غیبی مدد غائب، نئے گھوڑے تیار

تحریر : سیدہ عنبرین
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا چوتھا دور نہیں ہو سکا، جس کے بارے میں یہ پراپیگنڈا جاری ہے کہ یہ مذاکرات پی ٹی آئی نے اچانک ختم کر دیئے ہیں، امر واقعہ یوں ہے کہ ان کی جانب سے تین ادوار کے بعد تک ہونے والی پیش رفت سے یقین ہو چلا تھا کہ حکومتی ٹیم صاحب اختیار نہیں، اس کا مینڈیٹ فقط کچھ وقت حاصل کرنا ہے، پس یہ جانتے ہوئے پی ٹی آئی کی طرف سے واضح کیا جا چکا تھا کہ اگر جوڈیشل کمیشن بنانے اور بے گناہ قیدیوں کو رہا نہیں کیا جاتا تو ان کی ٹیم چوتھے مذاکراتی رائونڈ کیلئے نہیں آئے گی۔ دونوں باتیں کہیں ہوا میں رہ گئیں لہٰذا چوتھے رائونڈ کی گنجائش باقی نہ رہی تھی اسے ’’ اچانک‘‘ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی ، یہ سب کچھ اظہر من الشمس تھا۔
حکومتی ٹیم کے پینتالیس منٹ انتظار پھر شام گئے تک رابطوں کی کوشش کرنے کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جا رہا ہے، جس کی ضرورت ہی باقی نہ بچی تھی، ایسے میں جناب رانا ثنا اللہ کی طرف سے ایک دلچسپ بیان آیا جس میں وہ کہتے ہیں پی ٹی آئی چوتھے رائونڈ کے مذاکرات کیلئے آ جاتی تو حکومت کے پاس اسے پیش کرنے کیلئے کچھ خاص موجود تھا، ان کا کہنا بالکل اسی طرح ہے جیسے روٹھے ہوئے بچے کو منانے کیلئے کہا جاتا ہے کہ ابو جی آ رہے ہیں اور تمہارے لئے چجی لا رہے ہیں۔ رانا صاحب کا خیال ہو گا کہ کچھ خاص کا سنتے ہی فریق ثانی دوڑتا چلا آئے گا، فریق ثانی چند برس عمر کا کا نہیں ہے، وہ سیاسی عمر کی کم از کم چالیس بہاریں دیکھ چکا ہے، اس نے اپنی زندگی میں ایسے کئی مذاکرات اور ایسی کئی پیشکشیں دیکھی ہیں جو روٹھوں کو منانے کیلئے کی جاتی ہیں، لیکن وعدوں کے مطابق نصف باتیں بھی پوری نہیں کی جاتیں، بعض مذاکرات اور ان کی طوالت کا مقصد دوسرے کا زور توڑنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، جو تلخ تجربات پی ٹی آئی کو حاصل ہوچکے ہیں، انہوں نے ان سے جو کچھ سیکھا ہے وہ سیاسی اثاثہ کسی اور کے پاس نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو 1966ء میں جنرل ایوب خان سے علیحدہ ہوئے، انہوں نے پیپلز پارٹی بنا لی، پانچ برس بعد وہ اقتدار کے قریب تر آ چکے تھے، چھٹے برس انہیں اقتدار منتقل ہوچکا تھا۔
مسلم لیگ کو اقتدار صرف اس لیے نہیں ملا تھا کہ وہ اپنے دور کی مقبول سیاسی جماعت تھی، بلکہ انہیں اقتدار اس لیے ملا تھا کہ بھٹو نے انہیں 1970ء کے انتخابات میں شکست فاش دی تھی اور اب بھٹو کی پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کیلئے انہیں آگے لایا گیا تھا کہ انتقامی جذبے سے وہ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے۔ ’’ ن لیگ‘‘ کا قیام بھی اس جذبے سے وجود میں آیا کہ بے نظیر کی شکل میں پیپلز پارٹی کی طاقت تمام تر کوششوں کے باوجود ختم نہ کی جا سکی تھی، آئی جے آئی ادھر آئی ادھر گئی۔ جنرل پرویز مشرف نے ن لیگ کو چلتا کیا تو ابتدائی پانچ برس گزرنے کے بعد سیاسی حکومت کی ضرورت محسوس کی گئی، یوں دیکھتے ہی دیکھتے ق لیگ کا بت تراش کر عجلت میں اس میں سیاسی روح پھونک دی گئی، انہیں کوئی جتن نہ کرنے پڑے، انہیں اقتدار دینے کا فیصلہ پہلے ہوا، جماعت بعد میں کھڑ ی کی گئی۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی کا سیاسی سفر بہت طویل ہے، وہ چھبیس برس بعد کہیں جا کر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے، ان پر جو مرضی کوئی الزام لگا لے کہ وہ فلاں کی مدد سے اقتدار میں آئے تو غور فرمائیے، فلاں فلاں نے کس کس کو اپنی شرائط اور اپنی مدد مہیا نہیں کی۔
مذاکرات کو بے ڈھنگے طریقے سے چلانے اور کسی انجام تک نہ پہنچانے کا بظاہر ایک ہی مقصد نظر آیا کہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نے حکومت کو تسلیم کر لیا ہے اور اس کے بعض خدشات کو دور کرنے کیلئے اس سے مذاکرات کیلئے جا رہے ہیں اور ملک میں رائج عظیم جمہوری روایات ختم نہیں ہوئیں بلکہ قائم ہیں۔ وہ زمانے گئے جب کسی ملک کی حکومت دنیا بھر کی حکومتوں کی آنکھ میں دھول جھونک لیا کرتی تھیں، اب زمانہ میڈیا سے آگے چل کر سوشل میڈیا تک آن پہنچا ہے۔ ذرائع ابلاغ لاکھ پابندیوں کی زد میں ہوں، حقائق کو منظر عام پر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، حتیٰ کہ وہ ملک بھی اپنے
مکروں کرتوں پر پردہ ڈالنے میں ناکام رہے جن کے پاس ہر قسم کی طاقت اور ہر قسم کے ذرائع موجود تھے۔ جناب حریری کے قتل پر کس قدر پردے ڈالے گئے، سچ بے نقاب ہوکر رہا۔ ہیلری کلنٹن کے انتخابات میں کہاں کیا کچھ ہوا، ہیلری کلنٹن انتخابات میں تو شکست کھا گئیں لیکن امریکی انتخاب کے چہرے سے بہت حد تک پردہ ہٹا گئیں۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان سال بھر سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی جنگ میں کس کس نے کیا کیا جھوٹ نہیں بولا، ایک دو نہیں، درجنوں مکار چہرے اور کردار آشکار ہوکر رہے۔ دنیا کو حقائق سے دور رکھنے کی کوشش ہر دور، ہر زمانے میں ہوتی رہی ہیں لیکن حق اور سچ سامنے آ کر رہتا ہے۔ پیکا قانون کے ذریعے ایک مرتبہ پھر مثبت نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ پاکستان بھر کا میڈیا آج سراپا احتجاج ہے، دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کا میڈیا اس کے ساتھ آ کھڑا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ 2016ء سے شروع ہوا تھا آج اس کا چوتھا ایڈیشن مارکیٹ کیا گیا ہے۔ نوے فیصد تو سر اور لے کے ساتھ پسندیدہ راگ الاپ رہے تھے، فقط دس فیصد تھے جو آزادانہ صحافت کی روش چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے، لہٰذا اب اس قانون کے ہتھوڑے سے سب کے سر پھوڑنے میں آسانی ہوگی۔ یوں لگتا ہے جیسے پیشتر کام اضطراری کیفیت میں کیے جا رہے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو رہا لے گیا چھین کے کون آج تیرا صبر و قرار بے قراری، تیری اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ بات کرنی مجھے، مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ جے یو آئی کارڈ کی چال ایک مرتبہ پھر چلی گئی ہے کامیاب نہ ہو گی۔ سرکاری صفوں سے ’’ مدت پوری کریں گے ‘‘ کے نعرے تو بلاناغہ سنائی دیتے ہیں، درپردہ کہیں الیکشن کی تیاری بھی نظر آتی ہے، ترقیاتی فنڈز کے منہ کھولے جانے کی خبریں ہیں، کئی ارب روپے جاری کئے جا چکے ہیں۔ گھر، پلاٹ، لیپ ٹاپ مختلف قسم کے سہولت کارڈ اور لاکھوں کے قرضے زمانہ جنگ میں جاری نہیں کئے جاتے، یہ رونق تو اس وقت لگتی ہے جب الیکشن سر پر ہوں اور گھمسان کا رن پڑنے کی توقع ہو الیکشن کٹ ہونگے۔ اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن گزشتہ انتخابی نتائج کے حوالے سے سننے میں آ رہا ہے کہ اقتدار میں شامل تمام جماعتیں ایک اپوزیشن جماعت کا ملکر مقابلہ کریں گی۔ یہ مقابلہ یوں پہلی مرتبہ نہیں ہوگا، اس سے قبل بھی یہ شوق پورا کیا جا چکا ہے، پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اکٹھے ہوئے، پھر بے نظر بھٹو کے خلاف اکٹھے ہوئے، آخری مرتبہ خان بابا کے خلاف اکٹھے ہوئے، ہر مرتبہ تکیہ غیبی مدد پر تھا۔ آنے والے الیکشن میں اگر غیبی مدد ہو گئی تو پھر نتیجہ کیا ہوگا؟۔ امریکی انتخابات میں سی آئی اے بری طرح ناکام ہوئی ہے، جو اپنے یہاں کچھ نہیں کر سکے، وہ اب کہیں اور کیا کر لیں گے، اس کا جواب وقت دے گا ان کے نئے گھوڑے تیار ہو رہے ہیں۔





