بگ کیٹس کو گھروں میں رکھنے پر پابندی

تحریر : مرزامحمد رمضان
بگ کیٹس( بڑی بلیاں ) جیسے شیر ، ببر شیر ، چیتا اور جیگوار کو گھروں یا نجی املاک میں رکھنے کا پرانا رواج ہے جو کئی تاریخی اور ثقافتی روایات سے جڑا ہوا ہے۔ ان جانوروں کو اپنے گھروں میں رکھنا جاہ و حشمت اور وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مصر ،فارس اور ہندوستان جیسی قدیم تہذیبوں میں بگ کیٹس ( بڑی بلیاں ) طاقت اور دولت کی علامت تھیں۔ بادشاہ اور روساء انہیں اپنے غلبے اور وقار کو ظاہر کرنے کیلئے اسٹیٹس سمبل کے طور پر رکھتے تھے ۔ ہندوستان میں مغل بادشاہ چیتوں کو دیگر جانوروں کے شکار کیلئے غیرملکی پالتو جانور کے طور پر رکھتے تھے ۔ بعض ثقافتوں میں اپنے مذہبی اور روحانی عقائد کی بنیاد پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بگ کیٹس کا تعلق اکثر دیوتائوں یا روحانی سر پرستوں سے ہوتا ہے اس لیے ان کا گھروں میں رکھنا تحفظ اور فضل الٰہی ہے۔ مصر میں شیروں کو جنگ کی دیوی سمجھا جاتا تھا جو جنگ اور مسیحائی کی نمائندگی کرتی ہے ۔ بعض علاقوں میں چیتوں کو شکاری ساتھی خیال کیا جاتا تھا ۔چیتے خاص طور پر شکار کیلئے تربیت یافتہ سمجھے جاتے ہیں ۔ شکار کو پکڑنے میں ان کی برق رفتاری اور چابکدستی کی بدولت انہیں ترجیح دی جاتی تھی۔ ہندوستان ، فارس اور مشرق وسطیٰ جیسے خطوں میں یہ عام تھا ۔ رومن سلطنت میں بڑی بلیوں کو عوامی تماشوں ، گلیڈی ایٹر کے کھیل اور اشرافیہ کے نجی چڑیاگھروں کیلئے رکھا جاتا تھا۔ نشاۃ ثانیہ کے دوران یورپ میں دولت مند افراداور حکمران اکثر غیرملکی جانوروں خصوصاً بڑی بلیوں کو مینجریز میں رکھتے تھے۔ کچھ ثفاقتوں میں بڑی بلیوں کو رکھنا روایتی ادویات اور عقائد سے جوڑا جاتا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ بڑی بلیوں کے کچھ حصے ادویائی خصائص کے حامل ہیں اور ان کی پرورش تجارت کا باعث بنتی ہے تاہم عصر حاضر یعنی آج کا جدید نقطہ نظر مذکورہ سبھی عوامل کے برعکس ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ بڑی بلیوں کو بطور پالتو جانور نجی گھروں میں رکھنا اب خطرناک اور غیر اخلاقی و قانونی سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ پریکٹس انسانوں اور جانوروں دونوں کیلئے بڑی مہلک اور خطرناک ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے پناہ گاہوں اور ذخائر میں تحفظ اور مناسب دیکھ بھال کو فروغ دیتے ہوئے اس پریکٹس پر مکمل پابندی لگادی ہے ۔ اسے انتہائی سختی سے ریگولیٹ کیا ہے۔ بڑی بلیوں کو گھروں میں پالتو جانوروں کے طور پر رکھنے کی ایک طویل اور متنازعہ تاریخ ہے اور پاکستان میں بھی یہ رحجان خاص طور پر امیر اشرافیہ میں دیکھا گیا ہے جسے اپنی حیثیت اور طاقت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جدید پاکستان میں بڑی بلیوں سمیت بدیسی ، غیرملکی جانوروں کو رکھنے کے رحجان نے خاص طور پر امیر طبقات میں بڑی مقبولیت حاصل کی ہے ۔ سوشل میڈیا اور عالمی نمائش نے اس رحجان کو مزید ہوا دی ہے۔ لوگ اپنے پالتو جانوروں کو امارت کے نشان کے طور پر ظاہر کرتے ہیں ۔ گزشتہ دو دہائیوں میں شیر اور چیتا جیسی بڑی بلیوں کو گھروں میں رکھنے کا مظاہرہ پاکستان کے اکثر علاقوں خصوصاً بڑے شہروں میں بتدریج بڑھتا نظر آرہا ہے متمول اور دولت مند گھرانوں کے نوجوان اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر ان جانوروں کی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کرتے نظر آتے ہیں ۔ دوسرا پاکستان میں نجی چڑیا گھر اور بریڈنگ فارمز کے بڑھتے رجحان کے پیش نظر جن میں سے بعض لائسنس یافتہ اور رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں وہ ایسے بدیسی جانوروں کی پبلک ڈیمانڈ کو پورا کرتے ہیں نیز دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جنگلی جانوروں کی غیرقانونی تجارت اور منڈیاں بھی اس عمل کے فروغ کا باعث بن رہی ہیں ۔ اگرچہ پاکستان میں وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس اور صوبائی سطح پر وائلڈ لائف ایکٹ جیسے قوانین موجود ہیں تاہم ان میں بعض سقم ہونے کی بناء پر ان کے موثر نفاذ میں مشکلات حائل ہیں دوسرا بڑے جانوروں خصوصاً بگ کیٹس ( بڑی بلیوں ) کو خصوصی دیکھ بھال مناسب خوراک ، علاج معالجہ اور بڑے انکلوژرز کی ضرورت ہوتی ہے جس کی نجی گھروں میں کمی دیکھنے میں آتی ہے جس سے ان اسیر جانوروں کو جسمانی اور نفسیاتی تکلیف ہوتی ہے نیز رہائشی علاقوں میں بگ کیٹس کو رکھنا عوامی تحفظ کیلئے بڑے سنگین خطرات کا باعث ہے ۔ ایسے خطرناک جانوروں کے پنجروں سے فرار اور پنجروں میں موجود جانوروں سے انسانی ربط کے دوران انتہائی بھیانک اور خوفناک واقعات بھی بعض اوقات میڈیا کی سرخیوں میں آتے رہتے ہیں اور اس انسانی و حیوانی تصادم کی تصویر جانوروں کے ساتھ ٹک ٹاکرز کے ویڈیو بنانے کے جنون نے مزید عیاں کردی ہے ۔
بگ کیٹس کو گھروں میں پالنے کے عمل اور دولت اور طاقت کی اس نمائش کو بعض لوگ تعریف اور بعض تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ناقد اس عمل کو غیر اخلاقی اور جانوروں کیلئے نقصان دہ قرار دیتے ہیں ۔ اگرچہ پاکستان میں حکومتیں اور مقامی این جی ا وز بڑی بلیوں کو پالتو جانور کے طور پر رکھنے کے اخلاقی اثرات اور خطرات کے بارے میں عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاہم عوام موجودہ قوانین کے سخت نفاذ اور ان جانوروں کی غیرقانونی تجارت اور نامناسب دیکھ بھال کیلئے بڑی سخت سزائوں اور جرمانوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور شائد عوام کے انہی احساسات کے ادراک کے پیش نظر موجودہ حکومت پنجاب خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف اور سینئر وزیر محترمہ مریم اورنگزیب نے ڈائریکٹر جنرل جنگلی حیات و پارکس پنجاب مدثر ریاض ملک کی اس بابت انتہائی سود مند اور موثر سفارشات کو قانونی شکل دینے کی ٹھانی اور ڈائریکٹر جنرل مدثر ریاض ملک کی شبانہ روز کوششوں سے تیار شدہ ترمیمات کو ایکٹ کا حصہ بنانے کی پنجاب اسمبلی سے باقاعدہ منظوری حاصل کرلی ہے اور اب صوبہ پنجاب میں ان خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں رکھنے کا عمل ریگولیٹ کر دیا گیا ہے جس کے نمایاں خدوخال ڈی جی وائلڈلائف کی میڈیا سے گفتگو میں بڑے مفصل بیان کئے گئے ۔ بگ کیٹس جس میں شیر ، ببر شیر ۔ چیتا ، پوما اور جیگوار پہلے وائلڈلائف ایکٹ مجریہ 1974ء میں شامل نہیں تھے انہیں اب ایکٹ کے جدول دوئم میں شامل کر دیا گیا ہے جس کیلئے یہ جانور رکھنے کیلئے اب محکمہ سے باقاعدہ قبضہ لائسنس حاصل کرنا ہوگا اور اس لائسنس کی فیس فی جانور 50ہزار روپے مقرر کی گئی ہے ۔اب یہ جانور نجی املاک میں یا پرائیویٹ بریڈنگ فارمز میں محض قبضہ لائسنس کے حصول کے بعد ہی رکھ سکیں گے تاہم یہ جانور قطعاً شہری آبادیوں میں نہیں رکھے جا سکیں گے ان جانوروں کو شہروں کے باہر فارمز میں رکھا جاسکتا ہے تاہم وہ بھی محکمہ کی دی ہوئی ایس او پی کے مطابق ان جانوروں کے انکلوژرز اور رہائشی جگہیں بنائی جائیں گی۔ شیر سمیت تمام بگ کیٹس کو گھروں میں رکھنے ، ٹک ٹاک ، سوشل میڈیا پر تشہیر کرنے کی مکمل پابندی ہوگی۔ شہر سے باہر فارم میں رکھنے کیلئے جانوروں کے پنجرے کھلے عام ایریا میں رکھنے کی جگہ کے سائز کا بھی تعین کر دیا گیا ہے اور جو جانور پہلے سے شہروں میں رکھے گئے ہیں انہیں شہروں سے باہر منتقل کرنے کیلئے مناسب وقت دیا جائے گا اور اگر وہ حکومت کے مقررہ عرصہ کے دوران بگ کیٹس کو شہر سے باہر منتقل نہیں کریں گے تو انہیں سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ جن لوگوں نے گھروں یا نجی املاک میں شیر و دیگر بگ کیٹس وغیرہ رکھے ہوئے ہیں وہ محکمہ سے تعاون کریں اور فوری طور پر اپنے جانور شہروں سے باہر منتقل کریں اور ان جانوروں کو رکھنے کیلئے انکلوژرز اور رہائش گاہوں کا معیار جو کہ اب محکمہ کے پاس دستیاب ہے حاصل کریں نیز اب ایسے جانوروں کے فارمز کے مالکان کسی بھی آدمی کے ساتھ تصاویر بنانے کی اجازت نہیں دیں گے اور ان واقعات کو بھی قانون کے سانچے میں لایا گیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام بھی چوکس ہو جائیں اور ایسے افراد اور نجی املاک اور گھروں کی نشاندہی کریں جنہوں نے ایسے خطرناک جانوروں کو پال رکھا ہے ۔





