آسمانوں سے گزرتا ہے زمیں کا رستہ

تحریر : صفدر علی حیدری
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ یہ وہ عظیم خرق عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا ۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’ قَابَ قَوْسَیْنِ اور اَوْ اَدْنٰی‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔
قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ ’’ وہ ( ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام یعنی ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ ( یعنی بیت المقدس) تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی ( قدرت کی) نشانیاں دکھائیں ۔ بے شک وہ سننے والا ( اور) دیکھنے والا ہے ‘‘۔
رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔ اگرچہ اس واقعہ کے زمان کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا ۔ یعنی دسویں سالِ بعثت کو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نماز جناب ابو طالب کی وفات کے بعد یعنی بعثت کے دسویں سال کو واجب ہوگئی تو پانچ وقت کی نماز اسی معراج کی رات امت پہ واجب ہو گئی تھی ۔منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آرام فرمانے لگے۔ ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیلٌ پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’ اے اللہ کے رسولؐ! آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے‘‘۔
رسولؐ اللہ کو طائف کے دعوتی سفر سے واپسی پر جسم اور روح کے ساتھ بیداری کی حالت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے ساتوں آسمان ، سدرۃ المنتہیٰ، جنت و جہنم اور جہاں تک اللہ نے چاہا ان مقامات کی سیر کرائی گئی، اس سفر کو ’’ اسراء و معراج ‘‘ کہتے ہیں ۔
معراج کے واقعہ کا اجمالی خلاصہ یہ ہے کہ: آپؐ کو سواری کے لیے ایک بہشتی جانور ( براق ) پر لے جایا گیا۔ آپ پہلے مسجد اقصیٰ کی جانب روانہ ہوئے، اس راستے میں آپ کو عجائبات دکھلائے گئے، مختلف اقوام اور مختلف لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے مختلف سزائوں میں مبتلا تھے ، مسجد اقصیٰ پہنچ کر رسولؐ اللہ نے انبیائٌ کی امامت فرمائی۔ اس کے بعد ملائکہ کی معیت میں آسمانوں کی جانب روانہ ہوئے، اور آسمانوں میں آپؐ نے مختلف انبیائے کرامٌ حضرت آدمٌ، حضرت یحییٰ ٌ، حضرت عیسیٰ ٌ، حضرت یوسفٌ، حضرت ادریسٌ، حضرت ہارونٌ، حضرت موسیٰ ٌ، حضرت ابراہیمٌ سے ملاقات فرمائی۔ بعد ازاں آپؐ کو سدرۃ المنتہیٰ کی طرف بلند کیا گیا۔ اس مقام پر آپؐ نے جبریل امینٌ کو اصلی صورت میں دیکھا ، نیز اللہ جل شانہ کی تجلیات و انوارات کا مشاہدہ کیا، یہاں سے مقام صریف الاقلام اور پھر مقام صریف الاقلام سے بارگاہ ِ قدس میں پہنچے، وہاں بارگاہِ الٰہی میں سجدہ بجا لائے، اور بلاواسطہ کلامِ خداوندی سے سرفراز ہوئے ۔ اسی موقع پر نمازیں فرض کی گئیں۔ یہاں سے واپسی پر آپؐ دوبارہ بیت المقدس میں اترے، وہاں سے براق پر سوار ہوکر صبح سے قبل مکہ مکرمہ پہنچے۔ یہ سفر معراج کا اجمالی خاکہ تھا، چنانچہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا نبی رحمتؐ کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور کو سوار ہونا تھا، مگر اللہ کے پیارے محبوبؐ نے کچھ توقف فرمایا۔ جبرئیل امینٌ نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں ، مگر روز قیامت میری امت کا کیا ہو گا؟، میری امت پل صراط سے کیسے گزرے گی؟، اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی : ’’ اے محبوب! آپؐ امت کی فکر نہ کیجئے، ہم آپؐ کی امت کو پل صراط سے اس طرح گزار دیں گے کہ اسے خبر بھی نہیں ہو گی‘‘۔
اس واضح بشارت کے بعد سرکار دو عالمؐ براق پر سوار ہو گئے۔ جبرئیل امینٌ نے رکاب تھامی، میکائیلٌ نے لگام پکڑی، اسرافیلٌ نے زین سنبھالی، جس کے ساتھ ہی پچاس ہزار فرشتوں کے سلام کی صدا سے آسمان گونج اٹھے۔
حدیث میں آیا ہے: براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں تک نظر کی حد تھی، وہاں وہ قدم رکھتا تھا۔ براق کا سفر اس قدر تیزی کے ساتھ ہوا جس تک انسان کی عقل پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ایسا لگتا تھا ہر طرف موسم بہار آگیا ہے۔ چاروں طرف نور ہی نور پھیلتا چلا گیا۔
