آرٹ کی دنیا کا درخشاں ستارہ: محمد علی بخاری

تحریر : خالد محمود
محمد علی بخاری نے نہ صرف خطاطی بلکہ دیہاتی زندگی کی عکاسی اور نیم تجریدی آرٹ میں بھی اپنی شناخت بنائی ۔ محمد علی بخاری ایک طاقتور دلکش دیہی منظر نگار، خطاطی اور نیم تجریدی فنکار کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔ وہ ہمہ جہت فن کار، جنہوں نے نہ صرف خطاطی بلکہ دیہاتی زندگی کی عکاسی اور نیم تجریدی آرٹ میں بھی اپنی شناخت بنائی۔ فن خطاطی بنیادی طور پر لکھنے اور تحریر کرنے کی ایک شکل ہے۔ لکھنے کا تصور ہمیشہ سے رہاہے البتہ اس کی نوعیت مختلف اوقات میں مختلف رہی ہے تاہم دلکش دیہی منظر نگاری اور نیم تجریدی آرٹ دور جدید کا تحفہ ہیں تاہم ان کی جڑیں بھی ماضی سے جڑی ہوئی ہیں۔ خطاطی کا فن دنیا کے ہر گوشے میں اور ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ یہ فن دراصل خوش خطی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ رومن، لاطینی، عربی زبانوں میں یہ فن خطاطی کافی مقبول ہے۔ پاکستان میں بھی کئی فنکاروں نے خطاطی میں بڑا نام پیدا کیا۔ جدید دور میں محمد علی بخاری المعروف ایم اے بخاری نے خطاطی کے فن کو اس طرح استعمال کیا کہ سیکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔ رابعہ زبیری کے کراچی اسکول آف آرٹ کے ایک سابق طالبعلم، بخاری نے روم کے البومان اسکول آف آرٹس میں اپنی 2سالہ تربیت کے دوران خوبصورت انداز میں اپنی صلاحیتوں سے متاثر کیا۔ بخاری روشن رنگوں کے استعمال کے لئے مشہور ہیں، جس نے ان کے کام کو دوسروں سے ممتاز بنایا، ان کا برش کینوس پر انتہائی مہارت کے ساتھ مصوری کی تشکیل کرتا ہے۔ مرحوم اسماعیل گل جی کے ساتھ ایک مختصر رفاقت نے انہیں اس انداز میں نمایاں طور پر رنگ برنگے رنگوں کے استعمال میں ماہر کر دیا کہ لگتا ہے کہ وہ گل جی کے فن کو توسیع دے رہے ہیں۔ وہ پاکستان اور بین الاقوامی سطح کے منظر نامے میں بھی ایک نمایاں شناخت رکھتے ہیں، بخاری نے اپنے فن پاروں میں پھولوں اور سمندری طوفانوں کا شاندار مظاہرہ کیا ہے جو آہستہ آہستہ لیکن مضبوطی سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ رنگوں کی جذباتی پرتوں پر تہہ لگانے میں ان کی مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کے احساس کے ساتھ آہستہ آہستہ مزید نمایاں ہو رہے ہیں۔ نقاشی کے چاقو کے ذریعے کینوس پر آئل رنگ کی تہوں سے نمٹنے کا عصری طریقہ کار بڑی تدبیر سے لگایا گیا ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی اطالوی تربیت نے رنگین پلے کی ایجاد میں ان کے وژن کو ایک ایسی پختہ شکل دے دیئے جو تخلیق اور مہارت کی عکاسی کرتی ہے۔ عمودی منظر کشی میں روشن چمکتے ہوئے پھول ایک ایسی تکنیک ہے جسے مصور نے وضع کیا ہے، جس نے فطرت کو ظاہر کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے جیسے اس کے بڑے بڑے کینوسوں پر زمرد پھولوں کے جھنڈوں پر اتر رہا ہے! ’’ اسم اعظم‘‘ کی تصنیفات میں اپنے انفرادیت پسند عربی خطاطی کا بصری اثر دینے کے لئے، محمد علی بخاری نے ایک نشتر نما قلم تیار کیا ہے تاکہ وہ خطوط کو تیل کے رنگ کی تہوں میں نقش کر سکیں۔ اس تکنیک نے ان کی اہمیت میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ ہر کام تیزی سے کرنے والی جمالیاتی آرائش سے فن پاروں کی گہرائی مزید
نمایاں ہوتی ہے۔ عربی رسم الخط کی خوبصورتی اور خوشنودی کا لطف اٹھانے والوں کے لئے ان کا ’’ اسم اعظم‘‘ مزید خوشگوار ہوتا ہے۔ بخاری نے ملک اور بیرون ملک ذاتی اور بہت سے گروپ شوز کیے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور بیرون ملک خاص طور پر شمالی امریکہ میں متعدد ذاتی اور گروپ نمائشیں کیں۔ بخاری 1975ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1996ء میں کراچی سکول آف آرٹس سے فائن آرٹس میں 4سالہ ڈپلوما مکمل کیا۔ رابعہ زبیری کے کراچی اسکول آف آرٹ کے سابق طالب علم، ایم اے بخاری نے کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد، فنون کی پیاس بجھانے کے لئے، کراچی اسکول آف آرٹ سے فائن آرٹس میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ فن کی اندرونی پیاس بجھانے کے لئے وہ روم چلے گئے، جہاں سے انہوں نے اٹلی کے البومان اسکول آف آرٹس سے اسکالر شپ پر ایڈوانس پینٹنگ میں ایک سال کا کورس کیا۔ اپنی انتہائی متاثر کن اور جاندار پرفارمنس پر انہیں متعدد سرکاری ایوارڈز اور تعریفی اسناد حاصل کیں۔ انہوں نے وزارت آبادی اور منصوبہ بندی سے طلائی تمغہ جیتنے کے علاوہ، دو صادقین ایوارڈز بھی جیتے۔ انہیں پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں دو دیواری کمیپٹیشن پینٹنگز کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بخاری نے انتہائی ذہانت کے ساتھ جدید کیوبزم اور عربی لفظ کو جوڑ کر اپنی نوعیت کی انوکھی خطاطی تشکیل دی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسا منظر نامہ نکالا جاتا ہے جو تھرمسلم اور جدیدیت کا بیان ہے۔
اس سے جمالیاتی نتائج سامنے آتے ہیں۔ بخاری ایشین انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن کراچی کے فیکلٹی ممبر بھی ہیں۔ بخاری نے اپنے فن کو وسعت دینے اور اس کے فروغ کے لئے8برس تک مختلف پلیٹ فارمز سے ورکشاپ منعقد کرائے۔ 2003۔2011تک انہوں نے ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کا پلیٹ فارم استعمال کیا جبکہ2004۔2010تک کراچی اسکول آف آرٹس کے پلیٹ فارمز سے ورکشاپس منعقد کراتے رہے۔ انہوں نے اپنے فن پاروں کی پہلی ذاتی نمائش 1998 میں شیرٹن ہوٹل کراچی میں کی، اپنے فن پاروں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ذاتی نمائشوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ 2002ء میں زینانی آرٹ گیلری، کراچی،2003 ء میں چوکنڈی آرٹ گیلری، کراچی، 2004ء میں کلفٹن آرٹ گیلری، کراچی، 2005ء میں خانہ بدوش آرٹ گیلری، کراچی، 2006ء میں اعجاز آرٹ گیلری، لاہور، اور دوبارہ2006ء میںکروئٹرز آرٹ گیلری، لاہور میں منعقد کی۔ اگلے سال یعنی 2007ء میں انہوں نے تین سولو آرٹ ایگزیبیشن منعقد کیں۔ ان میں سے پہلی کلفٹن آرٹ گیلری، کراچی، دوسری خانہ بدوش آرٹ گیلری، اسلام آباد اور تیسری آبائی آرٹ گیلری، لاہور پر منعقد ہوئی۔2008 ء میں آرٹ اٹیک، دبئی، 2009ء میں آرٹ سین گیلری، کراچی، 2010ء میں آرٹ سین گیلری، کراچی، 2011ء میں تنزارہ آرٹ گیلری، اسلام آباد اور2012ء میں آزاد کردہ خواب ( ٹریوژن انٹرنیشنل آرٹ (ITALY)) میں منعقد کی۔ انہوں نے بوسٹن امریکہ میں 2002ء میں دو شاندار نجی شوز کامیابی کے ساتھ کئے۔ بخاری نے متعدد گروپ شوز میں بھی شرکت کی جس کا آغاز2007ء سے ہی ہو گیا تھا اور2012ء تک وہ مختلف گروپ شوز میں شرکت کرتے رہے۔2007ء میں زمبیل آرٹ گیلری کے زیر اہتمام سائوتھ ایشین؍ امریکن آرٹ فیسٹیول، گیلری ارینا 1، سانٹا مونیکا آرٹ اسٹوڈیوز، کیلیفورنیا، امریکہ،2007 ء میں انڈس اسٹروکس، ایشی جامی اور ریٹو جین کے زیر اہتمام، تاج محل اور ٹاورز، ممبئی، کے اشتراک سے گروپ شوز میں شرکت کی۔ 2008ء میں ہمالین فیسٹیول،کیلی فورنیا، امریکہ کے لئے، پیسفک ایشیا میوزیم کے ذریعہ منتخب نمائش،2008ء میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے فنکاروں کی، دہلی، ہندوستان میں نمائش،2008ء میں موڈز آف آرٹ، آبائی آرٹ گیلری، پاکستان اور آرٹ اٹیک گیلری دبئی کے زیر اہتمام منعقدہ آرٹ شو، 2010ء میں DUSTنمائش نیو یارک: ( آئی سی او گیلری یو ایس اے) اعجاز آرٹ گیلری کے تحت مسقط گروپ شو،2011ء میں گروپ شو آرٹ اسپیس،فلورنس اٹلی،2012ء میں دو پرسن شو، اوشین آرٹ گیلری لاہور اور2012ء میں ہی سنگاپور ( پاکستان سے فنکاروں کے جھرمٹ) میں شرکت کی۔
خالد محمود







