معراج مصطفیٰؐ مجموعہ معجزات

تحریر : ڈاکٹر گیلانی شاہ ایڈووکیٹ ( کویت)
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰؐ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
نبی کریمؐ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار معجزات سے نوازا، ان میں سے اہم اور انوکھا معجزہ واقعہ معراج ہے۔ درحقیقت یہ مجموعہ معجزات ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی آیات کبریٰ کا مشاہدہ بھی عظیم تر ہے معراج کے دوران حضرت محمدؐ نے اللہ تعالیٰ سے براہ راست ملاقات کی، نبی کریمؐ کی عظمت کسی دوسرے انسان یا پیغمبرٌ کو حاصل نہیں ہو سکی۔ معراج کا سفر اس عظمت کی ایک بے مثال مثال ہے، جو صرف نبی پاکؐ کوہی عطا کیا گیا۔
کہ
حُسنِ یُوسُف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
قدمین مصطفیٰؐ ( وانت حل بھذا البلد) کی قسم کھانے والے رب نے تسخیر کائنات کے لئے ایک عظیم علمی سائنسی تحقیقی اور جستجو کے بند کواڑ کھول کر اور عالم ہست و بود کے پیچیدہ راستوں سے بلند، عظیم کائناتی کہکشائوں سے دور، بلیک ہولز کے مقفل ابواب یعنی پورٹلز جو رمز در رمز ( خفیہ کوڈ سے کھولنے والے ) مقامات بشری اور نورانی وسعتوں سے بلند تر مقامات پر، جو تا قیام قیامت خرق عادت کی بھی اولیت و الوہیت کا مظہر اتم ٹھہرے، سے واہ کر دئیے کہ مکہ سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے سدرۃ المنتہیٰ، پھر اوادنی کے مقامات ( جو دراصل زمان اور مکاں کی قیود سے بالا ) پر اپنے حبیبؐ کو جلوہ افروز کیا
کہ
عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
ام ہانی ( چچا زاد بہن ) کے گھر، اپنے حبیبؐ جو عام الحزن کے آنسو، شعب ابی طالب کی قید، مشرکین مکہ کی طعن و تشنیع، ظلم و جبر و استبداد کے ماحول، اور دعوت حق کو رد کرنے والوں سے مغموم و ملول کی کیفیات کے ساتھ آرام فرما ہیں کہ 50ہزار فرشتوں کی سیادت مین ندائے جبرائیل برائے لقاء ربانی پر براق کی رکاب پہ قدم مصطفیٰؐ کے توقف ( برائے کرم امتی) فرمانے پہ بشارت ملتی ہے کہ آپؐ کی امت پہ نوازش ایسی ہوگی کہ اسے پل صراط سے ایسے گزار دیں گے کہ پتہ بھی نہ چلے۔ آپؐ پریشان نہ ہوں۔ اختتام توقف براق پہ سوار کرکے اسرآ کا کیف و سرور مسجد اقصیٰ سامنے حاضر کر دیتا ہے۔ آج بھی سائنس نور ( براق) کی رفتار پانے کا صرف گمان ہی کر سکتی ہے۔
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
مسجد اقصیٰ میں انبیاء و رسل امامت فرمانے کے بعد قدمین مصطفیٰؐ معراج کا حسن زیب تن فرماتے ہوئے مقفل ابواب کائنات ( پورٹلز ) یعنی کائناتی بلندی کے دروازے ( حد جو انسانوں کے لیے فطری و سائنسی طور پر طے کی گئی حقیقت جو انسانی سوچ کا نقطہ اختتام) اور بلیک ہولز سے آگے کائنات کی اگلی پہلی بلندی کا خفیہ کوڈ لگاتے ہیں تو حضرت آدم علیہ السلام کے استقبال سے شرف یاب ہوتے ہیں۔ پھر دوسری بلندی کا کوڈ لگاتے ہیں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا یحییٰ علیہ السلام استقبال کرتے ہیں، تیسرا کوڈ تیسرا کائناتی دروازہ سیدنا یوسف علیہ السلام استقبال کرتے کھولتے ہیں، پھر چوتھی بلندی کے کوڈ پہ حضرت ادریس علیہ السلام، پھر پانچویں پر سیدنا ہارون علیہ السلام اور چھٹی کائناتی بلندی پہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام، پھر ساتویں کائناتی بلندی کا کوڈ لگانے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام استقبال کرتے ہیں۔ اور پھر اس سے بھی بلندی پہ قدمین مصطفیٰ حضرت جبرائیل کے ساتھ سدرۃ المنتہیٰ تک تشریف لاتے ہیں۔ اس مقام پہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی رک جاتے ہیں کہ اس سے رسائی نہیں کر سکتا ۔
