Column

ایل پی جی بائوزرز میں چوری اور CO2کی ملاٹ کا خفیہ کھیل

تحریر : قادر خان یوسف زئی

ایل پی جی بائوزرز میں ہونے والے حالیہ دھماکے محض اتفاق نہیں بلکہ ایک ایسے خطرناک اور غیر قانونی عمل کا نتیجہ ہیں جس پر اگر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو یہ سلسلہ کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتا ہے۔ 27جنوری 2025ء کو ملتان کے صنعتی علاقے میں ایک ایل پی جی بائوزر زور دار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف قیمتی جانوں کا نقصان ہوا بلکہ شدید نقصان پہنچا۔ اسی روز ڈیرہ غازی خان کی تحصیل کوٹ چھٹہ میں انڈس ہائی وے پر ایک ریسٹ ایریا میں کھڑے ایل پی جی بازر میں بھی ایک دھماکہ ہوا۔ یہ واقعات محض ایک دن میں ہونے والے حادثے نہیں بلکہ ایسے رجحان کا تسلسل ہیں جس کی جڑیں ایک خطرناک دھندے میں پیوست ہیں۔ ایک ایسا دھندا جو نہ صرف ایل پی جی کی مبینہ چوری پر مبنی ہے بلکہ چوری شدہ گیس کی مقدار کو برابر رکھنے کے لیے ٹینک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2)شامل کرنے جیسا خطرناک طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔
ایل پی جی، جو کہ ایک اہم گھریلو اور صنعتی ایندھن ہے، عام طور پر پروپین (C3H8)اور بیوٹین (C4H10)پر مشتمل ہے جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2)ایک غیر آتش گیر گیس ہے جو عام طور پر ایندھن کے جلنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ان دونوں گیسوں کے ملنے سے ایل پی جی کی توانائی کی قدر کم ہو جاتی ہے، اور اگر CO2زیادہ مقدار میں شامل کرنے سے اس کے اثرات نہ صرف صارفین بلکہ صنعتی پیداوار اور فنی آلات پر بھی شدید منفی اثر ڈالتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر CO2اور ایل پی جی کا دبا غیر متوازن ہو جائے تو بائوزرز میں لیکیج یا دھماکے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
ایل پی جی کو عام طور پر 100سے 220 PSIکے درمیان دبائو پر ذخیرہ کیا جاتا ہے اور اگر اس کا دبائو 360 PSIتک پہنچ جائے تو دھماکہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ 400+PSIپر پہنچنے کے بعد بائوزر کے مکمل پھٹنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو زیادہ تر 290سے1000 PSIکے دبائو پر ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ اگر اس کا دبا اچانک بڑھ جائے تو یہ کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایل پی جی بائوزرز مختلف سائز میں دستیاب ہیں، لیکن عام طور پر ان کی گنجائش 40000لٹر سے 60000لٹر ہوتی ہے اور ان میں 25سے 30ٹن تک ایل پی جی ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔ لیکن جب ان ٹینکوں سے غیر قانونی طور پر 4سے 5ٹن ایل پی جی، چوری کرکے اس کے بدلے میں CO2 شامل کر دی جاتی ہے تو اس میں موجود حفاظتی نظام بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ جبکہ ایل پی جی بائوزر بھی قابل اعتماد نہیں۔
چوری شدہ ایل پی جی کو کمرشل سلنڈرز میں منتقل کیا جاتا ہے اور CO2کو ہائی پریشر پر بائوزر میں انجیکٹ کیا جاتا ہے تاکہ دبائو میں کوئی غیر معمولی تبدیلی محسوس نہ ہو اور چوری پکڑی نہ جاسکے۔ چونکہ CO2ایک بھاری گیس ہے، اس لیے یہ باءوزر کے نچلے حصے میں جمع ہو جاتی ہے اور اوپر کی سطح پر ایل پی جی موجود ہوتی ہے۔ ایل پی جی بائوزرز سے گیس چوری کا یہ دھندا اسی طرح چلتا رہا تو مستقبل میں اس کے ناقابل تلافی اثرات پڑیں گے کیونکہ غیر معیاری ایل پی جی مارکیٹ میں فروخت ہونے سے انڈسٹری میں نقصانات بڑھیں گے اور ملکی سطح پر ایندھن کی کھپت میں بے جا اضافہ ہوگا۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ دھندا زیادہ تر پنجاب میں ہو رہا ہے جہاں ایل پی جی کا استعمال زیادہ ہے اور غیر قانونی گیس ریفلنگ پوائنٹس کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ متعلقہ حکام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس دھوکہ دہی سے یا تو لاعلم ہیں یا پھر اس کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو باضابطہ طور پر ایل پی جی کی مقدار، پریشر اور اس میں موجود اجزاء کی جانچ پڑتال کرے۔ ہر حادثے کے بعد روایتی بیانات تو دئیے جاتے ہیں، تحقیقات کا حکم بھی جاری ہوتا ہے، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ اگر حکام نے فوری طور پر اقدامات نہ کیے تو یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا جائے گا اور مستقبل میں مزید حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔ ان غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بائوزرز سے ایل پی جی چوری ہونے کے واقعات کو روکنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کی مستقل بنیادوں پر جانچ پڑتال ضروری ہے تاکہ کسی بھی غیر معمولی سرگرمی کو فوری طور پر پکڑا جا سکے۔ وزن اور پریشر کی سخت نگرانی کی جانی چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا کسی بائوزر میں CO2شامل کی گئی ہے یا نہیں۔
ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ اس دھندے میں ملوث عناصر کو قانون کے شکنجے میں لانا ہوگا اور ان پر سخت جرمانے اور سزائیں عائد کرنی ہوں گی تاکہ مستقبل میں کسی کو اس غیر قانونی عمل کو دہرانے کی جرات نہ ہو۔ جس طرح 2019 ء میں بھارت میں ایل پی جی ٹینکر دھماکہ ہوا، جس کے بعد حکومت نے ایل پی جی ٹرانسپورٹ کے معیارات سخت کر دئیے اور چوری پر عمر قید کی سزا نافذ کی۔ چین نے غیر قانونی ایل پی جی ملاوٹ کے خلاف حکومت نے 3سال میں 2500غیر قانونی ایل پی جی پوائنٹس بند کئے اور 1000سے زائد افراد گرفتار کئے۔ یورپ اور یورپی ممالک میں ایل پی جی میں کسی بھی گیس کی ملاوٹ جرم قرار دی گئی ہے اور خلاف ورزی پر کمپنیوں کو لاکھوں یورو کا جرمانہ اور لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے۔
ایل پی جی کی چوری اور CO2کی ملاوٹ ایک سنگین جرم ہے، جو عوام کی جان و مال کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ یہ چوری نہ صرف مالی نقصان کا باعث بنتی ہے بلکہ حفاظتی اور تکنیکی خطرات بھی پیدا کرتی ہے۔ ایل پی جی میں CO2 شامل کرنا نہ صرف خطرناک دھوکہ دہی ہے بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع اور قومی معیشت کو نقصان پہنچانے والا ایک بڑا جرم بھی ہے۔ اگر اس چوری اور غیر قانونی دھندے کو فوری طور پر روکا نہ گیا تو مزید تباہ کن دھماکے، جانی نقصان، اور معاشی تباہی دیکھنے کو ملے گی۔ ایل پی جی باوزر ز کی اسمگلنگ میں گیس چوری کا یہ بھیانک کھیل کو روکنا ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button