معراج جسمانی تھا یا روحانی، اسے ایک اختلافی مسئلہ بنا دیا گیا حالاں کہ احادیثِ صحیحہ اور تفاسیر ِ معتبرہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ معراج جسمانی تھی اور اللہ کے رسولؐ نے فرش سے عرش تک بلکہ قاب قوسین او ادنیٰ تک کی منزل اپنے اسی جسم نازنین خاکی کے ساتھ طے کی تھی۔ جب یہ مقدس قافلہ بیت المقدس پہنچا تو بابِ محمد، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے کھلا تھا۔ جبرئیل امینٌ نے اپنی انگلی سے دروازے کے قریب موجود ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، اِکرام اور اِحترام میں منتظر تھے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ انبیاء حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کر کے ادب و احترامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہو چکے تو آسمانی سفر کا آغاز ہوا، اس لیے کہ ہر زمینی عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لے چکی تھی۔ پہلے آسمان پر پہنچ کر آسمان کے دروازے پر دستک دی گئی۔ بوّاب پہلے سے منتظر تھا۔ آواز آئی: کون ہے؟۔۔۔ جبرئیل امینٌ نے جواب دیا : میں جبرئیل ہوں۔۔ ۔۔ آواز آئی: آپٌ کے ساتھ کون ہے؟۔۔۔ جواب دیا: یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آج کی رات انھیں آسمانوں پر پزیرائی بخشی جائے گی۔ آسمان کا دروازہ کھل گیا اور پوچھنے والے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی طرف بڑھے اور جب آسمانِ دنیا پر آئے تو دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی: کون؟ جبرئیل امینٌ نے کہا :جبرئیل ۔ پھر کہا گیا: آپٌ کے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر پوچھا گیا: کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ جبرئیلٌ نے کہا: ہاں۔ آواز آئی: خوش آمدید، کتنا اچھا آنے والا آیا ہے۔ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ انھیں بتایا گیا کہ یہ آپٌ کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ ختم المرسلینؐ ہیں۔ یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دادا جان کہہ کر آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام ارشاد فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب بھی عرض کیا اور اپنے عظیم فرزند کو دعائوں سے بھی نوازا۔ اس کے بعد مہمانِ عرش حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ پہلے آسمان کی طرح بوّاب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ کھولا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ تیسرے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا یوسف علیہ السلام سے کرائی گئی۔ تیسرے آسمان کے مشاہداتِ نورانی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا ۔ چوتھے آسمان پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ادریس علیہ السلام سے کرائی گئی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ معراج طے کرتے ہوئے پانچویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، چھٹے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو دیکھ کر رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپٌ کی زبانِ اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسولؐ ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ میری امت پر جسے بزرگی عطا ہوئی یہ وہی رسولِؐ برحق ہیں جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا گیا۔ مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔ اس کے بعد، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، جو تخلیق میں واحد ہستی ہیں، جبریل امینٌ کے ساتھ سدرۃ المنتہیٰ تک سفر کیا۔ اس مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو پانچ نمازوں کا تحفہ عنایت کیا۔
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نی اللہ سے پردے میں بات کرنے کا شرَف حاصل کیا جو اور کسی کو حاصل نہیں ہوا ( اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے مولا علی کی لغت میں گفتگو فرمائی ) کائنات کی اس افضل ترین رات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پانچ نمازوں کا تحفہ ملا ۔ پچاس کی بات اسرائیلیات میں سے ہے ۔ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تحفہ دے اور مصطفیٰؐ کہیں اسے کم کر دیں ۔ خداوند متعال نے پوچھا میرے حبیبؐ میرے لیے کیا لائے ہو ۔ آپؐ نے عرض کی ’’ عاجزی ‘‘ فرمایا اس کی میرے خزانے میں بڑی کمی تھی، تب آپؐ کو نماز کا تحفہ ملا، جو عاجزی و بندگی کا عظیم ترین ذریعہ ہے۔
اس روحانی سفر کو بہت سی باتوں سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ جس کے ردعمل کے طور پر امت کے ایک طبقے نے اسے روحانی سفر کہہ دیا ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے
شب معراج یہ راز کھلا ہے ہم پر
آسمانوں سے گزرتا ہے زمیں کا رستہ





