پیکا قانون تحفظ یا عدم تحفظ

تحریر : روہیل اکبر
آج کل حکومت نے صحافیوں کو مصروف رکھنے کے لیے پیکا بل منظور کرلیا گیا ہے، جو تحفظ کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ بھی ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ جو کام حکومت کے کرنے والے ہیں ان پر توجہ نہیں، بلکہ خوامخواہ عوام کو مصروف رکھنے کے لیے کبھی عدالتی نظام کو چھیڑا جاتا ہے تو کبھی صحافتی نظام کو، حالانکہ یہ دونوں نظام وہ کام کر رہے ہیں جو حکومت کو کرنا چاہیے۔ صحافی اور جج نہ تو عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں اور نہ ہی ایرے غیرے اور نتھو خیرے ہوتے ہیں، بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، حساس ذہنوں کے مالک اور سمجھ بوجھ رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، جو اپنی محنت اور قابلیت کی وجہ سے دن رات عوام کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر یہ دونوں قسم کے لوگ پاکستان میں نہ ہوں تو پھر آپ کو ہر طرف غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسان نظر آئیں، عوام کی جان و مال کا تحفظ اور انہیں عزت دینا ہمارے حکمرانوں کا کام ہے، جو کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے انہوں نے ہی عوام کو سسکنے، بلکنے اور مار کھانے کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔ اس وقت ہر ادارے میں عوام کو ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے، خاص کر پولیس نے تو غنڈہ گردی کی اخیر کر رکھی ہے اور رہی سہی کسر ہماری سی آئی اے نے پوری کر رکھی ہے، جس کو جہاں سے مرضی اٹھا لیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور تو اور پکڑنے کے بعد بدترین تشدد تو ہوتا ہی ہے، ساتھ میں اس کی اطلاع بھی کئی کءی دن نہیں دی جاتی۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ صحافت کو پابند سلاسل کرنے کی بجائے اداروں کا قبلہ درست کرے، جبکہ پیکا بل کو اتنا سخت نہ بنائے کہ عام لوگوں کی آواز اٹھنا ہی بند ہوجائے۔
ویسے پیکا ایکٹ ترمیمی بل2025کیا ہے؟، پیکا قوانین میں ترامیم سوشل میڈیا پر غلط خبروں کے پھیلائو کو روکنے کیلیے کی گئی ہیں تاکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص یا ادارے کو بدنام نہ کرے ایوان سے منظور شدہ پیکا آرڈیننس بِل کو دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز( ترمیمی) بل 2025کا نام دیا گیا ہے۔ پیکاقوانین کے مجوزہ ترمیمی بل کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا اور ذیلی دفتر صوبائی دارالحکومتوں میں بھی قائم کیا جائے گا۔ ترمیمی بل میں کہا گیا کہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کرے گی، اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کی تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی، پیکا ترمیمی قوانین کے مطابق سوشل میڈیا پر غیرقانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہوگا۔ اتھارٹی کل 9اراکین پر مشتمل ہوگی ، سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو ارکان ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔ چیئرمین اور پانچ ارکان کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لئے کی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، ایکس آفیشل اراکین کے علاوہ دیگر پانچ اراکین میں دس سالہ تجربہ رکھنے والاصحافی، سافٹ وئیر انجنئیر، ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ بل کے مطابق چیئرمین اتھارٹی سوشل میڈیا پر کسی بھی غیرقانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دینے کا مجاز ہوگا، اتھارٹی کا چیئرمین اور اراکین کسی دوسرے کاروبار میں ملوث نہیں ہوں گے، نئے ترمیم شدہ پیکا آرڈیننس کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنیکی مجاز ہوگی۔ اتھارٹی آرمڈ فورسز، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیرقانونی مواد کو بلاک کرنیکی مجاز ہوگی۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیی گئے مواد کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں کیا جا سکے گا، پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ نہیں کیے جا سکیں گے، ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کی جائے گی، سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی، پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025کے تحت ٹربیونل کا قیام لایا گیا ہے۔ ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لئے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی۔ ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا، ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ پیکا ترمیمی بل کے تحت فیک نیو زپھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ سوشل میڈیا پر غیرقانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لئے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوگا، جس کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوگی۔ اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے، نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔ منظور شدہ بل میں پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق سیکشن 26( اے) کو شامل کیا گیا ہے، جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کیخلاف سزا سے متعلق ہے۔ فیک نیوز یعنی جعلی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر اب نہ صرف پانچ سال تک کی قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے، بلکہ اسے ناقابل ضمانت جرم بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت کارروائی کرنے کیلیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گرفتاری کے لیے کسی وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، جبکہ پیکا آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس ترمیم میں فیک نیوز کی تشریح نہیں کی ہے، جس سے اس کا غلط استعمال ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں الیکٹرانک کرائم روکنے کیلئے پیکا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے، جبکہ صحافتی تنظیموں نے پیکا ایکٹ میں ترامیم کا بل مسترد کر دیا ہے، حکومت کی کسی بھی اتحادی جماعت کی جانب سے پیکا ایکٹ ترمیمی بل2025 کی مخالفت نہیں کی گئی۔ صرف اپوزیشن کی جانب سے بل پیش کیے جانے سے قبل ہی واک آئوٹ کیا جا چکا تھا۔ پیکا ترمیمی بل کیخلاف صحافتی تنظیموں نے احتجاج کے ساتھ واضح اعلان کیا ہے کہ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائیگا، جہاں سے انصاف کی توقع ہے۔







