ColumnRoshan Lal

چھبیسویں ترمیم خطرات کی زد میں

تحریر : روشن لعل
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے فوراً بعد اسے مختلف بار ایسوسی ایشنوں اور سیاسی جماعتوں نے اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعظم اور اب اپنی علیحدہ سیاسی جماعت ’’ عوام پاکستان‘‘ بنا چکے شاہد خاقان عباسی نے تو اس ترمیم کو یہ موقف اختیار کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا کہ ان کی درخواست پر حتمی فیصلہ آنے تک ترمیم پر عمل درآمد نہ کرنے کا حکم امتناع جاری کیا جائے۔ عدالتوں نے شاہد خاقان عباسی جیسے لوگوں کا موقف تو تسلیم نہ کیا لیکن 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے فوراً بعد اس پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا اور بعد ازاں نہ صرف اس کے تحت بنائے گئے سپیشل آئینی بنچ قائم کر دیئے گئے بلکہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی اور مختلف ہائیکورٹس میں ججوں کی تعیناتی کا عمل بھی شروع کردیا گیا۔ پارلیمنٹ کی منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد کے بعد اس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے لیے 27 جنوری 2025ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کے ترجمانوں کی طرف سے تو ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آسکا لیکن بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کی اسلام آباد میں منعقدہ میٹنگ کے بعد دوٹوک انداز میں اپنی حمایت اور کوششوں سے عمل پذیر ہونے والی ترمیم کا بھر پور دفاع کرنے کا اعلان کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے 26ویں ترمیم کے حوالے سے انتہائی واضح انداز میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ نے منظور کی ہے، جس طرح کسی بھی آئینی ترمیم کو منظور کرنے کا حق پارلیمنٹ کا ہے اسی طرح اسے منسوخ کرنے کا اختیار بھی صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ اگر کسی ادارے نے پارلیمنٹ کے اختیار اور حق کو نظر انداز کرتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کیا تو اس عمل کو نہ ہم اور نہ ہی کوئی اور قبول کرے گا۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ سپریم کورٹ کا آئینی بینچ ہو یا کوئی دوسرا بینچ ، ہر کوئی آئین پاکستان کا احترام اور پابندی کرے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ 26کی منظوری کے دوران جو طرز عمل اختیار کیا گیا اس کے ا خلاقی جواز پر کئی ایسے سوال اٹھائے گئے جن کا تسلی بخش جواب سامنے نہ آسکا۔ 26ویں آئینی ترمیم جس طرح منظور کرائی گئی ، اس کے مقابلے میں آئین پاکستان میں کی گئی کسی دوسری ترمیم کی منظوری کے
لیے اپنائے گئے طریقہ کار کو اگر مثالی قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف 18ویں ترمیم تھی۔ 18ویں ترمیم کی تشکیل کے وقت نہ صرف پارلیمنٹ میں موجود چھوٹے سی چھوٹے سیاسی گروہ کو بامعنی مشاورت کا حصہ بنایا گیا بلکہ پارلیمنٹ سے باہر موجود صاحب فہم لوگوں کی رائے کو بھی اہمیت دی گئی تھی۔18ویں ترمیم کے علاوہ جتنی بھی دیگر ترامیم کو آئین کا حصہ بنایا گیان کی منظوری کے لیے حد سے زیادہ اصولوں پر سمجھوتے کیے گئے۔ صرف ضیا الحق اور مشرف جیسے فوجی آمروں نے ہی اراکین پارلیمنٹ کو مجبور کرتے ہوئے اپنی مرضی کی ترامیم منظور نہیں کرائیں بلکہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی مثالی سمجھی جانے والی اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کی تلوار پارلیمنٹ کے سر پر لٹکا کر انیسویں ترمیم کی منظوری کی راہ ہموار کی۔ اٹھارویں ترمیم سے قبل ججوں کی تعیناتی اس 17ویں ترمیم کے تحت ہوتی تھی جسے مشرف نے آمرانہ اختیارات حاصل کرنے کے لیے منظور کرایا تھا۔ اس ترمیم کے مطابق اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی ایک طرح سے مشرف کا صوابدیدی اختیار تھا۔ صدر پاکستان بننے کے بعد آصف علی زرداری کو ججوں کی تعیناتی سمیت وہ تمام اختیارات منتقل ہو گئے تھے جو مشرف کو حاصل تھے۔ صدر زرداری نے ان اختیارات سے سبکدوش ہونے کے لیے اٹھارویں آئینی ترمیم کی
منظوری کی راہ ہموار کی۔ اٹھارویں ترمیم منظور ہونے کے بعد ججوں کی تعیناتی کے لیے صدر کے صوابدیدی اختیارات کی بجائے پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی۔ افتخار چودھری کو یہ بات ناگوار گزری کہ اعلیٰ عدلیہ میں جج کے عہدے کے لیے ان کے نامزدہ کردہ لوگوں کو پارلیمانی کمیٹی نامنظور کر دے۔ جب اٹھارویں ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو افتخار چودھری کی قیادت میں اس ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے سترہ رکنی بینچ نے چار ماہ کی سماعت کے بعد 21اکتوبر 2010ء کو یہ مختصر حکمنامہ جاری کیا کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 175Aمیں ججوں کی تعیناتی کے لیے طے کیے گئے طریقہ کار میں ترمیم کرے ، اس کے ساتھ ہی اٹھاریں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کو تین ماہ تک ملتوی کردیاگیا۔ سپریم کورٹ کے اس حکمنامے کے بعد اٹھارویں ترمیم کی دیگر شقوں کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ میں انیسویں ترمیم کا بل پیش کیا گیا جس کی قومی اسمبلی میں 22دسمبر 2010 ء اور سینٹ میں 30دسمبر 2010ء کو منظور ی کے بعد صدر آصف علی زرداری نے اس پر یکم جنوری 2011ء کو دستخط کر کے آئین کا حصہ بنایا۔
گو کہ انیسویں ترمیم کو مجبوری میں منظور کیا گیا لیکن اس کی منظوری کے لیے رسمی لوازمات پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی۔ انیسویں ترمیم خاص طور پر پیپلز پارٹی کے لیے کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں رہی لیکن جب تک یہ ترمیم آئین کا حصہ رہی، ججوں کی تقرری کے لیے اس پر عمل ہوتا رہا۔ انیسویں ترمیم سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ترمیم آٹھویں ترمیم تھی جس کے تحت کئی اسمبلیوں اور حکومتوں کو گھر بھیجا گیا۔ جب تک آٹھویں ترمیم اور سترہویں ترمیم کے حکومتوں اور پارلیمنٹ کو گھر بھیجنے والے آرٹیکل 58ٹو بی کا خاتمہ پارلیمنٹ نے آئینی تقاضوں کے مطابق دو تہائی اکثریت سے نہیں کیا اس وقت تک اس کے تحت عملدرآمد کو نہ صرف حکومتیں بلکہ عدالتیں بھی تسلیم کرتی رہیں۔ آئین کے مرحوم آرٹیکل 58ٹو بی کا یہاں حوالہ دینے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ جو آرٹیکل پارلیمنٹ کے لیے زہر قاتل تھا پارلیمنٹ نے جب تک اسے خود ختم نہیں کیا اس وقت تک اس تحت کیے گئے اقدامات کو تسلیم کیا جاتا رہا۔ جب تک یہ بدنام زمانہ آرٹیکل پارلیمنٹ کے ہاتھوں ختم نہیں ہوا عدالتیں اسے اپنے طور پر نہ منسوخ کر سکتی تھیں اور نہ انہوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی۔ بلاول نے 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے دیئے گئے بیان میں عدالتوں کو یہی باور کرایا ہے کہ جس طرح نہ ان کا اختیار 58ٹو بی کو ختم کرنے اور انیسویں ترمیم کو منظور کرنے کا تھا اسی طرح انہیں26ویں ترمیم منسوخ کرنے کا بھی حق اور اختیار حاصل نہیں ہے ۔ بلاول کو اس طرح کا بیان دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ انہیں بعض ججوں کے رویوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کی منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button