وزیراعلیٰ پنجاب اور ایک بڑا کام

تحریر : سیدہ عنبرین
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا کسی بھی مغربی ملک میں برسر اقتدار ہونے والی کوئی شخصیت ہو۔ عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد دنیا کی نظریں اس کی پہلی تقریر پر ہوتی ہیں۔ عموماً اس تقریر میں اپنے اہداف کا ذکر کیا جاتا ہے یا ضروری اصلاحات کے حوالے سے قوم کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ اس تقریر کے اہم نکات وہی ہوتے ہیں جو الیکشن مہم میں وعدوں کی شکل میں پہلے ہی عوام کے سامنے رکھے جا چکے ہوتے ہیں، پالیسی سپیچ میں ان کا ذکر آ جائے تو یقین کر لیا جاتا ہے کہ آئندہ 4برس کی ٹرم کا ایجنڈا انہی نکات کے گرد گھومے گا، پالیسی سپیچ میں اپنے زمانے کے اہم معاملات میں پارٹی اور حکومتی پالیسی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں میں انتخاب جیتنے والی پارٹی کے سربراہ نے وکٹری سپیچ سے کام چلانے کی کوششیں کی، پالیسی سپیچ سامنے نہیں آئی۔ ایک سابق وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستانی قوم سے خطاب کرنا تھا، اس کا صبح سویرے سے ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا، شام گئے یہ تقریر شروع ہوئی تو فقط ڈیڑھ منٹ میں ختم بھی ہو گئی، اس میں اتنا وقت بھی صرف نہ ہوا جتنا وقت تلاوت کلام پاک اور قومی ترانے میں صرف ہوا، اس تقریر کے یوں اچانک ختم ہونے اور مختصر ترین تقریر کا ریکارڈ قائم کرنے کی ضرورت بھی آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے ایک مختصر تقریر کر کے یہ ریکارڈ قائم کیا تھا، یہ تقریر پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کی گئی، رات خبر نامہ نشر ہونے تک اس تقریر کے حوالے سے کوئی نام نشان، کوئی اطلاع، کسی بھی قسم کی چہ میگوئیاں نہ تھیں، رات 11بجے کے قریب اعلان ہوا کہ وزیراعظم پاکستان اب سے تھوڑی دیر بعد قوم سے خطاب کریں گے۔ قوم گھڑی کی تھرکتی ہوئی سوئیوں کی طرح اپنے دل کی دھڑکن کو محسوس کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اچانک تقریر میں کیا کہا جا سکتا ہے، ذہن میں مختلف قسم کے وسوے آتے جاتے رہے۔
جناب یوسف رضا گیلانی صاحب ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئے تو انہوں نے سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی، قمیض شکن آلود تھی اور شیروانی یا واسکٹ پہننے کا تکلف بھی نہ کیا گیا تھا، تلاوت کلام پاک کے بعد قومی پرچم سکرین پر لہراتا نظر آیا، ترانہ ختم ہوا تو جناب یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کے آرمی چیف کا نام لیا تو دلوں نے بمشکل اپنے آپ کو سنبھالا، ایک لمحہ تو یوں لگا جیسے وہ کوئی اندوہناک خبر سنانے والے ہیں، ذہن اس طرح اس طرف لے گیا کہ قوم اس سے قبل سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے بارے میں دل خراش خبر سن چکی تھی۔ جناب یوسف رضا گیلانی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مزید 3برس کیلئے ایکسٹنشن کا اعلان کیا، اس کے ساتھ ہی ان کی تقریر بھی ختم ہو گئی، بعد ازاں کئی برس بعد راز کھلا کہ اس ایکسٹنشن کا اس قدر عجلت میں اعلان کیوں کیا گیا اور اس کیلئے صبح تک انتظار کیوں نہ کیا گیا۔ پالیسی سپیچ میں امریکی صدر نے ایک مضحکہ خیز اعلان کیا ہے کہ امریکہ میں خواتین سپورٹس میں خواتین ہوں گی، مردوں کے مقابلے میں مرد ہوں گے، دونوں کے مقابل کھسرے نہیں ہوں گے، ان کے اس اعلان پر قہقہے تو بہت لگے، لیکن اس بات کے پیچھے ایک اہم واقعہ ہے۔ گزشتہ برس امریکہ میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں ایک پیراک نے سونے کا تمغہ جیتا، جس پر بعد ازاں اعتراضات اٹھائے گئے۔ ایک اعتراض یہ تھا کہ خواتین کے پیراکی کے مقابلوں میں جیتنے والا عورت نہیں کھسرا تھا، تحقیقات شروع ہو گئی جس کے بعد یہ بات سامنے آئی ایک نوجوان گزشتہ دو اولمپک مقابلوں میں شریک ہوا، لیکن گولڈ میڈل نہ جیت سکا، اس نے ہمت نہ ہاری، اپنی پریکٹس جاری رکھی، پھر اس نے اپنی جنس کا آپریشن کرایا اور مردانگی قربان کر کے وہ عورت تو نہ بن سکا لیکن اس نے مرد اور عورت کے درمیان میں تیسری جنس کے طور پر اپنے آپ کو شامل کر لیا، پھر اس نے خواتین کے پیراکی کے مقابلوں میں شرکت کی اور گولڈ میڈل جیت لیا۔ یہ بائیڈن دور میں ہوا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس دور کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں، جبکہ اس دور کو دو نمبریوں کا دور بھی کہتے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے اعلان کیا کہ اب امریکہ میں مرد ہوں گے اور عورتیں ہوں گی، کھسرے ان کے مقابل نہیں ہوں گے۔ اس اعلان کا ایک فائدہ ہے اور اس اعلان میں ایک پیغام ہے کہ کامیابیوں کیلئے وہ شارٹ کٹ اختیار کرنے کے راستے بند کر دیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان میں مزاح کے علاوہ مثبت پہلو بہت اہم ہے۔ حکومت پاکستان بھی اس تصور سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور پنجاب بھی۔ قدرت نے انسان کو مرد اور عورتوں کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، اس کی تیسری شکل خواجہ سرائوں کے روپ میں مغلیہ بادشاہوں کے زمانے میں سامنے آئی، ایک تحقیق کے مطابق بعض مردوں کو مردانگی سے محروم کرنے کے بعد انہیں ’’ حرم سرا‘‘ میں موجود خواتین کے خدمت گار کی حیثیت سے بھیج دیا جاتا تھا، جہاں انہیں خدمت کے عرض بہتر زندگی گزارنے کی آسائشیں مل جاتی تھیں، ان کی دیکھا دیکھی مرد سے خواجہ سرا بننا اور اسی طرح بعض عورتوں نے بھی یہی روپ دھارنے شروع کر دیئے اور ملازمتیں حاصل کیں۔
جن عورتوں کو خواجہ سرا یعنی نامکمل عورت ڈکلیر کر دیا جاتا تھا وہ جن مردوں کی خدمت کیلئے مخصوص کی جاتی تھیں، ان گھرانوں کی عورتیں اس بات پر معترض نہ ہوتیں، یوں مرد اور عورتیں اس تیسری جنس کا روپ دھارتے چلے گئے۔
پاکستان میں اگر مردوں کو مرد کے حلئے اور عورتوں کو عورتوں کے حلئے میں رہنے کیلئے قانونی طور پر پابند کر دیا جائے تو معاشرہ ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی خرافات سے محفوظ رہ سکتا ہے جو نہ روکنے کی صورت میں معاشرے میں مزید تباہی کا سبب بنے گا۔ مزید برآں ہٹے کٹے مشٹنڈے خواجہ سرا محنت مزدوری پر لگائے جائیں، انہیں ہنر سکھائیں تاکہ وہ معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکیں۔ مرد اور عورت دونوں کے بہروپ اختیار کرنے کو جرم قرار دیا جائے تاکہ اس لعنت کا خاتمہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب ایک خاتون ہونے کے ناطے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، اس حوالے سے ان کے اقدامات سے ان عورتوں کو تحفظ ملے گا جنہیں خواہ مخواہ ذلت آمیز زندگی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ معاشرتی اصلاح کی طرف یہ بہت بڑا قدم ہو گا، جس کے مثبت اثرات کو دیکھتے ہوئے دیگر صوبے بھی اسے اپنا سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو جناب وزیراعظم کا اعتماد بھی حاصل ہے، یوں ان کیلئے یہ کام چنداں مشکل نہیں، وہ اگر یہ کر گزریں تو یہ ایک پہلا بڑا کام ہو گا، یہ ہو گا حقیقی عورت کارڈ۔





