Column

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔۔

تحریر : امجد آفتاب
ملا نصیرالدین ایک دفعہ سردی میں رات کو سوئے ہوئے تھے اتنے میں باہر شور سنائی دینے لگی۔ بیگم نے باہر جھانک کر دیکھا دو بندے لڑ رہے تھے وہ نصیرالدین کے پاس آئی اور کہا جائو باہر دو بندے لڑ رہے ان کی صلح صفائی کرو۔ وہ بیچارہ چادر اوڑھے باہر نکلا جیسے ہی ان دونوں نے اسے دیکھا تو اس کی چادر چھین کر بھاگ گئے۔ ملا بیچارہ واپس گھر آیا تو بیگم نے کہا کس بات پہ جھگڑا تھا تو اس نے کہا بس میری چادر پر جھگڑا تھا جیسے ہی وہ ملی دونوں بھاگ گئے۔
کچھ ایسی صورتحال آج حکومت اور اپوزیشن کی ہے۔ جو بظاہر ایک دوسرے کے سخت مخالف اور ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برساتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی اپنا مفاد دیکھا پھر نہ تنقید، نہ جعلی اسمبلی، نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار۔ پس ثابت ہوا کہ عوام کو رگڑنے پر سب متفق ہیں اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔
خبر آئی ہے کہ پارلیمینٹرینز کی تنخواہوں، مراعات میں اضافہ، دینے کی منظوری دیدی گئی۔
قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات وفاقی سیکرٹری کے مساوی کرنے کی منظوری دی ہے، سپیکر قومی اسمبلی
نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں 140فیصد اضافے کی سفارشات وزیر اعظم کو بھجوا دیں۔ جس کے مطابق ایم این اے اور سینیٹر کی تنخواہ و مراعات 5لاکھ 19ہزار تک ہو جائے گی، اس وقت رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 2لاکھ 18ہزار روپے ہے۔ تنخواہوں اور مراعات کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر جماعتیں ہم آواز ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے 67اراکین نے بھی تنخواہوں میں اضافے کا تحریری مطالبہ کیا تھا۔ وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور الائونسز 5لاکھ 19ہزار ماہانہ ہیں، اراکین پارلیمنٹ کو سہولیات بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی حاصل ہونگی ویسے تو اراکین پارلیمنٹ نے تنخواہ 10لاکھ روپے ماہانہ کا مطالبہ کیا تھا مگر بھلا ہو ہمارے اسپیکر صاحب کا جنہوں نے ارکان پارلیمنٹ مطالبہ مسترد کر دیا۔ اب ہمارے وزیر اعظم کی منظوری کے بعد تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ دونوں ایوانوں کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں
بھیجا جائیگا اور مجھے تو قوی یقین ہے کہ یہ سب کچھ منظور ہو جائے گا۔ وفاقی سیکرٹری کی اس وقت تنخواہ اور الائونسز 5لاکھ 19ہزار ماہانہ ہیں اور اب اراکین پارلیمنٹ کو سہولیات بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی حاصل ہونگی۔ بتاتا چلوں کہ 16دسمبر 2024ء کو پنجاب اسمبلی میں عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظر ثانی بل 2024ء منظور کیے جانے کے بعد ایم پی اے کی تنخواہ 76ہزار سے 4لاکھ روپے اور وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9لاکھ 60ہزار کر دی گئی تھی۔ اسی طرح ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار روپے سے بڑھا کر 7لاکھ 75ہزار روپے کردی گئی تھی، پارلیمانی سیکریٹری کی تنخواہ 83ہزار روپے سے بڑھا کر 4لاکھ 51ہزار جبکہ وزیر اعلیٰ کے مشیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65ہزار روپے کردی گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی کی تنخواہ بھی ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6لاکھ 65ہزار روپے کی گئی تھی۔
اب پاکستان کا عام آدمی اس بات پر رونا دھونا نہ شروع کر دے کہ ہمارے پاس دو وقت کا کھانا نہیں، بے روزگاری عروج پر ہے، ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں یا اُن کی تنخواہیں کافی سالوں سے بڑھیں نہیں، فلاں فلاں۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
او بھائی! اگر پاکستان کا عام آدمی دن رات جو چیختا چلاتا ہے اور اپنا رونا دھونا شروع کر دیتا ہے تو یہی ایم این ایز اور ایم پی ایز جو بیچارے انتہائی غریب، مہنگائی کے مارے نمائندے ہی تو اسمبلیوں میں آواز اُٹھاتے ہیں، قانون سازی کرتے ہیں۔ عام آدمی کی آواز تو یہی ہی ہیں، اگر ان کو مراعات مل رہی ہیں، تنخواہوں میں 200فیصد اضافہ ہو رہا ہے تو اس میں جلنے کی یا رونے دھونے کی کیا بات ہے؟
اصل و حقیقی بات تو یہ ہے اگر یہ ہائی کلاس طبقہ مزید خوشحال ہو گا تو پاکستان کا نام مزید روشن ہو گا، غریبوں کو مزید ریلیف ملے گا، ان کی آواز جو بھوک و غربت اور تنخواہوں کی کمی کی وجہ سے اسمبلیوں میں کم نکلتی تھی مزید توانا بن جائے گی، مزید طاقت بڑھ جائے گی، جس سے وہ ہماری آواز مزید گرج دار آواز میں اسمبلیوں میں اُٹھائیں گے ۔ آخر کار یہی تو ہمارے نمائندے ہیں، یہی تو ہیں جو پاکستان کے عام آدمی کو غربت و مہنگائی اور بے روزگاری سے نکالتے ہیں، ان کو مزید خوشحال ہونا چاہیے اور ان سے حسد تو بالکل نہیں کرنا چاہیے، پھر یہی بڑے لوگ اور ان کے ہمنوا اپنی محفلوں میں کہتے پھرتے ہیں کہ پاکستان کا عام آدمی ان سے حسد کرتا ہے، کہ ہماری تنخواہیں 200فیصد کیوں بڑھائی گئیں۔ ان کو بالکل ایسا موقع نہیں دینا چاہیے۔
عام آدمی کا کیا جاتا ہے، بس کچھ دن کا شور شرابہ، ماتم، پھر اس مدعا پر مکمل خاموشی۔ یاد رکھیں ہمارے منتخب کردہ نمائندے عوامی مسائل پر، ملکی مسائل پر کبھی مل نہیں بیٹھیں گے، مگر جب اپنے مفاد کی باری آئے گی، یہ پلک جھپکتے بھی دیر نہیں لگائیں گے اور سب اکٹھے مل بیٹھیں گے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کو بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

جواب دیں

Back to top button