Column

ایک اور کشتی ڈوب گئی !

شاہد ندیم احمد

ملک کے حالات دن بدن ناساز گار ہی ہوتے جارہے ہیں، یہ دیکھتے ہوئے ہر ایک کی کوشش ہے کہ بیرون ملک چلا جائے ، اس کیلئے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کیا جارہا ہے اور اپنے سر مایہ کے ساتھ اپنی قیمتی جانوں کا ضیاع بھی کیا جا رہا ہے، بیرون ملک جا نے کی دوڑ میں ایک کے بعد ایک کشتی دو بنے کا واقعہ رونما ہو رہاہے، لیکن حکومت ماسوائے افسوس و مذمت اور انسانی سمگلروں کے خلاف سخت کارروائی کے اعلان کے سوا کچھ بھی نہیں کر پا رہی ہے، گزشتہ دنوں تارکین وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی، اس میں44پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے، ایک کے بعد ایک تواتر سے واقعات کا ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ مجبور بے روزگار لوگوں کو ملازمتوں کا لالچ دئیے کر غیر قانونی طور پر یورپ لے جانے والے انسانی سمگلروں کی سرگرمیوں پر سارے دعوئوں کے باوجود قابو نہیں پایا جا سکا ہے ۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ادارے سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پا رہے ہیں، اس طرح کے ہر واقعہ کے بعد اعلیٰ عہدیداروں کی ہدایت پر کچھ بڑی سرگرمیاں دکھائی جاتی ہیں، انسانی سمگلروں کی کچھ گرفتاریاں بھی کی جاتی ہیں، لیکن جوں جوں کچھ وقت گزرتا ہے، اس طرح کے معاملات گرد آلود فائلوں کی نذر کر دئیے جاتے ہیں، حکومت کے اعلیٰ عہدیدار بھی ان معاملات سے لا تعلق ہو جاتے ہیں، یوں لواحقین اپنے پیاروں کی اموات پر صبر کے کڑوے گھونٹ پی لیتے ہیں ، اس کے علاوہ غریب اور کر بھی کیا سکتے ہیں، کیونکہ ان سفاکانہ معاملات کے محرک مافیاز کے ہاتھ خاصے مضبوط ہیں اور قانون انصاف کی پکڑ سے کوسوں دور ہیں ۔
اس ملک میں طاقتور اور غریب کیلئے الگ قانون و انصاف ہو نے کے باعث ہی قانون شکنی کر نے والے سر عام دن دندناتے پھر رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہے نہ ہی کوئی روک رہا ہے، غریب بی موت مررہا ہے اور اس پر افسوس کر نے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے، اس واقعہ پر ایک بار پھر وزیر اعظم نے وزیر داخلہ کو انکوائری رپورٹ جلد ہی پیش کر نے سمیت تمام ضروری اقدامات اُٹھانے کی ہدایت کردی ہے، ایک بار پھر انسانی سمگلنگ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے نہ صرف اسے ایک اندو ناک جرم قرار دیا ہے، بلکہ ایسے ظالموں کی شنا خت کر کے سخت سزائیں دلانے کا عہد بھی کیا ہے، لیکن یہ عہد و پیماں ماسوائے دلاسے دینے اور وقت گزارے کے کچھ بھی نہیں ہیں، انسانی سمگلروں کی سر گرمیاں جوں کی توں جاری و ساری ہیں۔
یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے، لیکن اس کو روکا جاسکا ہے نہ ہی اس کا سد باب کیا جاسکا ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ جتنی بھاگ دوڑ اور اقدامات ایسے واقعات کے پیش آنے کے بعد دکھانے کیلئے کیے جاتے ہیں، کیا اس سے زیادہ اچھا اور آسان نہ ہو گا کہ ایک بار ہی واقعی سنجیدگی سے متعلقہ حکام اور اداروں کو ان کے حقیقی فرائض یاد لاکر ہر قیمت پر انسانی سمگلروں کی سر گر میوں کو روکنے پر مجبور کیا جائے اور کوتاہی کے مرتکب افراد کو سخت سزادی جائے، کیو نکہ اداروں کی معاونت کے بغیر انسانی سمگلروں کا دھندا پروان نہیں چڑ سکتا ہے، اس حوالے سے جہاں متعلقہ افراد پر کڑی نظر رکھنا ہو گی، وہیں عوام کا شعور بیدار کر نے کی بھی ضرورت ہے، تاکہ نا جائز طریقوں سے بیرون ممالک جا نے سے گر یز کریں، حکومت کو بھی چاہئے کہ اپنے ملک میں ہی بہتر روز گار کے مواقع مہیا کر ے ، تاکہ بے روز گاری سے مجبور ہو کر انسانی اسمگلروں کا آسان ہدف نہ بنتے رہیں ، لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہو پائے گا کہ جب حکومت کی ترجیحات میں عوام ہوں گے اور حکومت ان کے دیرینہ مسائل کے تدارک کیلئے کوئی سنجیدگی سے کوشش کر ے گی ۔
اگر دیکھا جائے تو اتحادی حکومت عوام کی مشکلات کے تدارک کے دعوئوں اور وعدوں کے ساتھ ہی آئی تھی ،مگر اب تک عوام کے بجائے اپنی ہی مشکلات کے تدارک میں لگی ہوئی ہے ، ایک طرف عوام مہنگائی ،بے روز گاری کا مقابلہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب کبھی اپنوں کی گولیوں سے تو کبھی اغیار کے سمندروں میں ڈوب کر بے موت مر رہے ہیں ، پاکستانی عوام کا کہیں کوئی پر سان حال نہیں ہے، انہیں ملک کے اندر سکون ہے نہ ہی بیرون ملک کوئی آسانیاں مل رہی ہیں ، غریب بے یارو مددگار عوام جائیں تو جائیں کہاں ، کہاں فر یاد کریں ، کس سے مدد مانگیں ، کوئی مدد گار ہے نہ ہی کوئی داد رسی کر رہا ہے ،یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا م کب تک لوگ مہنگائی بے روز گاری سے تنگ آکر بے یارو مدد گار بیرون ملک جاتے ہوئے ڈوب کر مرتے رہیں گے اور حکمران مذمت کے بیانات اور سخت اقدامات کے اعلانات کر کے ہی عوام کو بہلاتے رہیں گے، حکمرانوں کو کچھ کر کے بھی دکھانا ہو گا ، انسانی سمگلروں کو عبرت کا نشان بنانا اور نو جوانوں کے روز گار کو یقینی بنانا ہو گا، ورنہ یہ بے روز گاری سے تنگ آئے لوگوں کا ہجوم ایک دن حکمرانوں کے کاشانوں میں گھس گیا تو اس کے بعد انہیں کوئی بچا پائے گا نہ ہی کہیں بھگا پائے گا۔

جواب دیں

Back to top button