Column

میں قتل ہوا عدل کی زنجیر ہلا کر

تحریر : صفدر علی حیدری
بلآخر فیصلہ ہو گیا۔ فیصلہ تو شاید بہت پہلے ہو گیا تھا، اب اس کا اعلان ہوا ہے۔ حسب توقع فیصلہ حکمرانوں کی مرضی کے مطابق آیا ہے سو ان کی خوشی دیدنی ہے۔ یہ دیگر بات کہ خوشی عارضی بھی ہے اور مصنوعی بھی۔ مجھے یہ فیصلہ سن کر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ ہاں یوں لگا کہ جیسے اپنے پیسوں سے ایوارڈ لے کر خود کو ایوارڈ یافتہ قرار دے دیا گیا ہو۔ یہ فیصلہ کیسا ہے اس بارے ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہے۔ کپتان کے مخالف اسے انصاف کی فتح اور اس کے حامی اسے انصاف کا قتل قرار دے رہے ہیں۔
اس فیصلے نے بہت سے سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔ اس فیصلے کو مختلف زاویوں سے زیر بحث لایا جا رہا۔ کئی سوالات خاصے اہم ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ جج ناصر جاوید رانا، سپریم کورٹ کی نظر میں کوئی بھی عدالتی کرنے کا اہل اور مجاز نہیں تو وہ کس طرح یہ فیصلہ دے سکتا ہے۔ ایک سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ججز کو پھر واپس سروس میں کیسے لایا جاتا ہے اور کون لاتا ہے؟، سوال یہ بھی بنتا ہے کہ چند منظور نظر جرنلسٹوں کو اس فیصلے کا پہلے سے علم کیسے ہو گیا تھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ ملک ریاض کو کوئی سزا کیوں نہیں دی گئی۔ کیا اس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جج نے سخت ترین سزا کیوں سنائی؟، یہ سزا زیادہ سے زیادہ ہے کہ اس فیصلے میں اتنی ہی سزا سنائی جا سکتی تھی۔ بشریٰ بی بی کا اس کیس سے تعلق کیسے جوڑا گیا؟۔
اب ذرا اس جج کا ماضی بھی جان لیجئے۔ جج ناصر جاوید رانا نے 2004ء میں نہ صرف ملزم کو پیش کرائے بغیر اُس کا جسمانی ریمانڈ دینے کا غلط فیصلہ کیا بلکہ سپریم کورٹ میں جھوٹا بیانِ حلفی بھی جمع کروایا جو جھوٹا ثابت ہونے پر اُن سے جوڈیشل اختیارات واپس لے لیے گئے اور سپریم کورٹ نے لکھا کہ غلط فیصلہ دے کر مِس کنڈکٹ کرنے اور جھوٹے موقف پر ڈھٹائی سے قائم رہنے والے ناصر جاوید رانا جوڈیشل سروس کے لیے فِٹ نہیں ہیں۔
القادر ٹرسٹ کی اگر بات کی جائے تو یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جس کی بنیاد 1996ء میں عمران خان نے رکھی تھی۔ یہ ٹرسٹ غربت سے نجات فراہم کرنے اور تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ ٔالقادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ سنانے والے 190ملین پائونڈز ریفرنس میں سزا سنائے جانے کے بعد عدالتی عملے نے بشریٰ بی بی کو تحویل میں لے لیا۔ احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے ریفرنس کا محفوظ فیصلہ اڈیالہ جیل میں سنایا ۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو کرپٹ پریکٹسز، اختیارات کے ناجائز استعمال پر 14سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ عدالت نے قرار دیا کہ بانی پی ٹی آئی کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر بشریٰ بی بی کو 7سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جس کے بعد عدالتی عملے نے بشریٰ بی بی کو حراست میں لے لیا۔ سزا سنائے جانے کے بعد بشریٰ بی بی کا سامان اڈیالہ جیل
کے باہر پہنچا دیا گیا، سامان میں کمبل ، کھانے پینے کی اشیا، کپڑے اور ادویات شامل ہیں۔ جیل حکام نے بشریٰ بی بی کا سامان اندر لانے کی اجازت دے دی۔ اس موقع پر اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ فیصلے پر ہمیں کوئی حیرانی نہیں ہوئی ۔ بانی پی ٹی آئی احتساب عدالت کے فیصلے پر ہنس پڑے۔ بشریٰ بی بی بھی فیصلہ سن کر مسکرائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ متنازعہ فیصلوں میں ایک اور اضافہ ہوا ہے ۔ بانی پی ٹی آئی سرخرو ہوں گے۔ بانی پی ٹی آئی پر سیاسی بنیادوں پر کیسز بنائے گئے ۔ بانی پی ٹی آئی اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا مذاکرات جاری رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس 7دن کا وقت ہے۔ کمیشن میں پیش رفت نہیں ہوتی تو پھر مذاکرات نہیں ہوں گے۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج یہ فیصلہ القادر ٹرسٹ پہ سنوا کر اس یونیورسٹی کو بند کرنے کی مذموم سازش کی گئی ہے کہ جہاں سیرت النبیؐ پڑھائی جا رہی ہے۔ القادر یونیورسٹی کی سنگ بنیاد کی تقریب 5مئی 2019ء کوسوہاوہ میں ہوئی، جس میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ ٹرسٹ پاکستان میں غریبوں اور ضرورت مندوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ٹرسٹ کا پہلا منصوبہ میانوالی میں ایک سکول بنانا تھا ۔ اس سکول کا نام خان کے والد کے نام پر رکھا گیا تھا، جو ایک استاد تھے۔ اس کے بعد سے ٹرسٹ نے اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی تاکہ بے گھر افراد کو خوراک اور پناہ گاہ فراہم کی جا سکے، طلباء کو مالی مدد فراہم کی جا سکیں، اور ہسپتال اور کلینک چلائے جا سکیں ۔
بعض حلقوں کی جانب سے ٹرسٹ کو فرقہ واریت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ 2019ء میں، ٹرسٹ پر الزام لگایا گیا تھا کہ ایک کالعدم فرقہ پرست تنظیم کو مالی مدد فراہم کی گئی۔ تاہم ٹرسٹ نے ان الزامات کی تردید کی ۔2023ء میں، عمران خان کو نیب نے ٹرسٹ سے متعلق بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا تھا ۔ بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ انسداد بدعنوانی کی عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے القادر ٹرسٹ کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے اپنا مقدمہ ثابت کر دیا ہے اور انہوں نے عمران خان کو چودہ برس جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات برس قید کی سزا سنائی۔ اڈیالہ جیل میں عارضی کمرہ عدالت میں عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی پر بالترتیب 10لاکھ اور پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ بھی
عائد کیا۔ یہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں چھ ماہ قید مزید ہو گی ۔ اس مقدمے کی سماعت اسی اڈیالہ جیل میں ہوتی رہی تھی، جہاں عمران خان قید ہیں۔
القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کو غیر قانونی مراعات دینے کے بدلے رشوت میں اپنے اور اپنی اہلیہ کے ملکیتی ٹرسٹ کے لیے سیکڑوں کنال اراضی حاصل کی تھی۔ عمران خان اس الزام کو مسترد کرتے آئے ہیں ۔ بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ ہمیں ایک ماہ سے پتا تھا انہوں نے عمران خان کو سزا دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس جج نے سزا سنائی اس پر ترس آرہا ہے، جج کو شاید اپنی ترقی نظر آرہی تھی یا ان پر پریشر تھا، یہ یونیورسٹی بانی پی ٹی آئی کا ایک خواب تھا، عمران خان کو یونیورسٹی بنانے پر سزا دی گئی ہے۔رہنما تحریک انصاف بیرسٹر علی ظفر نے اس حوالے سے کہا کہ یہ فیک کیس ہے۔ ہمیں اندازہ تھا سزا سنائی جائے گی ۔ عدالتیں مینج کی جا رہی ہیں، اس فیصلے پر ہمیں تعجب نہیں صرف افسوس ہوا۔ انصاف کا نظام دفن ہو گیا ہے۔ فیصلے سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ حکومت کسی صورت کپتان کو باہر نہیں آنے دینا چاہتی۔ کیوں کہ اس کی بہتری اسی میں ہے۔ ملک ان سے چل نہیں رہا۔ معاملات ان کے ہاتھ سے نکلے چلے جاتے ہیں۔ وہ کپتان کو دبائو میں رکھنا چاہتے ہیں کہ کسی ایسے سمجھوتے پر مجبور کیا جائے جس سے ان کی سیاسی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچے۔
آخر میں عرفان صدیقی کے بیان کا ذکر ضروری ہے کہ کئی جگہ مذاکرات کرنے سے بہتر نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ ان کا اشارہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی آرمی چیف سے ملاقات کی طرف تھا۔ سجاد حسین سحر کیا اچھے موقع پر یاد آئے ہیں
ہاں مجھ کو ہی کہتے ہیں سحر شہر میں تیرے
میں قتل ہوا عدل کی زنجیر ہلا کر

جواب دیں

Back to top button