Column

’’ بستہ ب ‘‘ سے وابستہ لوگ

سیدہ عنبرین

دن اوپر ہو چکے تھے، بچہ اپنے قدموں پر چل کر باہر آنے پر مصر تھا لیکن سرجن چاہتے تھے کہ آپریشن کے ذریعے ہی کام کو انجام تک پہنچایا جائے، اس سوچ بچار میں پہلے تاریخ دی گئی کہ فیصلے کی ولادت 20دسمبر کو ہو گی، پھر 13جنوری کو شبھ گھڑی سمجھا گیا، کچھ نہ ہوا، 17جنوری کی تاریخ کا اعلان ہوا، اس تاریخ کی اہمیت یہ تھی کہ ایک روز قبل مذاکرات کا اہم ترین دور تھا، لہٰذا تلوار سر پر لٹکا دی گئی، فیصلے سے قبل دنیا بھر میں اس کے منتظروں نے اپنے اپنے ایکسرے اور الٹرا سائونڈ نما تجزیے پیش کئے، اینکرز اور انالسٹ حضرات کے تو روابط دور دور تک ہوتے ہیں، ان کے علاوہ تھڑوں پر بیٹھے اور ریڑھیوں پر کھڑے ہو کر موسم سرما کے کینو کھانے والوں تک کو معلوم تھا کہ ایک کو 14برس اور زندگی کے ساتھی کو 7برس سزا سنائی جائے گی۔
بشریٰ بیگم تو اس سے قبل دی گئی تاریخ کو اپنا مختصر سامان ساتھ لے کر عدالت پہنچی تھیں کہ انہیں سزا سنا کر جیل بھیجنے کے انتظامات پورے ہو چکے ہوں گے، لیکن ایسا نہ تھا، ایک موقع پر جب فیصلہ سنانے کا معاملہ موخر ہوا تو جس شخص کو چھٹی بھیجا گیا اسے خود کو معلوم نہ تھا وہ چھٹی پر ہے، لہٰذا منفرد بہانہ تراش کر ناک بچانے کی کوشش کی، جو ناک ساتھ ہی لے گئی۔ المختصر فیصلہ ناک اور ساکھ دونوں اپنے ساتھ لے گیا ہے، دونوں عرصہ دراز تک اسی طرح واپس نہ آ سکیں گی جس طرح گھر سے بھگائی ہوئی لڑکی، پھر جب وہ واپس پہنچتی ہے تو پلے کچھ باقی نہیں بچتا۔
فراہمی انصاف کے معاملے میں ہم جہاں سوا سو کوس کے فاصلے پر کھڑے تھے اب تو اس جگہ سے بھی کہیں دور دھکیل دیا گیا ہے، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، سزا اسے ملی ہے جو کسی نہ کسی طرح پیسہ وطن لایا ہے، کسی ایسے شخص کو آج تک منی لانڈرنگ میں سزا نہیں ہوئی یعنی جو شخص ملک کو لوٹ کر پیسہ باہر لے گیا پھر ڈرائی کلین کرنے والے پلانٹ میں سے نکال کر لے آیا وہ ملک کا عظیم رہنما قرار پایا۔ عبدالقادر ٹرسٹ کیس جزئیات حقائق کے چہرے سے پردہ ہٹاتی ہیں، لیکن اسے دیکھنے کیلئے آنکھوں کا ہونا ضروری ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پر عرصہ دراز کام بند رہا، بتایا گیا جنرل نیازی اور مختلف کمانڈر ابھی بھارت کی قید میں ہیں، جب تک وہ واپس نہیں پہنچ جاتے اور ان کے بیانات قلم بند نہیں ہو جاتے حقائق تک پہنچنا مشکل ہے۔ ایک سابق وزیراعظم کے مقدمے میں ان کے برخوردار ملک سے باہر تھے اور غیر ملکی شہریت رکھتے تھے، ان کے معاملے میں بھی یہی بہانہ کارآمد تھا کہ اہم شخص جب تک پیش نہیں ہو گا معاملہ آگے نہیں بڑھے گا۔ آج 3درجن شریک کار بلائے ہی نہیں گئے۔ عبدالقادر ٹرسٹ کیس میں جس بند لفافے کا ذکر آتا ہے وہ کابینہ کے روبرو پیش ہوا، 2درجن سے زائد وزراء موجود تھے، اکا دکا کہتے نظر آتے ہیں کہ انہوں نے اس پر اعتراض اٹھایا، لیکن بعد ازاں انہوں نے بھی دستخط کئے، اپنی دیانتداری کا ڈھول پیٹنے والے اس وقت واضع انکار کرتے اور وزارت سے مستعفی ہو کر باہر آ جاتے تو صاحب کردار کہلاتے، یہ لوگ اقتدار سے آخری وقت تک چمٹے رہے اور آئندہ کی جگہ بنانے میں مصروف رہے۔ اگر ایک لمحے کیلئے کوئی غلط کام ہوا تو شریک جرم وہ قریباً 2درجن وزراء مکھن میں سے بال کی طرح کیسے نکل گئے، شریک جرم تو وہ ہو چکے تھے۔
قتل ہوا نظر نہیں آتا، لاش دستیاب نہیں، آلہ قتل برآمد نہیں، قاتل کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، سازش ثابت نہیں ہوئی، پھر بھی اگر فیصلے کے مطابق قتل ہوا ہے تو معاونت کرنے والے بری کیسے ہو گئے، معصوم کیسے قرار پائے۔ 7سال قید تو ان کی بھی بنتی تھی، فیصلہ سنانے والوں کو عرصہ دراز قبل سپریم کورٹ منصب سے ہٹا چکی تھی، انہیں پھر نااہل سے اہل کس نے اور کیوں بنایا؟۔ کیا یہ اعلیٰ عدالت کی بے توقیری نہیں ہے؟، سپریم کورٹ نے اسمبلی نشستوں کا فیصلہ اکثریت سے سنایا، آج تک عملدرآمد نہ ہوا، کیا اس عمل سے اعلیٰ عدالتوں کے وقار میں اضافہ کیا گیا ہے یا یہ توہین عدالت ہے؟۔ سوال تو اور بھی بہت ہیں، لیکن ہر ایک کا جواب ویسا ہی آئے گا جیسا انتخابی نشان چھین لینے کے بعد آیا تھا، پہلے چھینا گیا پھر کہا گیا ہمارے فیصلے کو غلط سمجھا گیا ہے، اگر ایسا تھا تو بہت وقت تھا غلطی ٹھیک کرا کے ریٹائر ہوتے، آنکھیں بند کیوں رکھیں۔ اپنی اور بیگم کی کرپشن کا معاملہ آیا تو لاٹھی ٹیکتی آنٹی کو کس سرعت سے انصاف دلانے کیلئے پورا نظام متحرک ہو گیا تھا، دنیا نے دیکھ لیا۔ ذرائع تصدیق کرتے ہیں پشاور میں کچھ لوگوں کی اہم ملاقات ہوئی، لیکن راز میں نہ رہ سکی، اب کہا جا رہا ہے کہ یہ ملاقات علاقے کی کشیدہ صورتحال کے حوالے سے تھی، چلئے مان لیتے ہیں، لیکن صورتحال کے حوالے سے ملاقات میں تو وزیراعلیٰ خیبر اور وزیر داخلہ کا ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ اور اہم شخصیات بھی ہو سکتی ہیں، بیرسٹر گوہر کے پاس تو حکومت صوبہ خیبر میں کوئی عہدہ نہیں ہے وہ وہاں کیوں بلائے گئے، پھر انہوں نے اپنی سادگی میں اس ملاقات کی تصدیق بھی کر دی۔ علی امین نے ابھی وزیراعلیٰ کے منصب پر کام کرنا ہے، وہ اہم رابطوں میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں، لہٰذا انہوں نے ایک فرمائش پر اپنا بیان بدل لیا، بیرسٹر گوہر نے اپنا بیان نہیں بدلا لیکن انہوں نے پھر زور شور سے اس کی دہائی نہیں دی، انہوں نے جو کہنا تھا کہہ گئے۔ یہ ملاقات ایک مثبت پیشرفت ہے، اس کے بطن سے ملکی اور سیاسی بہتری کی امید ہے، اس پر پینترے کیوں بدلے جا رہے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے۔
یہ اعتراض کوئی کر سکتا ہے کہ نکاح سے پہلے اس قسم کی ملاقاتیں کیوں ہو رہی ہیں تو عرض ہے جنہیں اعتراض ہے کیا وہ رات کے اندھیروں میں ایسی درجنوں ملاقاتیں نہیں کر چکے، یہ رسم تو برس ہا برس پرانی ہے، کوئی نئی نہیں، البتہ تشویش اس بات پر ہو سکتی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے رابطے اس سطح پر پہنچ گئے ہیں اور مذاکرات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں تو ان کا اقتدار خطرے میں پڑ سکتا ہے، عین ممکن ہے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے مذاکرات کو ناکام بنانے کی سازش میں تیزی آ جائے۔
معاشی بحران بڑھ رہا ہے، اعداد و شمار بہتری کے دعوئوں کے خلاف ہیں، ڈالر جہاں 2برس قبل لایا گیا وہیں ہے، مزید کم نہیں ہوا، قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایم او یوز کی تعداد سیکڑوں میں ہے، اس سے ملکی معیشت کا پیٹ نہیں بھرتا۔ 8سو گنا گیس ریٹ بڑھا کر اور سرکاری آئی پی پیز کے ذریعے انہیں بند نہ کر کے روز مرہ کے اخراجات چلائے جا رہے ہیں ۔ لوٹا ہوا ایک ارب تو کیا دبئی گیا ایک روپیہ واپس نہیں لایا جا سکا۔ القادر ٹرسٹ کے ایک بنیادی کردار جس کا نام لینے پر پابندی ہے اس کے رفقا ہزاروں ارب روپیہ مزید نکال کر ایک خلیجی ملک میں نئے بسائے جانے والے شہر کے مختلف پراجیکٹس میں لگانے کیلئے کمربستہ ہیں۔ ہمارے پاس اب صرف ’’بستہ ب ‘‘ سے وابستہ ہی رہ جائیں گے، کیا وہ ملک چلا لیں گے؟۔

جواب دیں

Back to top button