ColumnImtiaz Aasi

غیر قانونی دولت، بیرون ملک لے جانا جرم نہیں؟

امتیاز عاصی
صبح جب اخبارات دیکھے تو سابق وزیراعظم عمران خان کو القادر یونیورسٹی کیس میں14سال سزا کی لیڈ پر نظر پڑی۔ لیڈ سٹوری کے ساتھ دو کالمی سرخی پر نظر پڑی تو عمران خان کو عدالت سے سزا کا فیصلہ آنے کے بعد لیگی کارکنوں نے اسلام آباد اور لاہور میں جشن منایا اور نہ صرف مٹھائی تقسیم کی بلکہ اس خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے تو مجھے معروف صوفی بزرگ حضرت میاں محمد بخش کا شعر یاد آگیا
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا
سیاست بڑی ظالم چیز ہے جس میں انسان اخلاقی قدروں کو بھلا دیتا ہے۔ سیاست دانوں نے سیاسی مخاصمت کو ذاتی دشمنی میں بدل دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اور شریف خاندان کے لوگوں کو مبینہ کرپشن کیسوں میں کئی بار سزائیں سنائی گئیں کم از کم ہمیں یاد نہیں کسی سیاسی جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں نے مٹھائیاں تقسیم کی ہوں یا بھنگڑے ڈالے ہوں۔ ہاں البتہ مسلم لیگیوں نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عمران خان اور ان کی اہلیہ کی سزایابی پر بھنگڑے ڈالے جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ چند روز پہلے چیف جسٹس آف پاکستان جناب یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کور کرنے والے صحافیوں کے وفد سے
باتیں کرتے ہوئے اس امر پر تشویش ظاہر کی بین الاقوامی سطح پر ہماری عدلیہ کی رینکنگ بہت کمزور ہے۔ ہمیں یاد ہے نواز شریف کو پانامہ کیس میں سزا ہوئی تو کہا گیا ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی حالانکہ نواز شریف اپنے خلاف مقدمہ میں منی ٹریل پیش کرنے کی بجائے اپنے دفاع میں قطری خط پیش کرتے رہے۔ پہلے تو شریف فیملی لندن میں اپنی پراپرٹی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ عجیب تماشا ہے ایک سو نوے ملین پائونڈ برطانوی حکومت نے ملک ریاض کی غیر قانونی دولت تصور کرتے ہوئے پاکستان کو واپس کئے تھے۔ تعجب ہے ملک ریاض کو کسی تفتیشی ایجنسی نے نہیں پوچھا وہ اتنی بڑی رقم غیر قانونی طریقہ سے بیرون ملک کیوں لے کر گئے تھے؟۔
قانونی ماہرین کی رائے میں عمران خان کے خلاف اس مقدمہ میں کیس میں شہادتوں کا بغور جائزہ نہیں لیا گیا ۔ ملک کی بدقسمتی ہے یہاں فیصلے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں جس کی بنا ہماری عدلیہ کی عالمی سطح پر ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں کس چیز کی کمی تھی گویا ہر چیز ثابت تھی اپنے اثر و رسوخ سے فرد جرم لگنی نہیں دی وزیراعظم بنے تو نیب قوانین ترامیم کرکے اپنے اور اپنی جماعت کئے لوگوں کے خلاف مقدمات ختم کرا لئے۔ کون نہیں جانتا نواز شریف نے پانامہ کیس میں جو ثبوت پیش کئے سب کے سب غلط ثابت ہوئے۔ سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دو واحد جماعتیں ہیں جن کے رہنمائوں کے خلاف منی لانڈرنگ اور مبینہ کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے جو انہوں نے قوانین میں ترامیم کرکے ختم کرا لئے یا پھر انہیں طوالت دیتے رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے عمران خان پہلے وزیراعظم جنہیں چوری کرتے موقع پر پکڑا گیا ہے۔ فرض کریں عمران خان چوری کرتے پکڑا گیا تو کیا شریف خاندان کے لوگ چوری کرتے نہیں پکڑے گئے ؟ عمران خان کے خلاف القادر یونیورسٹی کیس ، نواز شریف کے خلاف پانامہ اور شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات کا جائزہ لیں تو حقیقت آشکار ہوتی ہے۔
نواز شریف لندن میں خریدے گئے فلیٹس کی رقم کا ذریعہ بتانے میں ناکام رہے اور شہباز شریف اور ان کا بیٹا منی لانڈرنگ کے مقدمہ کا سامنا کرنے کی بجائے نیب قوانین میں ترامیم کرکے اجلے ہو گئے۔ حیرت اس پر ہے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے ایک سو نوے ملین پائونڈ کو کرپشن کی رقم قرار دیا اور اتنی بڑی رقم ملک سے باہر غیر قانونی طریقہ سے لے جانے والے ملک ریاض کو کسی نے پوچھا نہیں ۔ ملک کا المیہ یہی یہاں چھوٹا جرم کرے تو سزا دی جاتی ہے کوئی بڑا جرم کرے تو اسے پوچھا نہیں جاتا ہے۔ قرون اولیٰ کے دور میں یہی کچھ ہوتا تھا چھوٹوں کو سزا اور بڑوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے چنانچہ وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ۔ معتوب وزیراعظم عمران خان جسے کئی سو مقدمات کا سامنا کرنے کے باجود اس کے پائے استقلال میں لغرش نہیں آئی جو اس کا حق تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور ایمان کی واضح نشانی ہے۔ القادر یونیورسٹی کیس کے دونوں پہلوئوں کا جائزہ لیں تو ذہن میں سوال آتا ہے عمران خان نے یہ کیس کابینہ ارکان سے خفیہ کیوں رکھا اور ساری کارروائی بند لفافے میں رکھی گئی۔ عمران خان کے دور میں ملک ریاض نے اتنی کثیر رقم غیر قانونی طریقہ سے برطانیہ منتقل کی سابق وزیراعظم نے اس کے خلاف مقدمہ کیوں درج نہیں کرایا؟ اصولی طور پر یہ رقم حکومت پاکستان کو آنی چاہیے تھی نہ کہ سپریم کورٹ کو واپس کرنی چاہیے تھی۔ سابق وزیراعظم جو احتساب کے بڑے دعویٰ دار تھے ملک ریاض کے خلاف غیر قانونی دولت بیرون ملک بھیجنے کی پاداش میں مقدمہ کیوں قائم نہیں کیا؟ سابق وزیراعظم آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے تو ملک ریاض کے خلاف کارروائی ضرور کرتے۔ ہم اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے شائد ملک ریاض کے اثر و رسوخ کے باعث عمران خان اس کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ حیرت طلب پہلو یہ ہے جن جج صاحب نے عمران خان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا ان کے خلاف سوشل میڈیا پر اس امر کی دھوم مچی ہوئی ہے، سابق چیف جسٹس آف پاکستان ناظم صدیقی نے ان کے خلاف کوئی ریمارکس دیئے تھے۔ بدقسمتی سے کرپشن اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے ملک کا کوئی شبہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو بلکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ ملک میں ماحول اس طرح کا بن چکا ہے جس میں سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ عوام کو سمجھ نہیں آرہی ہے وہ کس کی بات پر یقین کریں۔ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہو جائے اور عدلیہ پر دبائو کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے تو یہ بات یقینی ہے ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button