دو ملکوں کی تعلیم کے نام پر ایک اور سیاست کیوں؟

عبد الرزاق برق
مسلم معاشروں میں خواتین کی تعلیم اور مواقع جیسے وقت کے نہایت اہم موضوع پر گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپنی نوعیت کی پہلی دو روزہ تاریخی مسلم ورلڈ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اگرچہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرنا پاکستان کے لئے بلاشبہ ایک بڑا اعزاز ہے جس میں 47مسلم دوست ممالک کے وزیروں و سفیروں، ماہرین تعلیم اور سکالرز سمیت 150سے زائد شخصیات نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں بلائی گئی کہ دنیا بھر میں 12کروڑ لڑکے، لڑکیاں جبکہ پاکستان میں سوا کروڑ لڑکیاں سکول نہیں جا رہیں جن میں اکثریت دیہی علاقوں میں ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے والا سب سے بڑا ملک ہے کیونکہ پاکستان میں کئی نظام تعلیم کی موجودگی میں جتنا بحران سکولوں سے باہر ہے اتنا ہی سرکاری سکولوں کے اندر بھی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے ایک ہمسایہ ملک افغانستان میں لڑکیوں پر پانچویں جماعت سے اوپر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کے ساتھ افغان خواتین کو یونیورسٹیوں میں تعلیم اور کام پر پابندی لگائی گئی ہے ۔ عالم اسلام کا خواتین کو تعلیم دلانے کے بارے میں اس اہم کانفرنس کو بلانے کا مقصد افغانستان میں افغان طالبان جنہوں نے لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے اور افغان خواتین کو یونیورسٹیوں میں تعلیم جاری رکھنے اور وہاں خواتین کے کام کرنے پر جو پابندی لگائی گئی ہے انہیں یہ پیغام دینا ہے کہ انہیں عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنے رویے کو بدلنا ہوگا حالانکہ افغانستان کو بھی مذکورہ کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا لیکن وہاں کا وزیرتعلیم شریک نہیں ہوا ۔ اہم سوال یہ ہے اس کانفرنس میں خواتین کو تعلیم ہر حال میں دلانے کیلئے قران پاک کے بے شمار حوالے دیئے گئے اور جو جاندار دلائل دیئے گئے اور یہ ثابت کیا کہ اسلام خواتین کو تعلیم کے حصول سے ہرگز نہیں روکتا ۔ اسلام ہر مسلمان کو صنفی تمیز کے بغیر بلکہ زیادہ سے زیادہ علم کے حصول کی ترغیب دیتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ کانفرنس میں جو فیصلے کئے گئے ان فیصلوں پر افغانستان میں کیسے عمل کریں گے ؟ کیونکہ وہاں افغان طالبان نے خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی لگا رکھی ہے۔ افغانستان میں خواتین تعلیم سے بالکل محروم ہیں انہیں میڈیکل نرسنگ مڈوائفری (دایا) کی تعلیم حاصل کرنے کی بھی اجازت نہیں ۔ انہیں صرف پانچویں جماعت تک پڑھنے کی اجازت ہے جب ڈاکٹروں، نرسوں، دائیوں کی موجودہ نسل ختم ہوجائے گی تو مستقبل کی خواتین کے لئے علاج کا کوئی نظام نہیں ہوگا چونکہ افغانستان میں مخالف جنس کے علاج پر پہلے ہی پابندی ہے ، صحت صرف مردوں کا حق سمجھا جائے گا ۔ خواتین کی انجینئر ، ڈاکٹر ، صحافی، آئی ٹی وغیرہ کی ملازمتوں پر پہلے ہی پابندی ہے، جو خواتین کسی بھی شعبے میں چھپ کر کام کر رہی ہیں، انہیں پکڑے جانے پر سخت سزا ہے، یہی وجہ ہے کہ افغان خواتین میں ڈاکٹروں نرسوں دائیوں کی کمی ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر زچکی کی پیچیدگیوں سے مر رہی ہے، اس لئے جب تک افغان خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی نہیں ہٹائی جاتی اسلام آباد میں عرب و عجم کا اس اہم کانفرنس کا انعقاد کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ افغان طالبان حکومت کو آج تک پاکستان کی حکومت نے تسلیم نہیں کیا وہ کیسے او آئی سی کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد کریں گے ؟ یہ بات بالکل درست ہے کہ افغانستان اور دنیا میں وہی قومیں ترقی اور کامیابی حاصل کر سکتی ہیں جنہوں نے علم کے زینے تیزی سے طے کئے ہیں اور وہاں کے ہر باشندے نے علم و ہنر کے حوالے سے عظیم روایات کو متعارف کرایا ۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو شعور دیتا اور جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ دینا اسلام میں تعلیم پر خصوصی زور دیا گیا ہے ، حصول علم کو ہر مسلمان مرد عورت کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے ۔ حدیث نبوی ہے کہ علم حاصل کرو تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے اور غار حرا میں جب خاتم الانبیاء صل
اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی جس میں کہا گیا اقرا یعنی پڑھو کے حکم سے ہوا تھا اورجس میں کہا گیا تمہارا رب نہایت مہربان ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، اسی حکم کی تعمیل میں نبی کریم ؐ نے حصول تعلیم کو ہر مسلمان مرد عورت کے لئے فرض اور حکمت و دانائی کی ہر بات کو مومن کی گمشدہ میراث
