مجھے ہے حکم اذان ۔ ۔ ۔

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
خیر و شر، حق و باطل کی لڑائی ازل سے چل رہی ہے اور ابد تک جاری رہنے والی ہے تاوقتیکہ قیامت اور روز حشر بپا نہ ہوجائے تاہم اللہ رب العزت کا یہ وعدہ ہے کہ خیرو حق غالب آ کر رہیں گے۔ مخلوق خدا کرہ ارض پر اپنی عقل و فہم و فراست و علم کے مطابق بروئے کار آتی ہے اور ان میں سے کچھ حق و خیر کے راستے پر چلتے ہوئے، اپنا نام رہتی دنیا تک امر کروا لیتے ہیں جبکہ شر و باطل کے پیروکاروں کا نام بھی تاریخ میں سیاہ حروف سے رقم ہو جاتا ہے۔ اسی پس منظر میں خلق خدا کا حساب بھی روز آخر ہونا ہے البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ریا کاروں کی نیکیوں سے متعلق انہیں اسی دنیا میں صلہ عطا کر دیا جائے گا جبکہ بے ریا کی کاوشوں کا صلہ تو خیر دنیا کار اندازہ ہی نہیں کر سکتا کہ یہ بندے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اہم ترین افراد کے حوالے سے، جنہیں دنیا میں کوئی منصب نصیب ہوتا ہے، اللہ کی طرف سے کچھ حدود و قیود و شرائط بیان کر دی گئی ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر، اللہ رب العزت سے صلہ حاصل کر سکتے ہیں ویسے تو ہر شخص جو اللہ کے احکامات کی پیروی کرتا ہے، یقینی طور پر اجر کا حق دار ہے لیکن مناصب پر فائز افراد کے لئی خصوصی احکامات اس امر کی غماضی کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت ان سے کیا چاہتا ہے۔ دنیا میں منصب عطا کرنے پر ان کی آخرت کا فیصلہ کیا جانا ہے اور بالخصوص عادل حکمران و عادل منصف کے لئے آخرت میں جو وعدے کئے گئے ہیں ، ان اکرامات کا تصور ہی کسی بھی شخص کے لئے انتہائی خیرہ کن ہے بشرطیکہ وہ اپنے منصب پر رہتے ہوئے، احکامات الٰہی کی پیروی و اطاعت کرے۔ پاکستانی نظام حکومت کی بات کریں کہ تو یہ واضح ہے کہ فی زمانہ ریاستوں میں آئین کی حیثیت بنیادی و مقدس دستاویز کی تصور ہوتی ہے، جبکہ کسی بھی اسلامی ریاست میں مقدس ترین قوانین قرآن و سنت سے مطابقت رکھنے والے ہی تصور ہوتے ہیں گو کہ پاکستانی آئین میں یہ درج ضرور ہے کہ حاکم اعلی اللہ کی ذات ہے اور قوانین کا اس کے احکامات کے مطابق ہی ہونگے لیکن بدقسمتی سے عملا ایسا نہیں ہے۔ بات یہاں تک رہتی تو بھی قابل قبول ہوتی لیکن ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ جو آئین ہم نے بنا رکھا ہے، ہم اس پر بھی کماحقہ عمل کرنے سے قاصر ہیں اور آئین طاقتوروں کے ہاتھوں ایک کھلونا بن چکا ہے، جس کو حسب منشاء جیسے چاہیں توڑ موڑ دیا جاتا ہے تا کہ آئین طاقتوروں کے لئے مکڑی کے جال سے زیادہ کی حیثیت نہ رکھے جبکہ کمزوروں کو پھانسنے کے لئے اس میں انتہائی سخت شکنجے ہیں کہ ایک بار کوئی کمزور اس جال میں پھنس جائے، پھر اس سے نکلنا ممکن نہیں۔ بہرکیف حقیقت یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ یہ چاہتا ہی نہیں کہ اس کے اقتدار کو کبھی زوال ہو اس مقصد کی خاطر وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا، اس کے لئے اسے خواہ آئین کی دھجیاں بکھیرنی پڑیں یا اداروں کا تاروپود ادھیڑنا پڑے، پوری کی پوری ریاستی مشینری کو یرغمال بنانا پڑے، اسے نہ کوئی شرم ہے اور حیا کہ اگر حکمران ہی قانون کی دھجیاں بکھیریں گے، خود کو قانون سے ماورا رکھیں گے تو معاشرے میں قانون کی بالادستی کیسے قائم ہو گی؟۔
ایسی ہی صورتحال سے ہمیں گزشتہ تین سالوں سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے بالخصوص گزشتہ فروری میں عام انتخابات کے بعد سے قوانین سے چھیڑ چھاڑ کی انتہا ہو چکی ہے۔ عدالتوں سے کئے گئے مقدمات کے فیصلوں پر عمل درآمد سے گریز کو شعار بنا یا جا چکا ہے اور ہر وہ فیصلہ جو اپنے مفادات کے خلاف ہے، اس پر مقننہ کی جانب سے قانون سازی کرکے، عدالتی فیصلوں کو بے اثر کیا جا رہا ہے جبکہ عدالتیں حیرانی سے اس تضحیک آمیز رویہ کو دیکھ رہی ہیںکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں کہ فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری حکومتوں پر ہوتی ہے، جو اپنی حکومت کے خلاف فیصلوں پر کیسے اور کیونکر عملدرآمد کریں؟، آئینی ضروریات کے برعکس، آئین کی من مانی تشریح کرتے ہوئے، جس طرح نامکمل ایوان ہوتے ہوئے بھی، آئینی ترامیم کی گئی ہیں، جس طرح عدالت عظمیٰ میں صرف ایک شخص کا راستہ روکنے کے لئے کاوشیں کی گئی ہیں، اس کے نتائج آج سامنے آ رہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ میں26ویں آئینی ترمیم کے بعد، مستفید ہونے والے جج صاحبان کا رویہ کیا ہے اور وہ کس طرح بدنیتی سے کی جانے والی اس ترمیم کے محافظ بنے بیٹھے ہیں۔ ایک منصف ہوتے ہوئے، ان سے توقع تو یہ ہے کہ وہ آئین و قانون کی حکمرانی میں اپنا کردار ادا کریں لیکن اس وقت جو مناظر عدالت عظمی میں دیکھنے کو مل رہے ہیں، ان سے یہ تاثر ہی مل رہا ہے کہ ایک طرف وہ جج صاحبان ہیں ، جو نہ صرف آئین و قانون و جیورس پروڈنس کی بات کرتے ہیں، انصاف کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ جج صاحبان ہیں، جن کو 26ویں آئینی ترمیم کے بعد غیر متوقع طورپر قبل از وقت ہی مناصب تفویض ہوئے ہیں اور وہ کسی بھی صورت ان سے الگ ہونے کے لئے تیار نہیں۔ اس میں بنیادی جیورس پروڈنس کی جس طرح دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، وہ صرف پاکستان جیسے ملک میں ہی ممکن ہے کہ مذکورہ آئینی ترمیم کے خلاف اس وقت تک تین درجن سے زائد رٹس عدالت عظمیٰ میں موجود ہیں اور اس ترمیم سے مستفید ہونے والے جج بضد ہیں کہ عدالت عظمیٰ کا آئینی بینچ ہی ان رٹوں کی سماعت کرے گا، یعنی اپنے خلاف ہونے والی رٹ کی سماعت بھی خود ہی کرنا مقصود ہے، جس کا مشاہدہ خال ہی دنیا میں کہیں دیکھا گیا ہو، ایسے میں انصاف کیسے ہو سکتا ہے؟، کیا آئینی بینچ کے جج صاحبان اپنے خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں؟، اگر ان میں اتنی اخلاقی جرآت ہوتی یا انہیں اپنی تعیناتی کے صحیح ہونے کا یقین ہوتا تو کسی بھی صورت ان رٹوں کو اپنے روبرو نہ سنتے اور کسی دوسرے جج سے سماعت کرواتے، اس کے باوجود یہ اصرار کہ آئینی ترمیم انہیں ان رٹوں کی سماعت کا اختیار دیتی ہے حالانکہ یہ رٹس درحقیقت اس امر کا فیصلہ کرنے کے لئے ہی دائر ہوئی ہیں کہ نہ صرف آئینی ترمیم بدنیتی پر مبنی ہے بلکہ یہ ایک غیر آئینی ترمیم ہی جسے کالعدم ہونا چاہئے۔ اس کا فیصلہ جلد یا بدیر ہو ہی جائیگا لیکن جب تک یہ ترمیم موجود رہتی ہے، اس کا نقصان بہرحال عدلیہ کو ہوتا رہے گا کہ اس سے مستفید ہونے جج صاحبان نے کس طرح اس کو آئینی ترمیم تسلیم کیا اور کیوں اس کے متعلق مقدمات کو فوری اور غیر جانبدارانہ سماعت کے لئے مقرر نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف کے معاملات اس سے بھی زیادہ گھمبیر دکھائی دیتے ہیں کہ مذکورہ ترمیم سے براہ راست مستفید ہونے والی دو شخصیات اس وقت اپنی حیثیت کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کر رہی اور اس ضمن میں ایک فاش غلطی ان سے سرزد ہو چکی ہے، لیکن انہیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی انہیں کوئی پریشانی یا پشیمانی یا پچھتاوا دکھائی دے رہا ہے اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب یقین واثق ہو کہ میسر منصب کو کسی بھی طرح کوئی خطرہ نہیں۔ اس اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہونے سے قبل، عدالت عظمیٰ میں بطور جج تک پہنچنا بھی ان کی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے، تاہم اس کے باوجود ایسی بنیادی غلطی کی ان سے توقع بہرحال نہیں کی جاسکتی تھی، جو انہوں نے کر دکھائی ہے، اب نجانے یہ ’’ حکمرانوں‘‘ کو خوش کرنے کی غرض سے ہے یا فقط اپنے طور پر ہی اپنی حیثیت کو بچانے کی شعوری و لاشعوری کوشش ہے لیکن اسے ایک بھونڈی کوشش ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس کوشش کو جسٹس منصور علی شاہ نے بخوبی آشکار کیا ہے اور عدالت عظمی کے اسسٹنٹ رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ میں، اسے قربانی کا بکرا سمجھتے ہوئے، مقدمہ سے نکال دیا جبکہ دیگر دو شخصیات کو مورود الزام ٹھہراتے ہوئے، ان کو فل کورٹ کے سامنے پیش ہونے کے لئے کہا ہے۔ اسی طرح مذکورہ آئینی ترمیم کی سماعت کے دوران بھی یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ آئینی بینچ کی بجائے، فل کورٹ اس مقدمہ کی سماعت کرے کہ مدعیان کو اس آئینی بینچ کی حیثیت پر شدید اعتراض ہے کہ یہ بینچ اس مقدمہ کی سماعت نہیں کر سکتا۔ موجودہ جج صاحبان کا فل کورٹ اگر بلایا جاتا ہے تو قرین قیاس ہے کہ آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے دیا جائے کہ آئینی بینچ کے علاوہ دیگر جج صاحبان کے اس ترمیم پر شدید تحفظات ہیں جبکہ اس مطالبے کو رد کرنے کے لئے ایک بار پھر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب نے جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کرکے عدالت عظمیٰ میں نئے جج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو درحقیقت نئی قانون سازی کے بعد تعداد کو بڑھانے سے متعلق ہے، اس صورت میں اگر فل کورٹ بلایا جاتا ہے تو یقینی طور پر عددی اکثریت تبدیل ہو جائیگی اور فیصلہ ممکنہ طور پر آئینی ترمیم کے حق میں آ سکتا ہے۔ بقول اعتزاز احسن میاں صاحبان نے پورے جنگل کو پانی دے رکھا ہے اور نظام کے ہر کل پرزے کو اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے تا کہ کہیں سے بھی ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہ ہوسکے تاہم نئی قانون سازی سے تعینات ہونے والے نئے جج صاحبان بھی اصولی طور فل کورٹ کا حصہ نہیں ہونا چاہئیں کہ جب تک ترمیم کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، ان کا فل کورٹ میں بیٹھنا، مفادات کے تضادات ہی تصور ہو گا۔ جسٹس منصور علی شاہ اپنے تئیں نہ صرف اپنے منصب بلکہ آئین و قانون کی جنگ لڑ رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ اگر معاملات اسی طرز پر، بے اصولی کے ساتھ چلتے رہے، اور اس آئینی ترمیم کو جائز قرار دلوا دیا گیا تو جسٹس منصور علی شاہ قبل از وقت مستعفی ہو جائیں، تاہم جب تک اس کا حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا وہ اپنا فرض اور قرض دونوں ادا کرتے رہیں گے، بعینہ مجھے ہے حکم اذان۔۔۔







