Column

مذاکرات سے انکار

تحریر : اللہ نواز خان
سیاسی تنائو کو ختم کرنے کے لیے پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کئے جا رہے تھے کہ اعلان ہوا مزید مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ توقع ہوگئی تھی کہ برف پگھل رہی ہے اور حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن مذاکرات پھر تعطل کا شکار ہو گئے۔ اس وقت پاکستان بہت بڑے بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔ اندرون ملک بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے اور بیرونی طور پر بھی کئی مسائل پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی عوام سخت مایوسی کا شکار ہو رہی ہے۔ بڑھتی مایوسی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اداروں اور عوام کے درمیان کافی فاصلے بڑھ چکے ہیں۔ سیاسی پیچیدگیاں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہیں اور حکمران چاہتے ہیں کہ ان مسائل کا حل نکل آئے۔ افغانستان کی طرف سے دہشت گردی بھی کی جا رہی ہے اور انڈیا بھی پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے دہشت گردی کر رہا ہے۔ کچھ اور طاقتیں بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کی سلامتی غیر محفوظ ہو جائے۔ جتنا بھی انکار کیا جائے، لیکن یہ ایک بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ پی ٹی آئی ایک حقیقت بن چکی ہے اور اس کی مضبوطی نے حکمرانوں کا چین چھین لیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان اس وقت قید میں ہیں، لیکن ان کی مقبولیت بہت بڑی ہوئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات ہو جائیں اور پی ٹی آئی بھی چاہتی ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں اپنے آپ کو مضبوط پوزیشن پر رکھنا چاہتے ہیں اور دونوں کی خواہش ہے کہ مذاکرات ان کی خواہشات کے مطابق ہوں۔ ظاہر ہے دونوں اپنی خواہشات پوری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس لئے کچھ ایسے حل کی طرف بڑھا جائے جس سے حالات بہتر ہو جائیں۔
یہ مذاکرات اس لیے اختتام پذیر ہوئے کیونکہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ حکومت جوڈیشل کمیشن بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن نہ بنانے پر حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ مذاکرات کچھ عرصے سے جاری تھے اور امید پیدا ہو گئی تھی کہ یہ کامیاب ہوں گے، مگر افسوس کہ ناکام ہوگئے۔ سیاسی قیدیوں کو رہا نہ کرنا اور جوڈیشل کمیشن کا نہ بننا، مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بنا ہے۔ حکومتی کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کب کہا کہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنائیں گے۔ عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ مطالبات کو پیش کرنے میں 40دن لگے لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ سات دن کے اندر ان تمام نکات کا جواب دیں اور ہماری شرائط کے مطابق جوڈیشل کمیشن بنائیں۔ اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ فوری طور پر جواب دینے میں اگر کوئی رکاوٹ پیش آرہی ہے تو اس رکاوٹ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ اس کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں اور ان کے مطالبات درست ہیں، حکومتی موقف کے مطابق قانون کے دائرے میں سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ اب بھی امید نہیں ٹوٹی کہ مذاکرات ختم ہوں گے بلکہ ان مذاکرات کا نتیجہ بہترین نکلے گا۔ اس بات کی توقع رکھنی چاہیے کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جا سکتا ہے اور جوڈیشل کمیشن بھی بنایا جا سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن نو مئی اور چھبیس اکتوبر کے واقعات پر بنانے کی شرط پیش کی گئی ہے۔ حالات بہت ہی نازک رخ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کا انجام خطرناک ہو سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر ہر ایک اپنا مثبت کردار ادا کرے۔
ان غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے، جنہوں نے بڑے نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان کو درست کرنیکی ضرورت ہے مزید تاخیر مسائل میں اضافہ کرے گی۔42دن ہو گئے ہیں کہ مذاکرات جاری تھے، اب فوری طور پر ان کو منقطع کرنا درست نہیں بلکہ حکومت کو موقع ملنا چاہیے تاکہ وہ بھی اپنے اتحادیوں سے مشاورت کر سکے۔ حکومت کو بھی لچک دکھانی چاہیے، کم از کم ان سیاسی قیدیوں کو رہا کر دینا چاہیے، جنہوں نے کوئی بڑا جرم نہیں کیا۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی ایک پیغام ہوگا کہ حکومت ملک کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہے۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ ہر ایک کو قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ پریشان کن حالات پاکستانی عوام کو مایوسی کی حد تک لے آئی ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ فوری طور پر عدالتی کمیشن بھی نہیں بن سکتا، لہٰذا کچھ وقت دینے کی ضرورت ہے، لیکن کم از کم کچھ سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ حکومت کی وجہ سے ادارے بھی بدنام ہو رہے ہیں۔ اداروں کی ساکھ مضبوطی سے قائم ہوتو ملک مضبوط ہوتا ہے۔
برپا ہونے والی عالمی تبدیلیوں سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے۔ کہیں جنگیں جاری ہیں، کہیں سیاسی تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور کہیں ایسے منصوبے بنائے جا رہے ہیں جو عالمی معیشت کو متاثر کریں اور پاکستان بھی ان مسائل سے متاثر ہو رہا ہے۔ بیرونی طور پر بھی ایک مضبوط موقف اپنانے کی ضرورت ہے اور موقف کی مضبوطی تب ہوگی جب ملک کا سیاسی انتظام مضبوط ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی بحران دیگر کئی بحرانوں کو جنم دے رہا ہے، لہٰذا سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ پاکستان اگر اندرونی انتشار کا شکار ہو گیا تو مسئلہ بہت ہی بگڑ جائے گا۔ شام، لبنان اور دیگر کئی ممالک جو اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے متاثر ہوئے، ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان مخالف غیر ملکی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان مضبوط ہو اور دنیا میں اپنا مقام پیدا کر کے عالمی سطح پر اپنی بہتر پہچان بنائے۔ عدالتی کمیشن بنانے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اس کمیشن سے مطمئن نہ ہو یا بعد میں کئے گئے فیصلوں پر اعتراض کرے، لہٰذا مصلحت اختیار کی جانی چاہیے۔
مذاکرات سے کچھ نہ کچھ مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ کئی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ انہوں نے مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل پر قابو پایا۔ اسلامی تاریخ کے مطابق امام حسنؓ نے دو گروہوں کو صلح کرنے پر قائل کیا، اگر وہ صلح نہ کراتے تو بہت ہی خون خرابہ پھیلتا، اسلامی اور دنیا کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں مل جاتی ہیں۔ نیلسن منڈیلا 27برس قید میں رہے، قید کے دوران ہی بیماری کا شکار ہوئے۔ قید کے دوران بھی اور رہائی کے بعد بھی مذاکرات کئے اور بات چیت کے ذریعے بہت سے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور آخر کار ملک کو بحرانوں سے نکالنا ممکن ہوا۔ بات چیت یا مذاکرات کے دوران کچھ نہ کچھ ایسے پوائنٹ آ جاتے ہیں جن کو مخالف فریق قبول نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایک یا زیادہ پوائنٹس نہ قابل قبول ہوں تو ان کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، نہ کہ مذاکرات ختم کر دینے چاہئیں۔ مذاکرات کے لیے ہر فریق کو سنجیدگی دکھانی ہوگی، تب ہی مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے، حالانکہ بہت سا نقصان بھی ہو چکا ہے لیکن اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔ مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
اللہ نواز خان

جواب دیں

Back to top button