قرار دیا گیا جو قومیں خواتین کی تعلیم کے خلاف رہیں وہ آج پستیوں میں گرتی نظر آتی ہیں۔ اسلام آباد میں کانفرنس کے منتظمین کو اگر افغان لڑکیوں کی تعلیم کا غم درپیش ہے تو انہیں افغانستان کا مسئلہ وہاں جا کر بات کرنے سے حل کرنا ہوگا ۔ یہاں اسلام آباد میں بات کرنے سے کچھ نہیں ہوگا وہاں جانے کی انکو ہمت نہیں ؟ آخر یہ کانفرنس افغانستان میں کیوں نہیں منعقد کی جاتیں ؟ یہ کانفرنس میری جسم میری مرضی والی لڑکیوں کے لئے کیوں منعقد نہیں کے جاتی؟ افغانستان میں 20سال نیٹو افواج نے افغان خواتین پر جو مظالم کئے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ ان خواتین پر ظلم کرنے کے بارے میں لب کشائی کسی نے نہیں کی۔ اسلام آباد میں مسلم ورلڈ کانفرنس کے منتظمین کو افغان خواتین کی تعلیم پر پابندی کا غم کیوں کھائے جا رہا ہے جبکہ آپ کا وطن عزیز اپنا ملک پاکستان اپنے باسی بچوں کو اور بچیوں کو معیاری تعلیم دینے سے عاجز کیوں ہے؟ لوگ اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلینڈ اور امریکہ جاتے ہیں باہر ملکوں کا سفر کرتے ہیں۔ آپ کے وطن میں اعلیٰ تعلیم دستیاب نہیں ۔اگر تعلیم ہے بھی تو صرف نام کی تعلیم ہے اور وہ بھی ان لوگوں کے لئے ہے جو لوگ حقیقت میں کوئی اثر و رسوخ رکھتے ہوں۔ غریب کے لئے کوئی اچھی تعلیم نہیں ہے نہ ان کے لئے سکولوں میں جگہ ہے اور جو سرکاری سکول مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں لیکن محدود وسائل اور زیادہ تعداد کی وجہ سے یہ اکثر نجی سکولوں کے لئے ایک بڑی مارکیٹ پیدا کرتے ہیں جن کی فیس چند ڈالر فی مہینہ سے شروع ہوتی ہیے۔ اس تعلیم کا کیا فائدہ جس میں بے حیائی ہو۔ویسے اگر پاکستان کے اندر کسی تعلیم نے ترقی کی ہے اور یا وطن (باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
عزیز کا نام روشن کیا ہے تو وہ صرف اور صرف دینی تعلیم ہے جس میں علمائے اسلام کا روشن کردار ہے ۔ خواتین کو تعلیم دلانے کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کرنے والوں سے اکثر لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی تمہیں پڑی ہے، فلسطین کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ کیا تعلیم سے زیادہ انسانی زندگی ضروری نہیں، فلسطین میں بچے، بچیاں ماری جارہی ہیں، فلسطین و غزہ کے لوگوں پہ قیامت ٹوٹی ہوئی ہے ان کے لئے OIC کوئی کانفرنس نہیں بلاتی۔ افغانستان میں افغان خواتین کی تعلیم کے بندش کے خلاف OIC کانفرنس بلارہے ہیں جبکہ فلسطینی بچے اور بچیاں یہودیوں کے سامنے بے بس ہیں۔ جب فلسطین کی بچیاں خون میں رنگی جاتی ہیں ان پر بھی کچھ غور کیا ہے۔ ان کو کچلنے سے بچایا جائے، تعلیم بعد میں دیں گے۔ فلسطینی بچوں کی حق میں آواز اٹھانی چاہیے کیا فلسطینی بچوں اور بچیوں کی حمایت میں بولنے کی تمہیں اجازت نہیں؟ آپ فلسطین کی عورتوں کی آزادی کے لئے کیوں بات نہیں کرتی۔ فلسطین، شام ،عراق، لبنان کی بچیوں اور بچوں کے لئے کب بات کروگی؟ ویسے ملالہ کو غزہ جانا چاہیے وہاں جاکر دیکھے کہ فلسطینی کس حال میں ہیں اور کہاں ہیں ان کے سکول کالج گھر اور ہسپتال جاکر دیکھیں ان بچیوں کے سر پرہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں۔ اگر کوئی زندہ بچا ہے یا نہیں وہاں ہزاروں بچیاں ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلادی گئیں۔ ملالہ کیوں نہیں گئی وہاں کے بچے بچیاں تجھے کیوں یاد نہیں آئیں جو عمارتوں کے ملبے تلے سسک سسک کر مر گئیں مگر انہیں نکالنے کوئی نہ آیا۔ فلسطین کے کالجوں یونیورسٹیوں اور سکولوں پر جو بمباری ہوتی ہے اس کے خلاف کون سٹینڈ لے گا؟ اسرائیل نے ان کے سکول، تعلیم سب کو برباد کیا جب انسان ہوں گے تو تعلیم ہوگی وہاں انسان ختم کئے گئے اور یہودیوں نے فلسطین میں پورا نظام تعلیم تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ 90فیصد یونیورسٹیوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے۔ میرے خیال میں ایک تعلیمی کانفرنس غزہ میں ہوجائے تو اچھا اقدام ہوگا ۔ فلسطین اور غزہ کے بچوں کو اس وقت افغانستان سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ امن کے لحاظ سے بھی خوراک کے صحت اور تعلیم کے لحاظ سے بھی۔ کیا ملالہ نے امریکہ میں صدر سے یا وہاں کے ارکان اسمبلی سے یہ درخواست کی اسرائیل کے خلاف جارحانہ انداز اختیار کیا جائے کہ وہ کس طرح غزہ میں مسلمانوں پر بمباری کر رہے ہیں اور عورتوں ، بچوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔







