی صلاحیتیں ضرور عطا ہوتی ہیں جو حالات کا صحیح ادراک کرتے ہوئے، مستقبل کے حوالے سے صحیح رائے اخذ کر لیتے ہیں اور ان کے اندازے درست بھی ثابت ہو جاتے ہیں، ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہوتی البتہ کچھ احباب روحانی علم رکھتے ہیں، کشف کی منازل طے کر چکے ہوتے ہیں، لہذا ان کی دور اندیشی و حالات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر لینا کسی حد تک ممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر علوم کے ماہرین میں کسی زمانے میں دست شناس بہت زیادہ معروف رہے پھر یہ دور علم الاعداد کا علم رکھنے والوں کے نام رہا جبکہ آج کل آسٹرالوجسٹ اس شعبہ میں سبقت لیتے دکھائی دے رہے ہیں تاہم یہ حقیقت سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ ان علوم پر دسترس رکھنے کے باوجود وہ کسی غیب سے قطعی واقف نہیں البتہ روزمرہ زندگی میں جیسے دیگر سائنسدان ، اعداد و شمار کی بنیاد پر کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں، بعینہ آسٹرالوجر حضرات بھی ستاروں کی چال دیکھ کر مستقبل کے متعلق کچھ پیش گوئیاں ضرور کرتے ہیں، جن میں اکثر درست ثابت ہو جاتی ہیں جبکہ چند ایک پوری نہیں بھی ہوتی۔ جس کی توجیہ بالعموم یہی دی جاتی ہے کہ ستاروں کی ’’ متوقع‘‘ چال کے پیش نظر جو حساب کتاب یہ حضرات لگاتے ہیں، اسی کی مناسبت سے وہ مستقبل کے حوالے سے کرتے ہیں جبکہ ان حضرات کا کنٹرول بہرطور ستاروں کی چالوں پر نہیں ہوتا اور کبھی کبھار ستاروں کی چالیں غیر متوقع طور پر بدل بھی جاتی ہیں، جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ انسان بہرکیف حتمی طور پر مستقبل کے متعلق نہیں کہہ سکتا اور غیب کا علم صرف اور صرف اللہ رب العزت
کی ذات کو حاصل ہے، جو جب چاہے، جیسے چاہے اور جہاں چاہے، اپنی ’’ قدرت کاملہ‘‘ سے حالات کو تبدیل ’’ کرتا‘‘ ہے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بندے و اقوام کے حالات کی تبدیلی میں اللہ رب العزت کی طرف سے آفاقی قوانین طے ہیں اور جو افراد یا اقوام ان آفاقی قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہیں، وہ خواہ کلمہ گو ہوں یا ناں ہوں، انہیں جزا ضرور ملتی ہے اور ایسے افراد و اقوام ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتے ہیں۔ آفاقی قوانین پر عمل پیرا ہونے والے اگر کلمہ گو بھی ہوں تو ان کے لئے آخرت میں انعام و اکرام رکھا گیا ہے جبکہ غیر کلمہ گو افراد و اقوام کے لئے اسی دنیا میں جزا دے دی جاتی ہے کہ اللہ رب العزت کی ذات کا ’’ وصف منصفی ‘‘ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کے ساتھ بھی ناانصافی کرے اور نہ ہی اس سے یہ گمان رکھا جاسکتا ہے۔کرہ ارض پر عامیانہ نظر سے بھی دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ آج غیر مسلم اقوام ترقی و خوشحالی میں صف اول میں موجود ہیں جبکہ مسلم امہ کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ دکھائی دیتی ہے اور ہر جگہ خون مسلم انتہائی ارزاں اور رزق خاک ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی دکھائی دیتی ہے کہ امت مسلمہ کے کرتا دھرتائوں کی جانب سے اسلامی تعلیمات سے روگردانی تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے روگردانی اور ان قوانین کو رکھیل بنا کر رکھنے سے، معاملات کس نہج تک پہنچ چکے ہیںکہ ہر طرف افراتفری دکھائی دیتی ہے۔ غیر مسلم اقوام کی ترجیحات اور مسلم ممالک کی ترجیحات کا فرق انتہائی واضح دکھائی دیتا ہے کہ غیر مسلم ممالک میں طرز حکمرانی کا طریقہ کار طے کیا جا چکا ہے اور وہ اس پر پوری طرح عمل پیرا ہیں، دنیا کا طاقتور ترین شخص بھی
عدالتی کارروائی سے مبرا نہیں اور اس طاقتور شخص کو منتخب کرتے وقت، عوام الناس کی ترجیح کیا رہتی ہے، ساری دنیا کو علم ہے۔ خواہ منتخب ہونے والا شخص ٹرمپ ہی کیوں نہ ہو لیکن منتخب ہونے کے بعد، اس سے جو توقعات وابستہ کی جاتی ہیں، ان سے ہٹنے یا کسی بھی قانون کی خلاف ورزی پر اس کے ساتھ کسی قسم کا خصوصی سلوک روا نہیں رکھا جاتا۔ جبکہ دوسری طرف مسلم ممالک، بالخصوص مشرق وسطی میں آج بھی موروثیت و بادشاہی نظام جاری و ساری ہے البتہ اس نظام میں عوامی بنیادی حقوق کو بہرصورت محفوظ رکھنے کا پورا پورا انتظام ہے اور عوامی بہبود کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں، کسی کو کسی کا حق مارنے کی اجازت نہیں اور قانون کسی کی سماجی حیثیت سے متاثر نہیں ہوتا، دیگر مسلم ممالک میں طرز حکمرانی بالعموم پارلیمانی ہے لیکن پارلیمان، جسے جمہور کا نمائندہ ایوان کہا جاتا ہے، عوامی نمائندگان دکھائی نہیں دیتے، بلکہ پس پردہ طاقتوروں کے پروردہ ہی حکومت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان پروردہ شخصیات کی حیثیت ایک ربڑ سٹمپ سے قطعی زیادہ نہیں اور جو احکامات انہیں طاقتوروں کی جانب سے ملتے ہیں، وہ تن، من سے ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں، دھن کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ ذاتی دھن سے یہ پروردہ لوگ کسی کو ایک کپ چائے پوچھنے کے روادار نہیں اور اقتدار میں اسی لئے آتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مزید دھن کما سکیں۔ ریاستوں میں ایسے غیر
قانونی کاموں کو روکنے کے لئے ادارے و محکمے وجود رکھتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ان اداروں و محکموں کو کبھی بھی یہ اجازت نہیں ملی کہ وہ آزادانہ کام کر سکیں کہ ماضی میں ہمیں یکے بعد دیگرے آمریتیں نصیب ہوئیں، جنہیں بہرطور اقوام عالم میں عوامی حکومتیں قطعا تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان کے طریق کار سے کبھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ان آمریتوں کا ثمر یہ نکلا کہ ہم آزادی کے چند برسوں بعد ہی اپنا ایک بازو گنوا بیٹھے تو ان آمریتوں کے اثرات ہنوز قومی سیاست میں محسوس کئے جاسکتے ہیں، جس کا حالیہ ثبوت پیکا قانون ہے جس میں ہونٹوں کو سینے کی سعی کی گئی ہے، آزادی قلم کو محکوم بنانے کی کوشش کی گئی ہے، آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹا گیا ہے، بنیادی فرض سے روکا گیا ہے۔ مارشل لاء جنرل ایوب کا رہا ہو یا جنرل ضیاء کایاجنرل یحی کا رہا ہو ،ہر آمریت میں صحافی کی زبان بندی اور قلم کو پابندکرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، جنرل ضیاء کے دور میں پرنٹ میڈیا پر سنسر کے باعث، خالی اوراق کا بذات خود شاہد ہوں کہ پورے کا پوار کالم ہی خالی ہوتا تھا لیکن اخبار شائع ہوتا تھا۔ جنرل مشرف کو بہرصورت اس سے استثنیٰ رہا ہے کہ آج پاکستان میں میڈیا کی وسعت میں، جنرل مشرف کا بنیادی کردار رہا ہے، جس نے نہ صرف الیکٹرانک میڈیا کو فروغ دینے کے لئے بے شمار اجازت نامے جاری کئے تو اس کے ساتھ ساتھ جو حوصلہ تنقید سننے کا جنرل مشرف نے بالعموم دکھایا، وہ کسی بھی دوسرے آمر سے بہتر تھا تاہم چند ایک واقعات ایسے ہیں کہ جس میں مشرف نے بھی روایتی آمر کا کردار ادا کیا اور صحافیوں کا ناطقہ بند کیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں عوامی قائد، بھٹو کو میڈیا پر سخت ترین پابندیوں کے باعث جو نقصان پہنچا اور جنرل ضیاء کو بھٹو کو پھانسی دینے میں جو سہولت میسر رہی، آج ایسی سہولت کا تصور قدرے مشکل ہے کہ آج میڈیا فقط پرنٹ اور کنٹرولڈ الیکٹرانک میڈیا تک محدود نہیں رہا۔ جدید ٹیکنالوجی نے ہر دوسرے شخص کو میڈیا پرسن بنا کر رکھ دیا ہے اور ہر شخص جو ہاتھ میں سمارٹ فون رکھتا ہے، وہ میڈیا پرسن ہی تصور ہوتا ہے۔ تاہم ایسے میڈیا پرسنز کی چونکہ باقاعدہ تربیت نہیں ہوتی، نہ اس پر کوئی پالیسی لاگو ہوتی ہے، لہذا اسے کسی حد تک مس گائیڈڈ میزائل سے تشبیہ دی جا سکتی ہے لیکن شعبہ صحافت سے منسلک وہ لوگ، جنہیں حکمرانوں نے اپنے روزی روٹی کمانے سے بھی محروم کر رکھا ہے، ان کے لئے یو ٹیوب چینل موجود ہیں، جن پر وہ نہ صرف اپنا مافی الضمیر بغیر کسی قدغن، بلا روک ٹوک اور بغیر کسی مصلحت کے بیان کر سکتے ہیں، حکمرانوں کے لئے درد سر بن چکا ہے۔ صحافیوں کا یہ طبقہ باقاعدہ تربیت یافتہ ہے لیکن زہر ہلاہل کو قند کہنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی حکمرانوں کے اشارہ ابرو پر اپنی صحافت کرنا چاہتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض منصبی یہی ہے کہ عوام کو حقائق ٹھیک ٹھیک بتائیں، خواہ اس کے لئے انہیں کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ اصولا ہونا تو یہی چاہئے کہ اگر حکومتی صحافیوں کو اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت ہے تو حزب مخالف کا موقف پیش کرنے سے روکا کیوں جاتا ہے؟ اتنا حوصلہ پیدا کریں کہ دوسرے کا موقف بھی سن سکیں، یہ کون سی اور کیسی جمہوریت ہے کہ فریق مخالف کا گلا گھونٹ کر اپنی مرضی سے جو دل چاہے، عوام کو دکھائو ؟ ۔ 8فروری کے انتخابات کے بعد، مجھے بھی یہ گمان تھا کہ انتخابی نتائج پر طاقتوروں کو اپنی مٹھی کھولنی پڑے گی، یہ میری ذاتی رائے تھی جو حالات کی مناسبت سے تھی بعد ازاں عالمی حالات بالخصوص امریکہ میں ٹرمپ کے منتخب ہونے اور پس پردہ مذاکرات کے ادوار کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا تھا کہ مٹھی کھلنے کو ہے لیکن موجودہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے نہیں لگ رہا ہے کہ اقتدار مستقبل قریب میں بھی عوام کو منتقل ہو کہ طاقت چھوڑنا آسان کام نہیں۔ گو کہ عمران خان کے دور حکومت میں بھی پیکا قانون منظور ہوا تھا لیکن موجودہ پیکا قانون کے مطابق تو ماحول کو مزید سخت کر دیا گیا ہے اور گھٹن مزید بڑھ گئی ہے۔