یاد رہے کہ جدید سائنس کے مطابق نور ( روشنی ) کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ 86ہزار مربع کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے اور سائنس کہتی ہے کہ یہ جو روشنی ایک سیکنڈ میں سفر کرتی ہے اگر یہ پورا سال سفر کرے تو اسے نوری ( light-year) سال کہتے ہیں۔ اس کائنات کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اگر یہ روشنی کی رفتار برقرار رکھ کے بھی سفر کیا جائے تو کئی سیارے و کہکشاں ایسے ہیں جو کئی لاکھوں نوری سال کی دوری پر ہیں اور قدم مصطفیٰؐ ساعت صغریٰ میں ان کائناتوں سے بھی آگے بلندی پہ تشریف لے گئے۔
جدید سائنس ( آئن سٹائن) کے نظریہ اضافت (Relativity)کے مطابق، وقت کی رفتار مختلف حالات میں مختلف ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب کسی شخص کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب ہو۔ مطلب متغیرات ( زمان اور مکان) سے ماہیت امکان مختلف ہو جاتی ہے۔
اور اگر سفر زمان و مکاں سے بلند تر ہو جائے اور لامکاں سے بھی بلند ہو جائے تو کائنات مادہ ( زمان و مکاں ) تو تھم گئی۔ اللہ پاک نے اپنے حبیبؐ کو اس کائنات کی تمام مکاں ( ارضی و سماوی منازل) سات صغریٰ میں اسرا و معراج کے سفر میں اس سے بھی آگے اعراج کی بلندیاں، سدرۃ المنتہیٰ، جنت الماوی، قاب قوسین اور او ادنی کی جو رفعت عطا کی ہے۔ وہ آج بھی سائنس حیطہ احساس سے بہت بلند تر ہے۔ پھر وہ مقام کہ جہاں پر وہ فرماتا ہے۔
فََوْحَیٰ ِلَیٰ عَبْدِہِ مَا َوْحَیٰ
پھر فرمایا
مَا کَذَبَ الْفَُادُ مَا رََیٰ
پھر فرمایا
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیٰ
پھر فرمایا
فَکَانَ قَابَ قَوْسَینِ َوْ َدْنیٰ
پھر فرمایا
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغیٰ
پھر فرمایا
لَقَدْ رَیٰ مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَیٰ
ابتدائے افرینش سے لے کر تامروز اور تا قیام قیامت انسانی تاریخ کا یہ وہ عظیم خرق عادت ( معجزہ ) ہے کہ عقل ورطہ حیرت میں ہے، ششدر و حیران ہے، مادی فلسفہ اور مادے کا موجودہ تصور زمینی اور سطحی قیود میں بند ہے۔ اور مصطفیٰ ؐ کی ذات اقدس بلند تر ہے۔ یہ سفر مکاں، لامکاں سے بھی بلند جہاں اللہ اور اس کے حبیب کی ذات ہے۔ دوسرا کوئی ہے نہ دوئی۔ فقط ایک عبد ( احمدیت) ہے اور ایک معبود ( احدیت)۔ عبد اپنے معبود کی بارگاہ میں ہدیہ عجز پیش کرتا ہے اور معبود اپنے محبوب بندے سے محبت اور راز و نیاز کی بات کرتے ہوئے اپنے دیدار سے سیراب کرتا ہے کہ
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَیٰ
اور
قَدْ رََیٰ مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَیٰ
اس مقام پہ نور ہی نور اور اس کی معرفت کوئی کیسے پا سکتا ہے۔ اور تصدیق کا علم پیکر صدیق اکبر اٹھائے محو رقصاں نظر آتا ہے۔
عربوں کی ریت ہے کہ آپس میں عہد وفا ایسے کرتے ہیں کہ دو کمانوں ( قوسین) کو اکٹھا جوڑ ایک ساتھ نشانہ پہ تیر چلاتے ہیں کہ جو ایک کا دوست ہے وہ دوسرے کا دوست ہے جو ایک کا دشمن ہے وہ دوسرے کا دشمن ہے۔ مراد کہ ان میں کوئی دوئی نہیں۔ دوری نہیں، جدائی نہیں۔ علیحدگی نہیں ۔ قاب قوسین اور او ادنی کا تاج اور جسمانی آنکھ سے دیدار الٰہی پہ متمکن فرمایا گیا۔ لقائے ربانی اور دیدار الٰہی کا تاج سجائے آپؐ امت کی خاطر خاص تحفہ صلوٰۃ ( نماز) لیکر واپس تشریف لائے۔ جو بندے کو اللہ سے جوڑنے کا نسخہ کیمیا ہے۔ بندہ سجدہ تو زمین پر کرے مگر اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ سے جڑ جائے اور اس کی رضا و قربت و معرفت حاصل ہو۔ جو اس کے اندر وہ ظرف تعمیر کر دے جس سے وہ دیدار الٰہی کا طالب بن سکے یہ ہر بندہ مومن کی معراج ٹھہرے۔
اس سفر میں معبود نے اپنے حبیبؐ کو سارے مراتب طے کروا دئیے۔ ایمان بالغیب کا مشاہدہ، رب العالمین کی تمام کائنات کا دیدار وحی کی تمام اقسام کا شرف، امت کی شفاعت، نماز کا تحفہ، لقاء ربانی، براہ راست دیدار، کہ اقبالؒ نے اس عظمت کو کیسے بیان کیا کہ:
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب
عالمِ آب و خاک میں تیرے حضور کا فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
شوکت سنجر و تیرے جلال کی نمود
فقر و جنید با یزید تیرا جمال بے نقاب
آپؐ نے اس واقعہ پر اٹھنے والے تمام سوالوں کے جوابات عطا فرمائے، سوال مسجد اقصیٰ کے ستون کا ہو یا راستے میں مسافر قافلوں کا۔ آپؐ نے فرمایا مقام روحا پہ ایک قافلہ ہے جس کے اونٹ کے پالان میں پانی کے پیالے سے میں نے پانی پیا اور سلام کیا تو قافلے میں لوگ پکار اٹھے کہ یہ آواز تو محمدؐ کی ہے۔ دوسرا قافلہ مقام ذی فجایا پر براق کی سرعت سے اس دوسرے قافلے کا اونٹ بدک گیا اس کا سوار گر پڑا اس کا ہاتھ ٹوٹ پڑا۔ اور مقام تلوین پر تیسرا قافلہ ملا جس کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ سیاہ اور سفید دھاری دار بوریاں اٹھائے ہوئے ہیں اور واپسی کے اوقات کا بھی فرمایا کہ کل طلوع فجر سے پہلے ایک قافلہ پہنچ جائے گا دوسرا نصف النہار کے وقت آئے گا اور تیسرا غروب آفتاب کے وقت مکہ کی حدود میں پہنچ جائے گا اور اگلے دن کفار جمع ہو گئے اور وہ طلوع آفتاب کو دیکھ رہے ہیں اور عشاق قافلے کو دیکھنا چاہتی ہیں۔ اور ایک کافر ابھی بولنا شروع ہی ہوا تھا کہ آفتاب طلوع ہونے لگا ہے کہ دوسری طرف سے عاشق نے نعرہ بلند کیا کہ قافلہ بھی آگیا ہے۔ حق اپنے سامنے اظہر من الشمس دیکھا تو کفار چیخ پڑے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔
اور قیصر روم کے دربار میں دنیائے عسائیت کا سب سے بڑا راہب ( ابو سفیان کی موجودگی ) پکار اٹھا کہ اس رات تو مسجد کا دروازہ بھر پور کوشش کے باوجود بند ہی نہیں رہا تھا۔ پھر ہم کھلا چھوڑ گئے۔ جب علی الصبح آیا تو میں نے پتھر کے قریب نشان بھی دیکھا۔ اس کے بعد دروازہ بھی حسب معمول بند ہوا۔ اس امر کا راز ہم اپنی کتب میں پڑھا ہے کہ نبی آخر الزماںؐ اپنے معبود حقیقی سے ملاقات کے لیے مسجد اقصیٰ سے ہو کر جائیں گے۔ اس سفر میں حرم کعبہ سے مسجد اقصیٰ اور سدرۃ المنتہیٰ تک سفر براق پہ اور سدرۃ المنتہیٰ سے آگے رفرف ( سبز رنگ کا تخت) پہ، مکاں سے لا مکاں۔ اس سے آگے بقہ نور کے ہالے میں لیکر لقائی ربانی کے کیف سے سرشار ہونے لے لئے آگے بڑھے، تو اللہ نے فرمایا
’’ قف یا محمد فان ربک یصلی‘‘
یہ قدم مصطفیٰؐ کا ساعت صغریٰ میں اسرآ۔ اور معراج اور اعراج فرمانا تا قیام قیامت امر رہے گا اور بے مثال ہے۔
اس مقدس ذکر پہ امت کی آج کی پریشانی پہ دعا کرتے ہیں، بقول اقبالؒ:
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد
آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے







